سندھ؛ محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا اختیارات سے تجاوز، جامعات سے کارکردگی رپورٹ طلب

صفدر رضوی  پير 5 ستمبر 2022
سندھ میں سرکاری جامعات کی انسپکشن کا اختیار سندھ HEC کے ذیلی ادارے چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیو ایشن کمیٹی کے پاس ہے (فوٹو : فائل)

سندھ میں سرکاری جامعات کی انسپکشن کا اختیار سندھ HEC کے ذیلی ادارے چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیو ایشن کمیٹی کے پاس ہے (فوٹو : فائل)

کراچی: حکومت سندھ کے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے اپنے پیشہ ورانہ اختیارات اور آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے صوبے کی سرکاری جامعات سے ان کی 6 ماہ کی کارکردگی رپورٹ مانگ لی ہے۔

سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہیمو کی ہدایت پر محکمہ کے ریٹائرڈ سیکشن افسر کمال احمد کی جانب سے صوبے کی 27 سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کو ایک خط جاری کیا گیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ محکمہ کو جلد از جلد اپنی یونیورسٹی کی 6 ماہ کی کارکردگی رپورٹ پیش کریں۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ سرکاری جامعات کی کارکردگی جانچنے کا اختیار آئین و قانون کے تحت اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان اور سندھ اعلی تعلیمی کمیشن کے پاس ہے۔ سندھ میں یہ اختیار سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذیلی ادارے چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیو ایشن کمیٹی کے پاس ہے۔

چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیو ایشن کمیٹی نجی یونیورسٹیز کے ساتھ ساتھ ماہرین کے ہمراہ سرکاری جامعات کا انسپیکشن کرتی ہے جس میں پانچ جامعات کے وائس چانسلرز کے ساتھ ساتھ سبجیکٹ اسپیشلسٹ بھی ہوتے ہیں اور وہ تکنیکی بنیادوں پر جامعات کا انسپیکشن کرکے ان کے فنانس ، اکیڈمکس، اسکالر شپس اور دیگر امور پر اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ اسی بنیاد پر پہلی بار سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت سرکاری جامعات کی درجہ بندی کی جارہی ہے۔

دوسری جانب چونکہ سرکاری جامعات کو فنڈز کی فراہمی وفاقی حکومت کی جانب سے اعلی تعلیمی کمیشن آف پاکستان اسلام آباد کے ذریعے کی جاتی ہے لہٰذا اساتذہ کی بھرتیوں اور تقرریوں کے حوالے سے ایچ ای سی کی گائیڈ لائن پر عمل کیا جاتا ہے۔

ادھر سندھ کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو صوبے کی کسی مخصوص یونیورسٹی کی انتظامیہ کو کارکردگی کی بنیاد پر ٹارگٹ کرنا ہے لہٰذا 27 جامعات کی آڑ میں مذکورہ ایکسرسائز کے ذریعے مطلوبہ انتظامیہ کو مستقل قریب میں ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ اس سلسلے میں محکمے کی جانب سے جو خط نکالا گیا ہے وہ بھی نقائص سے پُر ہے۔ ایک اور سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ان نقائص کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی قسم کے ٹی او آرز کا خط میں تذکرہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ محکمہ کو کس قسم کی کارکردگی رپورٹ مطلوب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔