جگہ جگہ فنڈز اکٹھا کرنے والوں کا آڈٹ کون کرے گا؟

علی احمد ڈھلوں  منگل 6 ستمبر 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور جنوبی پنجاب سے جوں جوں سیلابی پانی اُتر رہا ہے، حقائق خوفناک سے خوفناک تر ہوتے جا رہے ہیں،ایسے لگ رہا ہے جیسے اگر سیلاب سے لوگ بچ گئے تو بھوک اور بیماریوں سے مر جائیں گے ۔بہت سے علاقوں میں ابھی تک بحالی کاکام شروع نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں، مردار جانور جگہ جگہ پڑے قحط و آفت کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

بہت سے مخیر حضرات، فلاحی تنظیمیں اور دیگر ادارے ان کی بحالی کے لیے کام کر رہی ہیں مگر بہت سی ایسی کہانیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ جیسے جیسے سیلاب زدگان کی مدد کو دنیا بھر سے طیارے اپنا سامان لے کر آرہے ہیں یا بیرونی امداد آرہی ہے، ویسے ویسے نت نئی کہانیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ کہیں آنے والے سامان اور امداد میں کھینچا تانی بھی شروع ہوگئی ہے۔

کہیں ایم پی اے حضرات لڑ رہے ہیں کہ سامان اُن کی چوکھٹ پر رکھا جائے تاکہ وہ خود تقسیم کریں، کہیں غیر رجسٹرڈ تنظیمیں میدان میں موجود ہیں جن کا فلاحی کاموں کے حوالے سے کہیں ریکارڈ بھی موجود نہیںاور کہیں امدادی پیسے کو کھڈے لائن لگانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے مگر کیا کریںانسان ہیں،پھر غیر تربیت یافتہ ہیں، پھر درد دل بھی نہیں رکھتے اور سب سے بڑھ کر احساس نام کی چیز بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔

خیر قصہ مختصر کہ اس وقت سیلاب 2022 کو ’’کیش‘‘ کروانے میں حکمران طبقہ سب سے آگے ہے، جب کہ اُس کے بعد دوسرا نمبر غیر رجسٹرڈ تنظیموں کا ہے ، جنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ حالانکہ دنیا کے 90ممالک میں کسی بھی ہنگامی یا غیر ہنگامی صورت میں کسی کو عوام سے پیسہ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں ہے،حتیٰ کہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس چیز کی سختی سے ممانعت ہے، اور امریکا، کینیڈا، یورپ ، سعودی عرب ، دبئی ، قطر وغیرہ جیسے ممالک میں نجی سطح پر آپ فنڈز اکٹھا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔

ہاں امریکا، کینیڈا یا دیگر جمہوری ریاستوں میں سیاسی پارٹیوں کو فنڈز اکٹھا کرنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن اُس کا بھی الیکشن کمیشن کو پائی پائی کا حساب دینا پڑتا ہے تاکہ شفافیت کا عنصر برقرار رہ سکے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں ایک اندازے کے مطابق پورے پاکستان میں 3300سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں فنڈز اکٹھا کر رہی ہیں۔ان 33سو میں سے محض 88تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں جب کہ باقی سب غیر رجسٹرڈ ہیں۔بلکہ اس حوالے سے چند ماہ قبل محکمہ داخلہ پنجاب نے کالعدم قرار دی گئی 79 جماعتوں اورتنظیموں کی فہرست جاری کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی تھی کہ ان جماعتوں اور تنظیموں کو زکوۃ وعطیات نہ دی جائے۔لیکن وہ پھر بھی دوسرے ناموں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔

ان تنظیموں کی بڑی تعداد نہ تو ایس ایم ایس، نہ دیگر کمپنیوں کے ذریعے اور نہ بینک اکاؤنٹس کے ذریعے پیسے بٹور رہی ہیں بلکہ وہ یہ پیسے نقدی یا راشن کی شکل میں وصول کر رہی ہیں۔ایسا شاید اس لیے کیا جا رہا ہے کہ نقدی یا راشن کا آڈٹ نہیں ہو سکتاجب کہ اس کے برعکس کسی اکاؤنٹ میں آنے والے پیسوں کا FATFکی روشنی میں مکمل حساب رکھنا پڑتا ہے۔

تبھی تو اس بڑی عید پر قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے کے لیے اس قدر کھینچا تانی نہیں ہوئی جس قدر ماضی میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ سوال پھر یہی ہے کہ ان سارے غیر قانونی کاموں میں ریاست کہاں ہے؟اس بار پاکستان میں جذبہ خیر سگالی کے تحت میرا ادارہ بھی نسبتاً چھوٹے لیول پر فنڈ ریزنگ کا کام کر رہا ہے، جتنے پیسے یا سامان اکٹھا ہو چکا ہے، یقین مانیں میں خرچ کروں یا نا کروں مجھے کسی نے نہیں پوچھنا، سوال یہ ہے کہ فنڈ ریزنگ شروع کرنے سے پہلے نا تو مجھے کسی نے پوچھا کہ آپ فنڈ کہاں استعمال کریں گے، فنڈ اکٹھا کیوں کر رہے ہیں اور فنڈ اکٹھا ہونے کے بعد بھی یقیناً کوئی نہیں پوچھے گا کہ آپ نے اسے کہاں استعمال کیا ہے؟ یا کیا بھی ہے کہ نہیں!

غیر سرکاری سطح پر عوام کا اس قدر اس ’’فیلڈ‘‘ میں آنے کی سب سے بڑی وجہ بھی شاید یہ لگ رہی ہے کہ عوام کو حکومتوں پر اعتبار نہیں رہا۔ عوام کو یہ تاثر کس نے دیا کہ بیرون ممالک سے ملنی والی امداد جو حکومتی اداروں کو دی جاتی ہے ‘وہ متاثرین تک پہنچنے کے بجائے سرکاری گوداموں کی زینت بنتی ہے اور بعد میں اس کی بولیاں لگتی ہیں‘ ایک اسکینڈل 2010کے سیلاب کے بعد سامنے آیا تھا جب غیر ملکی کوکنگ آئل پاکستانی مارکیٹوں میں مہنگے داموں فروخت ہوا اور لوگ یہ سوال پوچھتے رہے کہ یہ آئل یہاں کیسے اور کب پہنچا مگر پاکستانی سرمایہ داروں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔

بعد میں پتہ چلا کہ وہ مہنگے داموں بعد میں فروخت کر دیا گیا تھا۔ پھر ان پر زلزلہ زدگان کے پیسے کھانے کے الزامات ہیں۔ میں اس وقت امریکا میں موجود ہوں، یہاں پر اچھا خاصا مذاق بنایا جاتا ہے کہ آپ کی حکومتیں سیلاب، زلزلہ ،زکوٰۃ وغیرہ فنڈز کو بھی نہیں چھوڑتیں، سرکاری سطح پر کوئی پیسے دینے کو تیار نہیں ہے۔ بلکہ وہاں تو یہ تاثر عام ہے کہ سیلاب وغیرہ کے آنے کے بعد کرپٹ حکمرانوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔

میرے خیال میں ریاست ہی اگر شفاف انداز میں تمام امداد مخیر حضرات تک پہنچائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں، حکومت عوام پر اعتبار ہی قائم کرلے تو ہم سالانہ 2ارب ڈالر پاکستان سے ہی اکٹھا کر سکتے ہیں، آپ کو شاید اس بات پر بھی یقین نا آئے کہ اس وقت پاکستان میں ہر سال ہمارے انسانیت نواز اور مخیر حضرات و خواتین اپنی نیک کمائی میں سے 200ارب روپے کی مالیت کے عطیات فراہم کرتے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ پیشہ ور بھکاریوں ،گداگروں اور غیر رجسٹرڈ تنظیموں کی تحویل میں چلے جاتے ہیں اور اصل، صحیح اور مستحق لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ جب کہ ان میں سے بعض تنظیموں کے ’’مالکانہ حقوق‘‘ تو بڑے بڑے آقاؤں کے پاس ہیں جو فنڈ لینے کے لیے فوری طور پر این جی او رجسٹرڈ کرواتے ہیں اور رقم حاصل کرنے کے بعد ادارہ ہی ختم کر دیتے ہیں۔

بہرکیف یہ ملک اللہ توکل ہی چل رہا ہے، ساری دنیا میں ڈیزاسٹر آتے ہیں اور ان کی مینجمنٹ کا سسٹم ہوتا ہے۔میں حیران ہوں اس ملک میں پلاننگ نام کی کوئی چیز نہیں۔اب وقت ہے کہ سرکاری ادارے اور پاکستانی این جی اوز اپنا ٹوٹا ہوا اعتماد بحال کریں‘سرکاری اداروں‘ اندرونی اور بیرونی این جی اوز یا تنظیموں کو جتنی امداد مل رہی ہے وہ بھی اور جو حکومت کو چھ ملکوں سے تیس سے زیادہ طیارے سامان پاکستان پہنچا ہے‘وہ سب انتہائی شفاف طریقے سے سیلاب زدگان تک پہنچایا جائے، اور غیر قانونی طور پر فنڈز اکٹھا کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے تبھی ہمارا نام بھی ہو گا اور لوگ اعتبار کرنا شروع کریں گے ورنہ ہم ہر آنے والی آفت پر کمزور سے کمزور تر ہوتے جائیں گے اور اُس وقت تک ہمارا ضمیر بھی مر چکا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔