ایک ستم اور سہی

شکیل فاروقی  منگل 6 ستمبر 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

برسوں پرانی بات ہے کہ جب ہم ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت کیا کرتے تھے۔ کمپنی کے کئی کاروبار تھے، اُس میں ایک نئے کاروبار کا ڈول ڈالا اور یہ کاروبار سنگِ مرمر کی کان سے پتھر نکال کر کراچی لانے سے متعلق تھا۔

بظاہر یہ کام بڑا آسان تھا لیکن صرف لیز حاصل کرنے کا کام بھی جوئے شِیر لانے سے کم نہ تھا اور اُس کے لیے بہت بھاگ دوڑ اور اثر و رسوخ درکار تھا بہرحال اِس ہدف کو حاصل کرنے کے بعد شہر پشاور کی حدود کے باہر انڈسٹریل ایریا میں حاصل صنعتی پلاٹ پر سنگِ مرمر کی فیکٹری قائم کرنے کا ہدف بھی کچھ کم مشکل نہ تھا۔

بقولِ منیر نیازی:

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

کمپنی مالکان نے اِس کام کے لیے میرے ساتھ جانے کی زحمت یوں گوارہ نہ کی۔ یہ بھید مجھ پر اُس وقت کھلا جب میں موقع معائنہ کے لیے متعلقہ سرکاری افسر کے ساتھ پلاٹ پر گیا۔ جانے سے پہلے سرکاری افسر نے مجھ پر یہ واضح کردیا تھا کہ میرا کام صرف آپ کو پہنچانا ہے ، باقی آپ جانیں اور آپ کا کام۔

مقررہ جگہ پر جو صورت حال پیش آئی وہ میرے تصور میں بھی نہ تھی۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب تربیلا ڈیم کی تعمیر کی جارہی تھی اور اِس کام میں بڑے بڑے ٹھیکیدار شامل تھے۔ جائے وقوعہ پر پہلے سے موجود ایک بہت ہی بزرگ شخص کو موجود پایا تو میں نے آگے بڑھ کر حسبِ عادت انھیں نہایت ادب سے اُن کو سلام کیا اور قدم بوسی کی۔ بزرگوار نے جوابا  میرے سر پر دستِ شفقت پھیرا اور میرا ماتھا چوم لیا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ مجھ سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ سرکاری افسر کو دیکھ کر بہت حیران تھے۔ اس کے بعد اُس نے میرا تعارف اُن بزرگ سے کرایا اور پھر گفتگو کا آغاز ہوا۔

بات ختم ہوئی تو وہ بزرگ کھڑے ہوگئے اور مجھے بھی اپنے برابر کھڑا کرلیا اور ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے کہ اُدھر دیکھیے وہ ہے پاکستان کی سرحد پھر اِس کے بعد ہمارا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ اِدھر جو کچھ ہوتا ہے ہماری مرضی سے ہوتا ہے، دیکھو یہ ڈیم بھی ہماری مدد سے بن رہا ہے اور ہم اِس میں بہت بڑا ٹھیکیدار ہے ، ہم یہاں کا سردار ہے ، اِدھر ہمارا حکم چلتا ہے ، آپ اِدھر فیکٹری لگاؤ یا جو بھی کام کرو ہماری مرضی سے کرو، ہماری مانے گا تو سب خیر ہے ہم تمہارے ساتھ ہے۔ یہاں کوئی ٹیکس میکس نہیں ہے اور ہم کوئی بِل وِل ادا نہیں کرتے۔ آپ ہمارا مہمان ہے۔

ہمارے ساتھ چلو اور رات اِدھر ہی گزارو اور پھر دیکھو کہ ہم کس مزے سے رہتا ہے، آپ ہمارا مہمان ہے۔ ہم آپ کی خدمت کرے گا۔ میں نے بزرگوار کا بہت شکریہ ادا کیا۔ قدم بوسی کی۔جواباً بزرگ نے میرے سر پر دستِ شفقت پھیرا اور میرا ماتھا چوما اور ہم رخصت ہوکر واپس چلے آئے۔

یہ قصہ ہمیں اِس وقت کیوں یاد آرہا ہے اِس کی وجہ آپ کو آگے چل کر معلوم ہوجائے گی۔ اِس کے علاوہ ہم نے اپنے بچپن میں ایک اور قصہ بھی سُنا تھا جو مشہور و معروف تھا اور یہ قصہ ایک بہت بڑے نامی گرامی ڈاکو سے متعلق تھا۔ اُس کا نام تھا ڈگا۔ اُس کا نام سنتے ہی لوگوں پر اِس قدر خوف طاری ہوجاتا تھا کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔

اب ایک تازہ خبر سنیے کہ کراچی کے شہر پر ایک نیا ٹیکس لگنے والا ہے جسے گیس کے بِلوں میں ہر ماہ وصول کیا جائے گا۔ یہ ٹیکس شہر کو صاف ستھرا رکھنے کی مد میں وصول کیا جائے گا جسے مَرے پر سَو دُرّے نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟

بیچارے عوام مہنگائی پر مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی اَدھ موئے ہو چکے ہیں اور اب کراچی کے عوام پر مزید بوجھ ڈال کر ستم بالائے ستم کیا جارہا ہے۔ ٹیکس لگانا کوئی جرم نہیں اور بیرونی ممالک میں اِس سے بھی کئی زیادہ ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں جن کے عوض شہریوں کو بے شمار سہولتیں مہیا ہیں جن کا کوئی شمار نہیں اور ہمارے ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اِن ممالک کے شہری خوشی خوشی ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک کا دستور نرالا ہے۔ ٹیکس اُن لوگوں سے وصول کیے جاتے ہیں جن پر زور چلتا ہے۔

بڑے بڑے سرمایہ دار اور ساہوکار ٹیکس چوری کرنے کے لیے بڑے بڑے مشاہروں پر مشیروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھُپی نہیں ہے۔ جہاں تک عام آدمی کا تعلق ہے سو وہ بیچارہ ہر قاعدے اور قانون کو ماننے پر مجبور ہے کہ حکمِ حاکم مرگِ مفاجات حکومت کی رِٹ صرف عوام پر ہی چلتی ہے۔ گویا غریب کی جورُو سب کی بھابھی۔

اِس کھلی حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ کراچی سے خیبر تک پورے ملک کی معیشت کا دارومدار صرف اور صرف اکیلے کراچی پر ہے۔ یہ اعزاز شہرِ قائد کے علاوہ ملک کے تمام شہروں میں سے اور کسی کو بھی حاصل نہیں ، اگر کراچی کا پہیہ جام ہوتا ہے تو پورے ملک کا پہیہ جام ہوجاتا ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پورے ملک کی امدادی کاوش ایک طرف اور زکوۃ، صدقہ اور خیرات کی صورت میں جمع کی ہوئی رقومات دوسری طرف، جن سے پورے ملک کے دینی مدارس اور دیگر ادارے چلتے ہیں اور غریب و نادار پَلتے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح کراچی کے شہری یہ نیا ٹیکس بھی ادا کرنے پر بھی آمادہ ہوجائیں گے گویا ایک ستم اور سہی لیکن اِس بات کی کیا ضمانت ہوگی اور یہ ضمانت کون دے گا کہ یہ اضافی بوجھ برداشت کرنے کے بعد بھی کراچی میں گندگی کا نام و نشان نہیں رہے گا اور یہ شہر دنیا کے غلیظ ترین شہروں کی فہرست سے نکل کر صاف ستھرے شہروں کی فہرست میں شامل ہوجائے گا۔

چلتے چلتے ایک سوال کیا داتا کی نگری کہلانے والے شہر لاہور میں بھی کراچی کی بہ نسبت صفائی اور ستھرائی کے لیے کوئی ٹیکس وصول کیا جارہا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔