سیلاب سیلاب اور سیلاب

اطہر قادر حسن  بدھ 7 ستمبر 2022
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، ملک کے ایک چوتھائی حصے پربارشوں نے جو تباہی مچائی، وہ ناقابل تلافی ہے۔

متاثرہ علاقوں میں تاحد نگاہ پانی ہی پانی نظر آتا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ شمالی علاقوں کے پہاڑوں سے سیلاب کی صورت میں بہہ کر آنے والے پانی نے مزید تباہی و بربادی مچا دی اور پہلے سے جمع شدہ پانی کے ساتھ مل کر جو کچھ باقی بچ گیا تھا وہ بھی تباہی کے زمرے میں آگیا۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس خوفناک تباہی کے متاثرین بے یارو مددگار ہیں۔ ان کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ جب پانی اترے گا تو اپنی تباہی و بربادی کو آبادی میں کیسے ڈھالیں گے۔

پاکستان کی معیشت پہلے سے ہی دیوالیہ پن کا شکار ہے جب کہ مخالف سیاسی پارٹیاں آپس میں برسرپیکار ہیں ۔کہیں سے کوئی خیر کی خبر نہیں آرہی بلکہ حالات کی مزید خرابی کی خبریں مسلسل گردش میں ہیں ۔ شہباز شریف اپنی مقدور بھر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور متاثرین کی اشک شوئی کی کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں ۔

ویسے اگر آئین کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو خصوصاً اٹھارویں ترمیم کے بعد تو سیلاب قسم کی آفات وفاقی نہیں صوبائی معاملہ ہیں اور صوبوں کے پاس ایسی انتظامیہ اور انتظامات ہوتے ہیں جو ایسی آفات کا مقابلہ کر سکیں۔ وفاق تو صرف نگرانی کرتا ہے کہ کام ٹھیک جارہا ہے یا نہیں اور صوبوں میں امن و مان ہے یا نہیں۔ آئین کی رو سے سیلاب چونکہ ایک صوبائی معاملہ ہے، اس میں وفاق کی دخل اندازی صوبوں کو گراں گزر سکتی ہے لیکن چونکہ اس مرتبہ ایک ناگہانی آفت نے تقریباً پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس لیے بادل نخواستہ تما م صوبے داران ایک دوسرے کو برداشت کر رہے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اپنی تام جھام سے نکل کر اپنے اصلی کیمپ آفس ان سیلابی علاقوں میں بنا لیتے اور عوام کے درمیان رہ کر ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ، اس سے عوام کو یہ تسلی اور حوصلہ ملتا کہ لیڈر ان کی مشکلات کا ادراک کر رہے ہیں اور خدمت کے لیے ان کے درمیان ہی موجود ہیں لیکن ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق سیاست نے اس قدرتی آفت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جو دورے کیے جارہے ہیں، وہ سیلابی پانی سے بچ بچاکر کلف لگے لباس اور چھتریوں کے سائے میں ہو رہے ہیں جب کہ ہیلی کاپٹر سے بھی نظارہ کر کے تباہی و بربادی کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

بھلا ہو پاکستان کی امدادی تنظیموں اور افواج پاکستان کا جنھوں نے روز اول سے متاثرین تک امداد پہنچانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا ۔ ابتدائی طور پرافواج پاکستان ایک منظم اور مربوط طریقہ کار کے تحت متاثرین تک خیمے اور راشن پہنچا رہی ہیں جب کہ امدادی تنظیمیں کسی تعصب اور سیاست کے بغیر متاثرین تک پہنچ گئی ہیں اور زوروشور سے کام شروع کر دیا ورنہ سیلاب کے ساتھ ساتھ عوام کا بچا کھچا مورال بھی بہہ جاتا۔ ہم جس تباہی سے دوچار ہیں اور جس انسانی المیے کا ماتم کر رہے ہیں ،دنیا ساری کہہ رہی ہے کہ اس کا مقابلہ صرف پاکستان کے بس کی بات نہیں ہے ۔

باہر کے لوگوں کو معلوم ہے کہ ہماری حکومت کا کیا حال ہے ہماری معیشت زبوں حال اور ایڑیاں رگڑ رہی ہے، مہنگائی نے پاکستانیوں کی زندگی پہلے سے اجیرن کررکھی تھی کہ اس پر یہ تباہی بھی نازل ہو گئی ہے، اس مرتبہ ملک کے اندر سے وہ جذبہ کم دیکھنے میں آرہا ہے جس کا مظاہرہ پاکستانیوں کا خاصہ ہے اورجس کے لیے وہ مشہور ہیں کہ پاکستانی ٹیکس کم دیتے ہیں لیکن صدقہ و خیرات میں پیچھے نہیں رہتے لیکن مہنگائی نے شاید پاکستانیوں کے اس جذبے کو بھی ٹھنڈا کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود مخیر حضرات کی جانب سے امدادی سامان کی ترسیل جاری ہے۔

میں ایک دیہاتی ہوں اور دیہی معیشت کی باریکیوں کو جانتا ہوں، تباہی مکمل ہے اور بحالی بہت ہی مشکل ہے جس کے ذریعہ روزگار مویشی بہہ گئے اسے کون ہے جو لاکھوں میں یہ مویشی خرید کر دے ، کون مکان بنا کر دے اور کسی گھر کا سازوسامان کہاں سے لے دے خواہ یہ معمولی سامان شہر والوں کے لیے ایک مذاق ہی کیوں نہ ہو۔ ابھی تو تباہی و بربادی کا ایک نمونہ سامنے ہے۔

ہمارے تو اسپتال بھی بہہ گئے ہیں اور پھر یہ بے سرو سامان لوگ کہاں خاموش رہیں گے اور ان کو کون خاموش کرائے گا۔کیا ان کے اراکین اسمبلی جو ان سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ سیاستدانوں کا باہمی معرکہ بھی برپا ہے اور ان آفت زدہ پاکستانیوں کا نام لے لے کر مخالفوں کی ایسی تیسی کی جارہی ہے ۔ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے ملک میںسفارت کاروں کا ایک ہجوم بھی موجود ہے جو سیاسی لوگوں اور عوام کی حالت کو دیکھ رہا ہے اور ان ملکوں کی حکومتیں اپنے سفارت کاروں کی سفارش پر کوئی کام کرتی ہیں ۔

عرض یہ ہے کہ اس مرتبہ بیرونی امداد کم ملے گی ابھی جو مل رہا ہے وہ فوری ضرورت کی اشیا ہیں جو انسانی زندگی بچانے کے لیے ہیں لیکن نقد امداد کی زیادہ توقع نہیں ہے ۔ رئیس امروہوی شاید ایسی ہی کسی آفت کے لیے کہہ گئے۔

ہم لوگ ہیں عذاب الٰہی سے بے خبر

اے بے خبر! عذاب الٰہی تو یہی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔