انسانی رنگ اور زبان میں فرق: رقیبِ رو سیاہ ... (دوسرا حصہ)

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی  جمعرات 8 ستمبر 2022
جلد کی گہری رنگت انسانوں کو کینسر سے بچانے میں معاون ہوتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

جلد کی گہری رنگت انسانوں کو کینسر سے بچانے میں معاون ہوتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہماری بات شروع ہوئی تھی ارتقاء کے حوالے سے اور پھر ہم نے جانا کہ جینیات اور سائنس کی مدد سے ہم کیسے اولین مرد تک پہنچنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو تمام تر انسانوں کے اندرونی جسمانی اعضا کا رنگ پوری دنیا میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے دماغ کا رنگ سرمئی ہے، ہڈیاں سفیدی مائل زرد، اور خون سرخ۔ جب سب کچھ ایک جیسا ہی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری جلد کا رنگ ہر خطے اور نسل کے اعتبار سے مختلف کیوں؟

سائنسی اور تاریخی شواہد اور آثارِ قدیمہ کی موجودگی میں یہ بات ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ انسانی آبادی کی ابتدا براعظم افریقہ سے ہوئی، اور یہیں سے حضرتِ انسان ہجرت کرکے باقی دنیا میں آباد ہوتا چلا گیا۔ افریقہ میں آباد انسانوں کی رنگت سیاہی مائل ہے اور آج سے نہیں بلکہ شروع سے ایسا ہی ہے، جبکہ باقی تمام خطوں میں تو رنگ میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔ آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔

یہ تحریر بھی پڑھیے: انسانی رنگ اور زبان میں فرق: جینیاتی ٹائم مشین … (پہلا حصہ)

مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے وائے کروموسوم کے حوالے سے بات کی تھی، اور ہم نے جانا تھا کہ ہمارے ڈی این اے میں مختلف جینز ہوتی ہیں۔ ان جینز میں ہمارے جسمانی خدوخال اور تمام تر افعال کی انجام دہی کے بارے میں مفصل تحریری احکامات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے لبلبہ کے کچھ خلیات کا کام انسولین بنانا ہے۔ اب یہ انسولین کیسے بنے گی، کس وقت اور حالات میں بنے گی، کیسے استعمال ہوگی، کب تک استعمال ہوگی اور کب اس کا بنانا ختم کردینا چاہیے؟ یہ تمام کی تمام معلومات اور احکامات انسولین اور اس سے متعلقہ جینز میں موجود ہیں۔ اگر ان تمام جینز میں سے ایک میں بھی کوئی گڑبڑ یا میوٹیشن ہوجائے تو اس کا اثر ذیابیطس کی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے، جیسے کبھی انسولین بالکل بنتی ہی نہیں ہے یا ناکافی مقدار میں بنتی ہے، یا پھر ہمارا جسم اس انسولین کو صحیح سے استعمال ہی نہیں کرپاتا۔ اگر ہم کسی شخص کے ڈی این اے میں موجود انسولین والی تمام جینز کو پڑھ لیں تو ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہوجاتا ہے کہ کیا اس شخص کو کبھی مستقبل میں شوگر ہونے کا کوئی معمولی سا بھی امکان ہے یا نہیں۔

انسولین کی طرح ہی ہماری جلد کی رنگت کو ہماری بہت ساری جینز ہی کنٹرول کرتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم ایم سی ون آر (MC1R) جین ہے۔ یہ جین ہمارے بالوں اور جلد کے رنگ کو کنٹرول کرتی ہے، اور اس کی مختلف اقسام ہیں۔ ایک قسم جو افریقہ میں بہت سے بھی زیادہ پائی جاتی ہے وہ گہرا رنگ دیتی ہے جبکہ باقی دنیا میں سفیدی مائل اور گندمی رنگ والی قسمیں زیادہ عام ہیں۔ اب سوال پیدا ہونا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ صرف انسانی جلد کی رنگت میں اتنا فرق ہے؟ اگر فرق ہونا ضروری ہی تھا تو پھر ہمیں خون یا باقی اعضا کے رنگ میں کیوں فرق نہیں ملتا؟ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کےلیے ایک بار پھر ہمیں سائنس دانوں کے پاس جانا ہوگا تاکہ ان کے تجربات سے اپنے سوالات کا حل تلاش کرسکیں۔

ہم جانتے ہیں کہ سورج سے روشنی کے علاوہ بھی بہت ساری دوسری شعاعیں اور تابکاریاں نکلتی ہیں، جن میں سرِفہرست الٹرا وائلٹ یا ’یو ۔ وی‘ شعاعیں ہیں۔ ہماری زمین کی فضا کے اوپر اوزون کی تہہ ہے جو ان نقصان دہ شعاعوں کو کافی حد تک فلٹر اور روک دیتی ہے، اور ان میں سے بہت معمولی سی مقدار کو ہی زمین کی سطح تک پہنچنے دیتی ہے۔ لیکن یہ معمولی سی مقدار بھی ہمارے لیے بہت زیادہ خطرے کا باعث ہوسکتی ہے، جیسے کہ اسکن کینسر وغیرہ۔ آج کل تو ویسے ہی ہر موبائل اور کمپیوٹر پر آپ کو اپنے علاقے کا موسم اور درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ سورج سے آنے والی ان یو ۔ وی شعاعوں کا بھی پتا چل جاتا ہے کہ آپ کے علاقے کا یووی انڈیکس کتنا کم یا زیادہ ہے۔ یہ یو وی شعاعیں ہماری جلد میں موجود خلیات کے ڈی این اے میں توڑپھوڑ کرتی ہیں، جس سے اس میں موجود معلومات اور احکامات کی تحاریر میں بےتحاشا غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ اگریہ غلطیاں ٹھیک ہونے کی حد سے زیادہ ہوجائیں تو پھر یا تو ہمارے خلیات کی موت ہوجاتی ہے یا پھر وہ کینسر جیسی بیماری کا موجب بن جاتے ہیں۔

ہماری جلد میں میلانوسائٹ نامی کچھ مخصوص خلیات موجود ہوتے ہیں، جن میں ایم سی ون آر جین اپنے کام میں ہمہ دم مشغول ہوتی ہے اور میلانین پروٹین بنا رہی ہوتی ہے۔ یہ میلانین پروٹین دو طرح کی ہوتی ہے، ایک گہرے رنگ والی اور دوسری معتدل یا ہلکے رنگ والی۔ اور اس کا بنیادی کام سورج سے آنے والی یو وی شعاعوں سے ہماری حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سطح زمین پر جیسے خطِ اِستوا کے آس پاس، جہاں یو وی شعاعوں کی مقدار سب سے زیادہ پہنچتی ہے، وہاں پر آباد انسانوں کی جلد کی رنگت ہمیشہ گہری سیاہی مائل ہوگی، جبکہ اس کے مقابلے میں جیسے جیسے یو وی شعاعوں کی مقدار کم ہوتی جائے گی، ویسے ویسے رنگت ہلکی اور سفیدی مائل ہوتی جائے گی۔

کینسر اور میوٹیشنز کے علاوہ بھی گہری رنگت کا ایک نہایت ہی اہم فائدہ اور بھی ہے اور وہ ہے فولیک ایسڈ۔ فولیٹ یا فولیک ایسڈ بھی ایک وٹامن ہے جو کہ نہ صرف ہمارے جسم، ہمارے تولیدی نظام کےلیے بلکہ دورانِ حمل بچوں کی صحت مند نشوونما کےلیے بھی بہت ضروری ہے۔ یہ فولیک ایسڈ یو وی کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے کہ ذرا سی بھی یو وی کا سامنا ہوا تو فوراً ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ہمارے جسم کےلیے بے فائدہ ہوجاتا ہے۔ جلد کی گہری رنگت ایک طرف تو ہمیں کینسر سے بچانے میں معاون ہوتی ہے تو دوسری جانب زیادہ فولیک ایسڈ کی ٹوٹ پھوٹ اس کینسر سے بھی زیادہ ضرر رساں ہوتی ہے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایک طرف جان لیوا کینسر اور دوسری جانب محض ایک وٹامن۔ جی ہاں یہ ’ایک وٹامن‘ ہمارے لیے کتنا اہم ہے، اندازہ کیجیے کہ حمل ٹھہرنے سے لے کر دورانِ حمل رحمِ مادر میں بچوں کی مناسب نشوونما، سب عمل میں اس محض ایک وٹامن کا کلیدی کردار ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس جلد کا کینسر عمومی طور پر ادھیڑ عمر میں ہوتا ہے، یعنی آدھی سے زیادہ زندگی گزارنے کے بعد۔ جلد کی گہری رنگت کے پیچھے سب سے بنیادی وجہ ہمارے خون میں گردش کرتے فولیک ایسڈ کو یو وی کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہوتا ہے تاکہ انسانی نسل کی افزائش بہتر اور موثر انداز میں ہوسکے۔

چلیے یہ بات یہاں تک تو سمجھ میں آتی ہے کہ گہری رنگت ہمارے لیے بہت زیادہ مفید ہے اور اسی لیے افریقہ اور دیگر خطوں میں رنگ گہرا ہوتا ہے، جہاں یو وی شعاعوں کی زیادہ مقدار زمین کی سطح تک پہنچتی ہے۔ لیکن یہاں ایک اور سوال سر اٹھاتا ہے کہ اگر گہری رنگت اتنی ہی فائدے مند اور مفید ہے تو پھر باقی اقوام کی جلد کا رنگ بھی سیاہی مائل گہرا کیوں نہیں ہے۔ اگر یہ مفید ہے جو ثابت ہوگیا کہ ہے تو پھر سب کا رنگ ایک جیسا ہی ہونا چاہیے ناں؟

اب ظاہر ہے اس سوال کے تسلی بخش جواب کےلیے ہمیں ایک بار پھر ان سائنسدانوں کے ہی پاس جانا پڑے گا۔ ہم جانتے ہی ہیں کہ یو وی شعاعوں کی تین اقسام ہیں، جن میں سے یو وی بی (UVB) شعاعیں ہمارے لیے مفید ہیں کہ وہ ہمارے جسم میں وٹامن ڈی بنانے کےلیے چاہیے ہوتی ہیں۔ ہماری جلد میں (7-DHC) نامی پروٹین ہوتا ہے، جو یو وی بی شعاعوں کی موجودگی میں وٹامن ڈی کی فعال شکل ڈی تھری (D3) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اب یہ وٹامن ڈی تھری ہماری ہڈیوں میں کیلشیم جذب کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہماری ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے۔

چلیے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ خطِ استوا اور اس کے اردگرد چونکہ یو وی شعاعیں بہت زیادہ پڑتی ہیں، اس لیے یہاں کی آبادیوں میں گہری رنگت ہوتی ہے اور جیسے جیسے ہم قطب شمالی یا جنوبی کی طرف سفر کرنے لگیں تو یو وی شعاعوں کی مقدار کے ساتھ ساتھ جلد کی رنگت بھی ہلکی ہونے لگتی ہے اور جیسے ہی ہم اسکینڈے نیویا ممالک (سوئیڈن، ناروے، ڈنمارک، آئس لینڈ وغیرہ) تک پہنچتے ہیں تو وہاں ہلکی ترین یا سفید ترین جلد کی حامل اقوام سے تعارف ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ان سائنس دانوں نے ایک اور پخ نکال کر ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ براعظم شمالی امریکا کے انتہائی شمال میں قطب شمالی کے تقریباً پڑوس میں آباد انیویٹ (Inuit) قبائل، جو کہ کینیڈا اور الاسکا میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کی رنگت اسکینڈے نیویائی اقوام کے مقابلے میں گہری ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ ان کا رنگ نہ تو افریقیوں کی طرح سیاہ ہے اور نہ ہی کاکیشیائیوں کی مانند سفید، بلکہ دراصل گندمی ہے۔ اس گہری رنگت کا مطلب تو صرف ایک ہی بنتا ہے کہ ان کا جسم سورج سے یو وی بی لینے کے قابل نہیں ہے تو پھر کیسے وٹامن ڈی ان کے جسم میں بنتا ہوگا؟ اس طرح پھر ان کی ہڈیاں تو بہت زیادہ کمزور ہونی چاہئیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ اب بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ انیویٹ قبائل کی دریافت سے ان سائنس دانوں کے دعووں، تصورات اور مفروضوں کی قلعی کھل گئی ہے۔ جلد کی رنگت اور اس سے متعلق موضوعات پر تحقیق کرنے والے تمام سائنس دان ایک بار تو سر پکڑ کے بیٹھے ضرور اور غور و فکر کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پہ پہنچے کہ اتنی آسانی سے تو ہم ہار نہیں مانیں گے اور ان کی گہری رنگت کا راز جان کر ہی چین پائیں گے۔

خیر سائنس دانوں کو یہ تو یقین تھا کہ انسانی جلد کا رنگ وٹامن ڈی اور فولیک ایسڈ کے درمیان توازن قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے، تو اگر ان قبائل میں ہڈیوں کی بیماری نہیں ہے، یہ بات تو پھر طے ہے کہ وہ سورج سے یو وی بی نہیں حاصل کر پارہے ہیں، تو لازم ہے کہ ان کی غذا میں وٹامن ڈی کا کوئی اور ذریعہ موجود ہونا چاہیے جو ان کے جسم کی ضروریات کو پورا کررہا ہے۔ جب انیویٹ کی عمومی خوراک کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سمندری جانداروں جیسے وہیل مچھلیوں وغیرہ کا بکثرت شکار کرتے اور ان کو اپنی روزمرہ کی غذا میں شامل رکھتے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ان سمندری جانداروں میں وٹامن ڈی کی مقدار کافی ہوتی ہے اور یوں یہ عقدہ بھی بالآخر حل ہو ہی گیا۔
(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔