بے حسی ہی بے حسی

محمد سعید آرائیں  منگل 6 ستمبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

2005کے زلزلے، 2010 کے سیلاب کے 12 سال بعد ملک ایک بار پھر قدرتی آفات کا شکار، ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب، شدید ملک گیر بارشوں اور سیلابوں کے نتیجے میں سرکاری طور پر تو بارہ سو سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی جب کہ جانی نقصان اس سے بھی بہت زیادہ ہے۔

تقریباً تین کروڑ افراد متاثر، بے گھر ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں مالی نقصان کھربوں روپے کا ہوا ہے۔ سبزیوں، پھلوں اور اجناس کی فصلیں تباہ ہو چکیں جس کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو چکے، سبزیوں کی قیمتیں ابھی سے آسمان پر پہنچ چکیں اور اندازہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں لوگ غذائی قلت کا شکار ہو کر رقم ہاتھوں میں لے کر اپنی مطلوبہ اشیا ڈھونڈتے پھریں گے اور ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور تاجروں کی اکثریت اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کرکے زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے اشیائے ضرورت مہنگی اور نہ ملنے کے ڈرامے رچائیں گے اور قیمتوں پر پہلے سے ہی ناکام صوبائی حکومتیں کچھ بھی نہیں کریں گی، وہ کنٹرول کرنا ہی نہیں چاہتیں۔

موجودہ اتحادی حکومت کے اقتدار کو ڈیڑھ سو دن گزر گئے لیکن حکومتی بے حسی میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے دو قسطیں مل گئیں۔ ڈالر اور عالمی طور پر پٹرول کی قیمت کم ہوچکی مگر پھر بھی سیلابی صورت حال میں حکومت کی بے حسی کم ہونے میں نہیں آ رہی جس نے اگست میں بجلی بے انتہا مہنگی کی اور یکم ستمبر کو پٹرول کی قیمت پھر بڑھا دی۔ اتحادی حکومت بھی سابق عمرانی حکومت کی طرح عوام کو ریلیف نہیں دے رہی اور سب حکومتی اتحادی اپنوں کو نوازنے میں مصروف ہیں۔

سیلاب میں پھنسے عوام کو کسی صوبائی حکومت سے مکمل امداد نہیں مل رہی، البتہ دعوے بہت ہیں۔  بلوچستان، گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کا پتا نہیں البتہ کے پی کے وزیر اعلیٰ کو اپنے چیئرمین کی خدمت کے بعد متاثرہ علاقوں کے دورے کا خیال آیا جہاں ایک خوشامدی نے انھیں بتایا کہ متاثرین اتنے پریشان نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی نے انھیں بتایا کہ کے پی میں 70 فیصد سیلاب متاثرین جعلی ہیں۔

سیلاب اور بارشوں کے حقیقی متاثرین سخت عذاب میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومتی ٹیمیں اب تک ان کے پاس نہیں پہنچ سکیں ، البتہ نجی ادارے حقیقی طور پر متاثرین کی داد رسی کر رہے ہیں اور انھیں امدادی سامان پہنچا رہے ہیں اور پکی ہوئی خوراک میں زیادہ تر متاثرین کو کھانے کے لیے چاول تقسیم کر رہے ہیں جنھیں کھا کھا کر لوگ بے زار ہو گئے ہیں مگر پیٹ بھرنے کے لیے چاول ہی کھانے پر مجبور ہیں کیونکہ چاول پکوا کر بانٹنا آسان ہیں۔

سرکاری اعلیٰ حکام، ارکان اسمبلی اور بعض سیاسی رہنما فوٹو سیشن کے لیے کوئی متاثرین میں پچاس پچاس روپے، کوئی صابن کی ٹکیاں بانٹ رہا ہے۔ سکھر کا وفاقی وزیر متاثرین کے پاس سے گزر جاتا ہے اور متاثرین کے پاس رکنے کی فرصت نہیں۔ کسی کو پانی میں گھرااپنا علاقہ وینس نظر آتا ہے۔ سندھ کے قائم مقام گورنر لوگوں کو امداد کے بجائے درس دینے کے بعد جب اپنے ضلع شکارپور متاثرین کے پاس صرف تسلی دینے آتے ہیں تو بھوکے ننگے لوگ ان کی بات نہیں سنتے اور ان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں تو وہ واپس چلے جاتے ہیں۔ پنجاب اور بلوچستان کے وزیروں کو متاثرین سے زیادہ اپنے کپڑوں اور جوتوں کی فکر ہے۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں مگر صاحب لوگ منرل واٹر سے اپنے پاؤں دھو رہے ہیں۔

کے پی میں ایک رضاکار ایک بلی کو بچانے کے لیے دریا میں اپنی زندگی داؤ پر لگا رہا ہے مگر کے پی حکومت نے اپنے پانچ جوانوں کو بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر نہیں دیا اور انھیں ڈوبنے کے لیے چھوڑ کر اپنی بے حسی کا ثبوت دے دیا کہ انھیں ہیلی کاپٹر زیادہ عزیز ہے اپنے لوگوں کی جانوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اور وزیر اعظم متاثرین کے لیے اربوں روپے دے چکے مگر نقصان اور ضرورت بہت زیادہ ہے اس لیے عالمی امداد کی اپیل کی گئی ہے جس پر عطیات آ رہے ہیں اور ملک کے مخیر حضرات بھی دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں۔

فلاحی اداروں کی طرف سے متاثرین تک امداد پہنچانا مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ سڑکوں کے راستے بند، قومی شاہراہیں تک زیر آب، ہر طرف پانی ہی پانی اور گھروں کی تباہی عیاں ہے۔ متاثرین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور پانی خشک ہونے اور حکومتی امداد کے لیے منتظر بیٹھے ہیں اور سرکاری افسران نے اس آفت کو بھی کمائی کا ذریعہ بنالیا اور متاثرین کی سرکاری امداد سے بھی دو دو ہزار کم کرکے خود کھا گئے۔

حقیقی متاثرین میں جعلی متاثرین بھی شامل ہوگئے جو مختلف شہروں میں بھیک مانگتے تھے وہ بھی متاثرہ علاقوں میں راشن جمع کرنے پہنچ گئے باقی کسر ناجائز منافع خوروں نے پوری کردی اور خیموں سمیت ہر چیز کے نرخ ڈبل کرکے اپنی بے حسی کا ثبوت دے چکے مگر انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہر طرف بے حسی ہی بے حسی کے ڈیرے، لوٹ کھسوٹ کے بازار گرم انھیں حکومت نہیں تو خدا ہی ضرور پوچھے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔