مژگاں تو کھول۔۔۔!

ایم جے گوہر  اتوار 4 ستمبر 2022
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

قدرتی آفات سے دنیا بھر میں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ بارشیں، سیلاب، زلزلے اور دیگر زمینی و آسمانی آفات سے تباہی و بربادی کی داستانیں رقم ہوتی ہیں، انسانی المیے جنم لیتے ہیں اور ہزاروں لوگ نہ صرف موت کی آغوش میں ابدی نیند سو جاتے ہیں بلکہ ان کے لواحقین ایسی ناقابل بیان پریشانیوں اور مسائل میں گھر جاتے ہیں کہ سال ہا سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی بحالی ایک سوالیہ نشان بنی رہتی ہے۔

ذاتی مکانوں کی تباہی کے بعد لوگ در بہ در کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں، دنیا ترقی کر رہی ہے، مسائل و مشکلات کے حل تلاش کیے جا رہے ہیں، ہر سطح پر تحقیق کی جا رہی ہے اور حکومتیں اپنے لوگوں کو قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے پالیسیاں اور منصوبے بنا رہی ہیں۔ امریکا، یورپ، ایشیا اور بہ طور خاص جنوبی ایشیا کے ممالک قدرتی آفات سے کم و بیش ہر سال متاثر ہوتے ہیں۔

عالمی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں غیر معمولی بارشیں، شدید سیلاب، سمندری طوفان اور زلزلے وقفے وقفے سے دنیا کے مختلف خطوں کو متاثر کر رہے ہیں، برسلز میں قائم سینٹر فار ریسرچ آن دی ایپڈیمولوجی آف ڈیزاسٹر کریڈ اور آفس آف یو ایس فارن ڈیزاسٹر اسسٹنس کی جانب سے تیار کی گئی ہنگامی واقعات کے ڈیٹا بیس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1996 سے 2015 کے درمیان قدرتی آفات سے 85400 اموات ہوئیں۔ جب کہ 2006 سے 2015 کے دوران آنیوالوں سیلاب سے 5000 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

رپورٹ کیمطابق پاکستان میں سیلاب کے علاوہ تباہی و بربادی کی دوسری بڑی وجہ مختلف ادوار میں آنیوالے خوف ناک زلزلے ہیں۔ 1996-2005 کے دوران ملک میں آنیوالے زلزلوں سے 73500 لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور، آفات کے وبائی امراض پر تحقیق کے مرکز اور امریکا کے غیر ملکی آفات سے متعلق امداد کی فراہمی کے دفتر کی رپورٹ کیمطابق سال 1900 سے پاکستان میں آنیوالی تمام قدرتی آفات میں کم ازکم 172730 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

سیلابوں سے تقریباً 69.1 ملین افراد، زلزلوں اور طوفانوں سے بالترتیب 6.6 اور 2.6 ملین افراد متاثر ہوئے۔ وطن عزیز میں مجموعی طور پر 71 سیلاب، 24 زلزلے، 23 طوفان آئے۔ 15 واقعات جو انتہائی درجہ کی خصوصیت رکھتے ہیں، کچھ 11 برفانی تودے، کم ازکم 10 وبائی امراض اور 9 لینڈ سلائیڈر نے تقسیم ہند سے قبل اور بعد کے پاکستان کی خوش حالی و ترقی کو ناقابل تلافی نقصان اور حیران کن دھچکا پہنچایا۔

ان سب سانحات میں سب سے زیادہ قابل ذکر 1935 میں بلوچستان میں آنیوالا زلزلہ اور نومبر 1945 میں مکران کے ساحل پر 8.1 کی شدت سے آنیوالا زلزلہ تھا جس میں 4000 سے زائد لوگ مارے گئے تھے، دریائے راوی میں 1950 میں آنیوالا کالا سیلاب 2290 افراد کی جانیں لے گیا تھا۔ اس میں 10 ہزار گھر تباہ اور 0.9 ملین افراد گھروں سے محروم ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں 1970 میں مشرقی پاکستان میں آنیوالے طوفان نے پانچ لاکھ لوگوں کو موت کی وادی میں پہنچا دیا تھا۔ جب کہ 15 دسمبر 1965 کو کراچی میں آنیوالے طوفان کے باعث10 ہزار سے زائد لوگ موت کی نیند سو گئے تھے۔

اکتوبر 2005 کا زلزلہ کیسے یاد نہیں ہوگا؟ جس میں تقریباً 85 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ پھر 2010 کا سیلاب بلا اپنی ہلاکت خیزیاں دکھاتے ہوئے 2000 سے زائد افراد کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر گیا تھا۔ 80 ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تھے، ورلڈ بینک نے اپنی 13 جون 2017 کی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے سب سے زیادہ قدرتی آفات کے شکار ممالک میں سے ایک ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران قدرتی آفات سے ملک کو تقریباً 18 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ 2010 کے سیلاب اور اس کے بعد آنیوالے سیلابوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے جو مضر اثرات مرتب کیے اور گہرے زخم لگائے ہیں اہل وطن انھیں بھولے نہیں ہیں۔ ایک محتاط اندازے کیمطابق وطن عزیز میں ہر سال قدرتی آفات سے تقریباً 30 لاکھ افراد متاثر ہوتے ہیں۔ سیلابوں سے معاشی نقصان بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں، جس کا ایک محتاط تخمینہ 1.2 ارب ڈالر سے 1.8 ارب ڈالر کے درمیان ہے جو جی ڈی پی کے 0.5 فیصد سے 0.8 فیصد کے برابر ہے۔

آج وطن عزیز کے چاروں صوبوں کے لاکھوں افراد جون کے وسط سے شروع ہونے والی غیر معمولی بارشوں اور سیلابی پانیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، جو لوگ سیلاب سے محفوظ ہیں اپنے ہم وطنوں کی تباہی و بربادی کو دیکھ کر ان کے دل آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ ایسے ایسے دل خراش اور کرب ناک مناظر کی وڈیوز سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر دکھائی جا رہی ہیں کہ جنھیں دیکھ کر دل دہل جاتے ہیں۔

محکمہ موسمیات کی بار بار وارننگ کے باوجود ارباب اقتدار نے آنیوالے امکانی خطرے، غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے ممکنہ تباہی اور لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے کوئی قابل ذکر اقدامات نہ اٹھائے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے سے برسر پیکار اور مقدمات پر مقدمات بنانے اور اپنی برتری و حاکمیت ثابت کرنے میں گم رہے۔ جب کہ چاروں صوبوں کے لاکھوں لوگ شدید بارشوں اور سیلابی ریلوں میں بہتے اور جانیں گنواتے رہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک گیر سطح پر 116 اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور 326 بچوں سمیت 900 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پانچ لاکھ سے زائد مکانات منہدم اور نتیجے میں تین کروڑ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔اتنا سب کچھ برباد ہونے کے بعد حاکموں کو ہوش آیا ہے اور ملک میں قومی ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ ہماری اجتماعی بے حسی و نالائقی ہے کہ اپنی ناکامیوں اور بربادیوں کا بوجھ خود اٹھانے سے قاصر ہیں اور اقوام عالم سے سیلاب زدگان کی مدد کی اپیلیں کر رہے ہیں۔

طرفہ تماشا یہ کہ جب بیرونی دنیا سے امدادی سامان یہاں پہنچتا ہے تو پھر عوام سے لے کر سرکار تک اس میں نقب لگانے کے لیے گھناؤنی سازشیں بھی شروع کر دیتی ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں، خس و خاشاک کی طرح بستیوں کی بستیاں سیلابی ریلوں میں بہہ گئی ہیں، کروڑوں لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ بحالی کے اقدامات میں کئی سال لگیں گے۔ 2010 کے سیلاب متاثرین اور 2005 کے زلزلہ زدگان کی آج تک مکمل بحالی کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ ہمارے ارباب اختیار حادثہ ہونے کے بعد کیوں جاگتے ہیں؟ قدرتی آفات سے نمٹنے والے اداروں کی کارکردگی کے آگے بڑے سوالیہ نشانات ہیں۔ میر تقی میر نے کہا تھا:

کن نیندوں اب تُو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔