دریائے سندھ

جاوید قاضی  اتوار 4 ستمبر 2022
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یہ سندھ ہے، دریا، دریا راہیں ہیں، ہر سمت، ہر چپہ پانی ہے۔ سندھی میں ’’پٹ‘‘ فرش کو کہتے ہیں اور’’ پیٹ‘‘دریا کے درمیان کو۔ اس آغوش کو جہاں سے دھارا بہتا ہے۔ سندھ اور سندھو چولی اور دامن کی طرح ہیں۔ اب کے معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ کچھ خبر نہیں کہ چولی کو ن اور دامن کون ہے۔ پٹ کون ہے اور پیٹ کون۔ قاتل کون ہے اور مقتول کون؟ شاہ بھٹائی اس داستان دریا کا سب سے بڑا راوی ہے، اور دوسرا بڑا راوی شیخ ایاز۔ سب نے دریا گایا ہے۔

بھٹائی کو موہن جودڑو، ہڑپہ، مہرگڑھ کا پتہ نہ تھا، مگر پیدا وہ اس کی کوکھ سے ہوا تھا۔ سر سوہنی میں، سوہنی کو اپنے وجود میں، اپنے لاشعور میں کچھ اس طرح سمو دیا کہ اس کی ہر رگ کو جیسے پالیتا ہے اور کہتا ہے ’’اے دریا جب قیامت ہوگی میں خدا کو تمہاری شکایت کروں گی‘‘حیرت ہے شیخ ایاز کے پاس کہنے کے لیے سورمیاں نہ تھیں مگر اس بات کو وہ شاید کچھ اس طرح لکھتا ہے ’’دریا کے اندر جو دہشت ہے وہ ایک دن قیامت ہو جائے گی‘‘ دنیا کی قدیم وادیوں میں سب سے قدیم وادی انڈس ہے، یہ جو سندھ ہے اس کا نام یونانیوں کی کتابوں میں ملتا ہے اور انڈس سندھو کا نام ہے جو یونانیوں نے رکھا، اس لیے اس کو انڈس ویلی کہا جاتا ہے۔ سکندر اعظم نے جب دریا دیکھا تو اس کی انگلیاں اس کے منہ میں آگئیں، یونانی اس کو سمندر سمجھ بیٹھے۔

ناسا نے سیٹلائٹ کے ذریعے جو تصاویر اتاری ہیں، کہتے ہیں کہ ایک طویل ندی ہے جو بن گئی ہے جو اب سے پہلے نہ تھی۔ سندھ کا بہت سارا وجود اب دریا ہے، اس کے دونوں کنارے۔ جب کہ 2011میں صرف دائیں کنارے کی زمین ڈوبی تھی۔ سائوتھ پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان میں بارشیں ہوئیں اور سندھ میں بھی ہوئیں کچھ ایسی بارشیں ہوئیں جن کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں، لیکن وہ اوپر ہیں سطح سمندر سے وہاں کا بہائو بھی یہاں آیا۔ سندھ پر دو قیامتیں گزریں بارشیں جو ہوئیں سو ہوئیں مگر اوپر سے بھی پانی آیا لگ بھگ 7500 گلیشیئر ہیں پاکستان کے نارتھ میں، ان میں کچھ گلیشیئر پگھلے بھی ہیں یہ اس کا بھی نتیجہ تھا اور اگر یہ سب ایک ساتھ پگھل جائیں تو رہتا پھر کچھ بھی نہیں، سمندر خود اتنا بھر جائے گا کہ کراچی بھی ڈوب سکتا ہے۔

اب تو ایک سائیکلون بھی کہتے ہیں سمندر میں بننے جارہا ہے اور اس ستمبر کے مہینے میں اور بارشیں ہونے جارہی ہیں۔ ہم نے اپنے لوگوں کا حشر سے نشر تو کیا ہوگا مگر دنیا کے ماحولیات کو خراب دنیا کے صنعتی ملکوں نے کیا ہے۔ کاربن گیس سے آلودہ کیا ہے اوریہ اسی کا نتیجہ ہے، جو پاکستان میں اتنے وسیع پیمانے پر نقصان ہورہا ہے، یہ نقصان آنیوالے دنوں میں مزید بڑھے گا کیونکہ ہماری کوئی تیاری نہیں ہے۔ ہم نے آبادی کو نالوں کے اوپر نالے روک کر وہاں آباد کیا ہے۔

جب ہمیں ارتقا کرکے ایک بہتر نظام دینا تھا اس کے برعکس جو انگریز بہادرنے جو نظام بنا کے ہمیں دیا تھا ہم نے اس کو بھی بگاڑ دیا۔ سندھ تھا کیا؟ یہ تو 1930 میں سکھر بیراج کے وجود سے نکلا ہے۔ سب بنجر تھا، کہاں تھی اتنی زرخیززمین، لگ بھگ چالیس لاکھ ایکڑ نئی زمین کاشت کے لیے نکلی۔ جیسے ہی سکھر بیراج وجود میں آیا، کراچی کے جمشید مہتہ، این ای ڈی کے پہلے پرنسپل گوکلے، جی ایم سید اور دیگر احباب نے ہاری کمیٹی بھی بنائی کہ یہ زمینیں جو نئی آبادی کے لیے نکلی ہیں ان میں دہقانوں کو بھی کچھ دیا جائے۔

سب نشیب و فراز ہے، کل اس سندھو پر ایک تہذیب تھی ، جسے اب ہم موہن جو دڑو کے نام سے جانتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے شاید اس وقت بھی کوئی پہاڑوں پر بہت بڑا گلیشیئر پھٹا تھا، وہ شاید ڈوب گیا تھا خیرپور ناتھن شاہ کی طرح، خیرپور میرس کی طرح، دادو دریا بن گیا۔ انگریز کے وقت میں آبپاشی نظام فوجی انداز میں چلتا تھا، اگر کسی کا گھوڑا بھی دریا یا کینالوں کے کناروں پر چلتے پایا جاتا تو تھانے میں اس کا پرچہ کٹتا تھا، مگر اس بار اتنی بڑی آفت آئی ، آبپاشی کے عملدار کہیں بھی نہیں۔ اگر آپ کو تبادلے کروانے ہوں تو کہتے ہیں ایک بڑے سیاسی صاحب ہیں جو آپ کے تبادلے کرالے گا۔ جتنا ان تیرہ سالوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ کی گورننس کو برباد کیا ہے، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پانی نکالا نہیں جاسکتا۔ اب تو وبائی بیماریاں بھی اور نکلیں گی۔

میرے گائوں کی ڈھائی سو سال پرانی مسجد ہماری پرانی حویلی کا سو سالہ پرانا دروازہ جس کے اوپر ابا کے نام ’’فیض منزل‘‘ لکھا تھا وہ گر گیا۔ پچھلے سال اس مسجد کے برابر میں صدیوں پرانا آبائی قبرستان ہے، اس کی مرمت وغیرہ کروائی تھی۔ ان کو شدید نقصان پہنچا ہے، مگر پانی وہاں رکتا نہیں کہ وہ سب اونچے ٹیلے پر بنا ہے۔

اک درد ہے یہ داستان دریا۔ جو راوی نہ گائی ہے سمبارا سے لے کر سوہنی تک، اک بھنور ہے جس کی گرد یہ رواں دواں ہے۔ کبھی پانی نہیں ہے، زمینیں سوکھ جاتی ہیں، بنجر پڑ جاتیں ہیں۔ اوپر والے کہتے ہیں ڈیم بنائو، ہم کہتے ہیں ڈیم نہیں بنائو۔ سمندر اندر گھستا جاتا ہے۔ بہت تیزی سے جو سمندر کنارے بڑھے Resort ہیں۔ محتاط انداز کے مطابق جن کی مالیت 144 ارب ڈالر تک ہے۔ دنیا میں یہ سب سمندر کی سطح کے بڑھنے کی وجہ سے 2040 تک ڈوب جائیں گے۔ کتنی خطرناک ماحولیاتی تبدیلی آرہی ہے، ہماری کوئی بھی تیاری نہیں۔ لوگ ڈوب رہے ہیں اور خان صاحب جلسے کرنے کا شغل کر رہے ہیں، یہ آفت بھی ہمیں کچھ لوگوں کا تحفہ ہے۔

ایشیا کی سب سے بڑی جھیل منچھر جو ویران ہوگئی تھی، جہاں مچھیرے کشتیوں میں ہی اپنے گھر بنا کے رہتے تھے اور مچھلی کے شکار پر اپنا گزر کیا کرتے تھے۔ ان کے بچے بھی انھی کشتیوں پر کھیلتے اور پروان چڑھتے تھے۔ کتنے سارے سائیبریا سے پنچھی جاڑوں میں یہاں آتے ہیں وہ پھر سے آباد ہوگئی ہے، مگر پورا سندھ چپہ چپہ پانی پانی ہے۔ پانی پٹ ہے۔ پٹ اور پیٹ سب ایک ہوگئے ہیں۔ قاتل مقتول سب ایک صف میں کھڑے ہیں۔ کلیجہ میرا اس وقت سینے سے باہر تھا۔ جب ایک میت کی نماز جنازہ میں اس کی چار پائی پانی میں رکھ کر پڑھائی گئی، گھٹنوں تک پانی تھا۔ اب تو ان میتوں کو دفنانے کے لیے بھی دو گز زمینیں نہیں مل رہی اس کوئے یار میں۔

جب کشمیر میں زلزلہ آیا تو میں نے اپنی زوجہ کو مظفر آباد بھیجا، کیونکہ وہ حاملہ عورتوں کے حوالے سے ڈاکٹر تھیں۔ پورے دو مہینے اس کو وہاں ٹھہرنا پڑا، روزانہ کے حساب سے درجنوں آپریشن کرنے پڑے اور اوپر سے رمضان بھی تھا۔ ادھر ان بیٹوں کو جو چھوٹے تھے اس وقت میں دیکھتا رہا۔ اس بار سندھ میں اس پانی کی زد میں آئی ہوئی، حاملہ عورتیں لگ بھگ پانچ لاکھ سے زائد ہیں۔کون دیکھے گا یہ سب کچھ، کچھ خبر نہیں۔ پوری الماریاں کھولی تھیں کہ سب کپڑے اور بہت ساری کارٹن بنا کے نہ جانے کہاں وہ سب کپڑے اور بہت کچھ دے کے آئی کہ سیلاب میں بہت سے ان کو لوگوں کو ملیں ڈھیر ساری دوائیاں بھی۔

ہم بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں، ہمارے سیاسی نظام کے لیے دنیا کا میڈیا کہتا ہے Most Fragile Country ۔ ایک طرف ہمارا سیاسی نظام کمزور، ہمارا معاشی نظام کمزور اور اس کے اوپر دنیا میں تیزی سے آئی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیاں اس کا بھی سب سے زیادہ اثر پاکستان پر۔ اور اس کے اوپر میرا سندھ اس وڈیرا شاہی میں پھنسا سندھ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔