اسلام آباد ہائیکورٹ نے ملک بھر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے سے روک دیا

ویب ڈیسک  پير 5 ستمبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ملک بھر میں صحافیوں کو محض بات کرنے پر ہراساں کرنے سے روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ چند سال سے لگتا ہے سب سے بڑا جرم بولنا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ‏حکومتیں کیوں بات کرنے سے کیوں گھبراتیں ہیں؟ بات کرنے سے اس لیے روکا جاتا ہے کیونکہ وہ احتساب ہوتا ہے؟ حکومت کے آنے سے پہلے ایک صحافیوں کا سیٹ ٹارگٹ تھا اب دوسرا سیٹ ٹارگٹ ہوگیا، صحافیوں کے لیے ہر وقت خوف اور دہشت کا ماحول کیوں ہے ؟ گزشتہ چند سالوں سے لگتا ہے سب سے بڑا جرم بولنا ہے؟

چیف جسٹس نے سیکریٹری اطلاعات کو ہدایت کی کہ یقینی بنائیں کہ صحافیوں کی کوئی پٹیشن اب اس عدالت میں نا آئے اور یو این ریپڈ وار سے پچھلی حکومت کی طرح ایک اور خط نا آنے دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو آزادی اظہار رائے کو تحفظ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی کہ آزادی اظہار پر کوئی پابندی نہ ہو۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت سمجھنے سے قاصر ہے کہ صحافیوں کیلئے خوف کا ماحول کیوں بنایا جا رہا ہے، خوف کا یہ ماحول کیسے ختم ہو گا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس حکومت کے آنے سے پہلے صحافیوں کا ایک گروپ ریلیف لینے اس عدالت آیا، اس حکومت کے آنے کے بعد دگیر صحافیوں کو اس عدالت سے ریلیف لینا پڑا، اس صورتحال سے لگتا ہے کہ کچھ خوفناک حد تک غلط ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحافیوں کا یہ خوف وفاقی حکومت نے دور کرنا ہے، یہ بہت اہم مسئلہ ہے، کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو وہ الگ بات ہے لیکن صحافت پر ایسی کاروائیاں نہیں ہونی چاہئیں، ایک صحافی کے خلاف پورے پاکستان میں پچاس مقدمے بنا دیے جاتے ہیں، پکڑ دھکڑ اور تھانیداری سے کچھ نہیں ہو سکتا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ آج کے زمانے میں زبان بندی نہیں کی جا سکتی، مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے اٹھایا گیا ریکارڈ پر موجود ہے، ریاست مطیع اللہ جان کیس کی انکوائری کرنے میں بھی ناکام رہی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو بھی خود احتسابی کی ضرورت ہے، آپ بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہیں صحافت تو کہیں درمیان میں رہ ہی گئی، اس عدالت کے سامنے ایسی کوئی اس طرح کی درخواست نہ آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ درست اسپیچ ہو یا غلط، اب اس کو بند نہیں کیا جا سکتا، یو این سے اس طرح کا خط آنا ہمارے لئے باعثِ شرمندگی ہے۔

سماعت کے دوران صدر اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن ثاقب بشیر عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ پچھلی حکومت میں بھی اور اس حکومت میں بھی تنقیدی ٹوئٹس پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں ہمارے ایک دوست کی ٹویٹ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے اعتراضات سیکریٹری اطلاعات دور کریں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔