عالمی امن کاضامن

سعد اللہ جان برق  بدھ 7 ستمبر 2022
barq@email.com

[email protected]

اگرکوئی ہم سے پوچھے کہ یہ دنیا اب تک قائم ودائم اورزندہ وپایندہ ہے تو کس کی برکت سے ہے یا ابھی تک انسان ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر،مرمر کر ختم کیوں نہیں ہوئے ہیں تو ہمارا جواب ہوگا، جھوٹ کی برکت سے۔ہم عالم فاضل یا دانا دانشورنہیں، عابد وزاہد بھی نہیں بلکہ کچھ زیادہ سمجھ داربھی نہیں لیکن یہ تو ایک عام سی بات ہے بلکہ ابھی اسی وقت ہم ثابت کرسکتے ہیں۔

ایک دن صرف ایک دن کے لیے سارے لوگ جھوٹ بولنا چھوڑدیں اورہزارہزار قسم کھائیں کہ جو کچھ بولیں گے، سچ بولیں گے اورسچ کے سوا کچھ نہیں بولیں گے اورپھر شام کو حساب لگائیں بلکہ حساب کون لگائے گا ،کوئی زندہ بچا ہوتب نا۔اگر اکادکا لوگ بچے ہوں گے یعنی گونگے بہرے ۔تو وہ بھی کراہ رہے ہوں گے۔

اگروسیع پیمانے پر تجربہ ممکن نہ ہو تو چلیے چھوٹے پیمانے پر اپنے گھر سے شروع کردیجئے، اگر آپ شوہر ہیں تو بیوی سے سچ بولنا شروع کردئیجے۔ اگر بیوی ہیں تو شوہرسے جھوٹ بولنا چھوڑدیں ۔اگر والدین ہیں تو بچوں سے اوراگربچے ہیں تو والدین سے،ملازم ہیں تو افسر سے اوراگر افسر ہیں تو اپنے بڑے افسر سے۔مثلاً جن جن سے آپ کاواسطہ ہے اورخوشگوار تعلقات ہیں، ان سے سچ بولنا شروع کردیں، پھر دیکھیے اندازگل افشانی گفتار ،تکرار اورتیروتلوار۔ہرجگہ کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے۔

ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوںگے

نیم بسمل کہیں ہوں گے کہیں بے جاں ہوں گے

ہمارادعویٰ ہے اوراس دعوے کو کوئی بھی کہیں بھی چیلنج نہیں کرسکتاہے وہاں بھی جہاں ’’سچ‘‘ کو’’توہین‘‘ ماناجاتاہے کہ جھوٹ کودنیا سے نکال دیا تو باقی کچھ بھی نہیں بچے گا کہ باقی کچھ ہے ہی نہیں ،نہ تھا اورنہ ہوگا۔ جدھردیکھیے ادھرتو ہی تو ہے ،کسی محترمہ نے کہاہے کہ۔

دنیا جسے کہتے ہیں جادو کاکھلوناہے

مل جائے تومٹی ہے کھوجائے تو سوناہے

لیکن اس کے جواب میں کہیں گے کہ دنیا جسے کہتے ہیں، وہ جھوٹ کاکارخانہ ہے اوراگر اس میں ذرا بھی سچ کی آمیزش ہوگئی تو سمجھ ترقاق سے زہرہلاہل ہوگئی۔

اس بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ دنیا کا پہلا اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل بلکہ اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل اگرکوئی ہوسکتاہے تووہ جھوٹ ہے اورجھوٹ کے سو اکچھ نہیں اورکوئی اس عہدے کااہل نہیں ہوسکتا۔

عام طورپر کہاجاتاہے کہ اقوام متحدہ کاسکرٹری جنرل ایک لحاظ سے دنیا کا وزیراعظم ہوتاہے اور اگر ایساہے تو پھر تو جھوٹ کے سوا اورکوئی بھی اس پوسٹ کے لیے کوالی فائی نہیں کرتا۔ویسے جہاں تک دنیا میں ’’امن ‘‘قائم کرنے یارکھنے کاسوال ہے تو اس مقصد کے لیے موجودہ اقوام متحدہ اتنا بے کارہے جتنی پاکستان میں امن وسلامتی قائم رکھنے ’’قانون نافذ‘‘ کرنے والے ادارے بیکار ہے۔

قانون کے نام پر ایک فلمی لطیفہ یادآیا۔ایک غنڈہ کچھ لوگوں سے کہتاہے کہ تم میراقرضہ اگر کل تک ادا نہیں کر سکوتو وہ ان کے ساتھ والی لڑکی کی طرف اشارہ کرتا ہے،میں اسے لے جاؤں گا۔اس پر ایک شخص کہتاہے کہ دیکھو قانون کو ہاتھ میں مت لو ۔غنڈہ، اس لڑکی کی طرف دیکھتاہے ، اچھاتواس کانام ’’قانون‘‘ ہے، پھر مسکراکر قانون نام ہے اس کا۔ اب تو اسے ضرورہاتھ میں لوں گا۔

بات اقوام متحدہ کی ہورہی ہے، اس کے پاس ویسے بھی صرف دوکام رہ گئے ہیں، ایک ’’ایام‘‘ کایعنی کسی بھی چیزکادن منانا۔اوردوسرے تمام ممالک میں این جی اوزپھیلاکر بے ایمانی پھیلانا۔اس لیے قیام امن کایہ کام ’’جھوٹ‘‘پر ہی چھوڑ دے تو اچھا ہے کہ وہ صدیوں سے یہی کرتاآیاہے ۔

ویسے اقوام متحدہ کے ایام پر یاد آیا کہ اتنے زیادہ عالمی دن منائے جاتے ہیں تو کیوں نہ ایک دن جھوٹ کو دیاجائے ’’جھوٹ کاعالمی دن‘‘ انٹرنیشنل لائیرز ڈے۔اگر چہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ جس کے سال کے سارے دن ہوں، وہ ایک دن کوکرے گا۔

ایک مرتبہ اسلام آباد میں مادری زبانوں ک ادن اکیس فروری کو منایاجارہا تھا۔ہمیں بھی بلایاگیاتھا، اپنی باری آنے پر عرض کیاکہ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ بچاری مادری زبانوں کو سال کے تین سو پینٹسھ میں سے ایک دن دیاگیا مطلب اس کایہ ہواصرف اکیس فروری کو مادری زبان بولیں باقی تین سو چونسٹھ دن آرام سے ،فادری زبانوں کے ساتھ مصروف رہیں۔ اسی طرح سارے عالمی ایام کو لے لیں۔مزے کی بات یہ ہوئی کہ اس تقریب میں اکثربولنے والوں نے مادری کے بجائے فادری زبانیں ہی بولی تھیں۔ لیکن جھوٹ کاعالمی دن اس لیے جمے گا کہ لوگوں کو مقالہ لکھنے کے لیے کوئی ترددنہیں کرنا پڑے گاجہاں سے چاہوگے وہاں سے دن۔

بہرحال اس قدر کام چلاؤ،امن جماؤ،دوستی جماؤ اورکاروبار جماؤ چیزکی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوگی ،جھوٹ کے احسانات اس دنیا پر نوع انسانی پر اورخاص طورپر سیاست پر تو بے شمار ہیں ۔کبھی کبھی تو ہم یہ سوچ کرگبھراجاتے ہیں کہ اگرخدا نہ خواستہ دنیا سے جھوٹ کاخاتمہ ہوگیا،تو تیراکیابنے گاکالیا۔تیراتو ککھ بھی نہیں رہے گا بلکہ توخود بھی نہیں رہے گا۔

ترے بن میں نہ رہوں گا

میرے بن تو نہ رہے گا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔