موسمیاتی تباہی اور ماحولیاتی مہاجرین

محمود عالم خالد  اتوار 4 ستمبر 2022

ہمارے ملک میں کوئی کام وقت پر نہیں ہوتا، ہماری یہ عادت بہت پرانی ہے۔ اس رویے نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے،ہم ان ملکوں میں سرفہرست ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں سیلابوں،خشک سالی،قلت آب اور دیگر قدرتی آفات کے نشانے پر ہیں۔

عالمی تھنک ٹینک جرمن واچ نے فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان کو دنیا بھر میں موسموں کی شدت کے نتیجے میں رونما ہونے ہونے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثرہ ملک کا درجہ دے رکھا ہے۔بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی سمیت دنیا کے کئی معتبر تحقیقی اداروں نے پاکستان میں بدلتے موسموں اور ان میں پیدا ہونے والی شدت کی جانب ہماری توجہ مبذول کرائی۔ہمیں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون کی بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔

ہم نے خود بھی مشاہدہ کیا کہ 2010کے بعد سے تقریبا ہر سال ملک کا کوئی نہ کوئی حصہ سیلاب کی زد میں رہتا ہے۔ ہمارے پاس یہ اعداد و شمار بھی موجود تھے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان 173قدرتی آفات کا سامنا کر چکا ہے۔ہم نے مگر ان موسمی سانحات اور عالمی تحقیقی اداروں کی رپوٹوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس ضمن میں کوئی بھی ٹھوس حکمت عملی بنانے کی زحمت گوارہ نہیں کی ۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔2010کے سیلاب کو ’’سپر فلڈ‘‘ کا نام دیا گیا تھاجس سے ملک بھرکے 78اضلاع شدید متاثر ہوئے اور دو کروڑ سے زائد آبادی اس کا نشانہ بنی اور ملک کو 10ارب کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔

محکمہ موسمیات کے ذمے داروں کے مطابق 2010میں آنے والا سیلاب ’’دریائی سیلاب‘‘ تھا جب کہ رواں مون سون میں آنے والے سیلاب کو ’’فلیش فلڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ دونوں بدترین سیلابوں کا موازنہ کرتے ہوئے این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کے2010میں آنے والا سیلاب غیر متوقع تھا جس کے لیے کسی بھی قسم کی تیاری کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھاجب کہ موجودہ سیلاب کے حوالے سے تمام متعلقہ اداروں اور حکومتوں کو آگاہ کر دیا گیا تھا لیکن بارشیں اتنی زیادہ ہوئیں اور بعض علاقوں میں سیلابی ریلے اتنی شدت سے آئے کہ انسانوں، انفرااسٹرکچر سمیت ہر چیز کو بہا کر لے گئے۔ آج ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب آچکا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ملک کاہر ساتواں شہری اس موسمیاتی تباہی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بدترین اور ہولناک نتائج کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق ڈھائی ماہ میں 1191افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے ۔مجموعی طور 3کروڑ 30لاکھ سے زائد آبادی شدید متاثر ہوئی،پاکستان کو اب تک کم از کم 10ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے جب کہ متاثرہ علاقوں میں انفرااسٹرکچر کی بحالی میں پانچ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

ادارے کے مطابق صوبہ سندھ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جس کے 23اضلاع آفت زدہ قرار دیے جا چکے ہیں،ایک کروڑ 45لاکھ سے زائد آبادی متاثرین میں شامل ہے،بلوچستان کے 34اضلاع اور 91لاکھ 82ہزار سے زائد لوگ،پنجاب کے 8اضلاع اور48لاکھ سے زائد آبادی،کے پی کے کے33اضلاع اور 43لاکھ سے زائد آبادی متاثرین میں شامل ہے۔صورتحال مگر صوبہ سندھ میں مزید ہولناک ہونے جا رہی ہے کیونکہ صوبے کا بیشتر علاقہ پہلے ہی پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور اندازے کے مطابق 7لاکھ کیوسک پانی جو سیلابی ریلے کی صورت میں اوپر سے آرہا ہے تباہی کی مزید داستانیں رقم کرے گا۔

واضح رہے کہ سندھ کے بیراجوں میں 3سے 4لاکھ کیوسک پانی کی گنجائش ہے جب کہ 5لاکھ کیوسک سے اوپر پانی اس وقت موجود ہے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کوٹری، سکھر اور حیدرآباد کے سا تھ کئی چھوٹے بڑے شہر اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں اور یہ حالیہ سیلاب سے کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 30لاکھ افراد ہر سال قدرتی آفات کا شکار ہوتے ہیں جو ملک کی آبادی کا تقریبا 1.6فیصد بنتا ہے ۔ ان متاثرین کی بڑی تعداد اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر نزدیکی شہروں میں رہائش اختیار کر لیتی ہے۔انڈس ڈیلٹا دنیا کا پانچواں بڑا ڈیلٹا ہے جو گزشتہ دو دہائیوں میں نوے فیصد سے زائد سکڑ چکا ہے جس کے نتیجے میں اندازے کے مطابق 1.2ملین سے زائد لوگ شہر کراچی کی جانب ہجرت کر چکے ہیں جنھیں عام اصطلاح میں ماحولیاتی مہاجرین یا ماحولیاتی پناہ گزین کہا جا تا ہے۔

یہ الفاظ ان لوگوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جو موسموں کی شدت یا موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں اپنی آبائی رہائش گاہیں عارضی یا مستقل طور پر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ ماحولیاتی پناہ گزینوں کی اصطلاح 1985میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی ماہر عصام ال بناوی نے ایجاد کی تھی۔

عالمی تنظیم ایکشن ایڈ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان میں سطح سمندر میں اضافے،صاف پانی کی قلت ،ماحولیاتی نظام میں بگاڑ،فضلوں کی پیداوار میں کمی اور خشک سالی کی وجہ سے 6لاکھ 82ہزار افراد 2020تک موسمیاتی مہاجرین بن کر اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کر چکے تھے۔اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی ایشیا میں شہروں کی جانب ہجرت کرنے کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2025تک ملک کی نصف آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہو گی۔

عالمی بینک نے بتایا ہے کہ 2050تک جنوبی ایشیا کے چار کروڑ لوگ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔گرین ہائوس گیسوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اخراج کے باعث جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں موسمی تباہ کاریاں جن میں سیلاب، ہیٹ ویو،طوفان،خشک سالی اور دیگر قدرتی آفات بھی دنیا بھر میں بڑھتی جا رہی ہیں اور لوگ ان کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے دنیا کے ہر خطے میں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیںاور ان کی تعداد میں روز بروزاضافہ ہوتا جا رہاہے۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن آن مائیگریشن نے اندازہ لگایا ہے کہ 2050تک 200ملین لوگ موسمیاتی آفات کی وجہ سے اپنی رہائش گاہوں کو کو چھوڑ سکتے ہیں ۔یاد رہے کہ 2010 کے ہزاروں سیلاب متاثرین آج بھی کراچی کے مختلف علاقوں کی کچی آبادیوں میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ حالیہ سیلاب متاثرین کا ٹھکانہ بھی کچھ عرصے بعد مختلف کچی آبادیوں میں ہو گا یا نئی کچی آبادیاں وجود میں آیئںگی اور موسمیاتی تباہی کے باعث ہجرت کرنے والوں کو ایک مرتبہ پھر لاوارث چھوڑ دیا جائے گا۔

یہ تمام المناک حقائق اپنی جگہ لیکن اب نہ صرف ہمیں بلکہ پوری دنیا کو یہ سمجھنا ہو گا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اس عمل کو روکنے کی اجتماعی کوششیں نہ کی گئیں تو دنیا سے ہر نوع کی حیات کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ ہمیں فنا اور بقا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔