وہ ننھی بچی اور سیلاب

نسیم انجم  اتوار 4 ستمبر 2022
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

وہ بہ مشکل سال بھرکی بچی ہوگی، اس کی ماں نے بڑے ارمانوں سے سیاہ دھاریوں کا سوٹ اپنے ہاتھوں سے سی کر پہنایا تھا ، اس کی ننھی سی قمیض پر سرخ رنگ کے پھول نمایاں تھے۔

نہ جانے وہ کس کے آنگن کا پھول اور کس ماں کے لخت جگر کا ٹکڑا تھی، گلاب جیسے گال چہرے پر بلا کا سکون۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ موت کے ظالم سیلابی ریلے سے اٹھکھیلیاں کر رہی ہے، اجل اس کا تعاقب کرتے کرتے بہت نزدیک آگئی ہے، وہ دور تک پھیلے ہوئے پانی سے لطف اندوز ہو رہی تھی کبھی پانی کی لہر آجاتی تو وہ ڈوبتے ڈوبتے بچتی ، سیلاب کے پانی میں شامل مٹی کی خوشبو سے وہ لطف اندوز ہو رہی تھی، اس کی زبان پر مٹی کا ذائقہ اپنی جگہ بنا چکا تھا، وہ مٹی کھانے اور اس کے مزے لینے کے لیے اپنی زبان ہونٹوں پر پھیر رہی تھی، وہ بالکل تنہا تھی اس کے ماں باپ اور گاؤں کے لوگوں کو سیلابی ریلا نہ جانے کہاں بہا کر لے گیا تھا ، زندہ تھے یا بے رحم موجوں نے نگل لیا تھا ، ان کے گھر کا سامان پلنگ، صندوق، مویشی، بستر بھانڈے سب کچھ سیلاب بہا کر لے گیا تھا ، ہزاروں لوگ سیلاب برد ہوئے تھے۔ اب وہاں کچے مکان نہیں تھے اور چھپر اور نہ جھگیاں۔

صفحہ ہستی سے گاؤں کے گاؤں مٹ گئے تھے، اب گارے سے لپا ہوا چٹیل میدان تھا، لیکن وہ ننھی دھاری دار لباس میں ملبوس بچی تمام حالات سے بے خبر تھی، پس وہ تو پانی میں کھیل رہی تھی، پانی آ رہا تھا اور خوب آ رہا تھا، لیکن ذرا فاصلے سے وہ پانی پر اپنے جسم کو ریت پر گاڑ کر بیٹھ گئی تھی، اسے بھلا کیا پتا کہ سیلاب کیسے آتا ہے اور برسات نے سیلاب کی شکل کیسے اختیار کرلی ہے، اس کے گاؤں کی طرف پانی کا رخ موڑ دیا گیا ہے، تاکہ وہ سب محفوظ رہیں، اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا آخر غریب، مفلس اور قلانچ ہی کیوں آسمانی و سماوی آفات کا شکار ہوتا ہے، وہ معصوم بچی کیا جانے کہ کافی دنوں سے موسموں کی سنگینی کے بارے میں بتایا جا رہا تھا، سائنس دان تنبیہ کر رہے تھے، محکمہ موسمیات سے آگاہ کیا جا رہا تھا تو پھر ان حالات میں اس کے آقاؤں نے اسے اور اس جیسے ہزاروں معصوم بچوں، ان کے بوڑھے والدین آس پاس کی ہمجولیوں اور ننھے منے بھائی بہنوں کے لیے پناہ گاہوں کا انتظام کیوں نہ کیا؟

اسے یہ بھی پتا نہیں تھا کہ اس کے اپنے لوگوں کو بھوکا مرنے کے لیے کیوں چھوڑ دیا گیا ہے اور مدد کے لیے ایک حقیر سی رقم جس کا آدھا کلو دودھ بھی نہیں آسکتا ہو، کیوں دی گئی، کیا اس کے ماما چاچا کا مذاق اڑایا گیا ہے، ان لوگوں کی بے بسی، بھوک اور بے لباسی کا تمسخر اڑایا گیا ہے، اس سیاہ دھاری والی قمیض زیب تن کرنے والی بچی کو بھلا کیا معلوم کہ اس کا خاندان، گاؤں کے سب لوگ دن رات کولہو کے بیل کی طرح فصلوں کو سینچنے اور بیج اگانے کے عمل سے صبح و شام گزرتے ہیں اور جب فصلیں تیار ہو جاتی ہیں تب سارا مال ساہوکار، پسینہ ان کا اور چند دنوں کے لیے تھوڑا سا گندم، کچے پکے پھل اور ترکاریاں اس کے حصے میں آتی ہیں اور سیلاب بھی ان کے ہی حصے میں زمین کے ناخداؤں نے لکھ دیا ہے۔

اس بے چاری پری جیسی بچی کو جسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ کوہ قاف سے ابھی اتری ہو اور پانی میں غوطہ خوری کرکے موت کو حیران کر رہی ہو، وہ کیا جانے اس کے اپنوں نے کوئلوں کی کانوں میں کام کرتے ہوئے جان گنوائی ہے، صرف چند سکوں کے لیے جو اس کے خاندان کے لیے ناکافی ہیں، ان پیسوں سے جب پیٹ کا جہنم نہیں بھر سکتا تو علاج اور تعلیم کا خرچ کس طرح ممکن ہے۔ اس کا صرف اور صرف چالیس سالہ بوڑھا باپ مہنگائی کیسے برداشت کرسکتا ہے، صدموں کی دھوپ اور کڑی محنت کے چلچلاتے سورج نے ان کی جوانی اور زندگی کی خوبصورت بہاروں کو جھلسا دیا ہے لیکن دولت کی ریل پیل میں زندگی گزارنے والوں کو بھلا کیا احساس ہو سکتا ہے؟

وہ اب بھی سیلابی ریلے میں بیٹھی موجوں سے کھیل رہی ہے کبھی ڈوبتے ڈوبتے بچ جاتی ہے، بچانے والا بڑی قدرت والا ہے وہ جسے چاہے بچا لے۔ سمندر کی تہہ سے زندہ سلامت نکال لے، اور اگر موت دینا چاہے تو محل کے نرم و گرم بستر پر ملک الموت کو بھیج دے۔ وہ سندر سی پھولوں جیسی ننھی بچی نہ رو رہی ہے اور نہ گھبرا رہی ہے بلکہ بے فکر ہوکر ایسے بیٹھی ہے جیسے ماں کی آغوش میں ہو اور موسم برسات کی چھٹیوں کو اپنے کپڑوں اور بدن کو گیلا کرنے والے موسم سے خوش ہو۔

وہ کھیل رہی ہے وڈیو بنانے والا وڈیو اپ لوڈ کر رہا ہے، لوگ اس کی وڈیو دیکھ کر اشک بار ہوگئے ہیں لیکن وہ سیاہ دھاری اور سرخ پھولوں کا سوٹ پہنے اپنی دنیا میں مگن ہے، اسے نہیں معلوم کہ یہ ماں کا پہنایا ہوا سوٹ آخری ثابت ہوگا اب نہ چھوٹے چھوٹے ارمانوں سے سیئے ہوئے کپڑے میسر آئیں گے اور ماں کا لمس اور نہ وہ پنگوڑہ، جو چارپائی کی پٹی پر دوپٹہ باندھ کر اس کے لیے بنایا گیا تھا اب وہ اپنے شفیق باپ کے پسینے سے شرابور چہرہ اور اس میں سے جھانکتی ہوئی مسکراہٹ کو دیکھ کر اس کی جانب لپکے گی۔ وہ پانچ نوجوان ایک بڑے پتھر پر کھڑے اپنی زندگیوں کو بچانے اور مدد کے منتظر ہیں۔

وہ تو اپنے گھروں سے خیریت سے نکلے تھے، زیست کی پگڈنڈی پر رواں دواں آنیوالے وقت اور ظالم موسم کی آمد پر حیران و پریشان تھے وہ جلد سے جلد راستہ طے کرنا چاہتے تھے۔ لیکن سیلاب کی رفتار قیامت کی طرح برق رفتار تھی۔ قیامت بھی تو ایک صور کے بعد دوسرے صور میں آجائے گی اور پھر برہنہ بدن، برہنہ پا میدان حشر میں دوڑ لگ جائے گی۔ یہاں بھی قیامت بپا ہو چکی ہے وہ پانچوں دوست مدد ، مدد کی صدائیں لگا رہے ہیں مقامی لوگوں نے رسیاں پھینکی ہیں لیکن جان بچانے کے لیے رسے اور رسی ناکافی ہیں۔ سیلاب بہت وزنی ہے، جس نے پختہ عمارتوں کو گرا دیا ، ہوٹل، پکے مکانات لمحہ بھر میں پانی میں بہہ گئے، بھاری گاڑیاں اس میں بیٹھے لوگ پل میں گہرے پانیوں کی نذر ہوگئے مگر وہ پتھر پرکھڑے پانچ دوست ہیلی کاپٹر کا انتظار کر رہے ہیں وہ جان کی امان کے لیے اللہ کے روبرو گڑگڑا رہے ہیں لیکن دعا مستجاب نہیں ہو رہی ہے، کاتب تقدیر نے ان کی قسمت میں شہادت لکھ دی ہے۔

وہ زندگی سے بچھڑنا نہیں چاہتے، وہ امداد کے منتظر ہیں، خوف سے سانسیں حلق میں اٹکتی محسوس ہو رہی ہیں، گویا دل دھڑکنا بھول گیا ہے اور آنکھیں ساکت ہوگئی ہیں، موت انھیں اپنی آغوش میں لینے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے، ہیلی کاپٹر نہیں آیا، اجل آگئی، وہ چاروں بہہ گئے سیلابی ریلے میں، ایک درخت پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔چاروں صوبوں میں پانی ہی پانی ہے اور اس میں ڈوبنے والوں کی داستانیں باد موسم کے ساتھ دور دور کا سفر کر رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔