پاکستان تا قیامت سلامت رہے گا

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 8 ستمبر 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

ہر ذی شعور کو پتہ ہے کہ جس ملک کی معاشی حالت دنیا میں سب سے بہتر ہوگی وہی سپر پاور اور ہر دشمن سے محفوظ ہوگا اور جو اقتصادی و معاشی طور پر کمزور ہوگا وہ غیر محفوظ اور دشمن کے رحم و کرم پر ہوگا۔

جو ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہو وہ اس مریض کی طرح ہے جو وینٹی لیٹر پر ہو اس کے لیے مالی امداد آکسیجن کی مانند ہے، اب اگر کوئی وینٹی لیٹر لگے مریض کا وینٹی لیٹر ہٹائے گا تو اس کا واحد مقصد اس مریض کو مار کر جان چھڑانا ہے۔

اگر مریض کسی کی غلطی کی وجہ سے وینٹی لیٹر تک پہنچا ہو اور وہی شخص وینٹی لیٹر ہٹا دے تو بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ وینٹی لیٹر پر پہنچانا غلطی تھی اور نہ وینٹی لیٹر ہٹانا ! بلکہ یہ عمل کھلی دشمنی ہے اور وہ بھی جب مریض قابل رحم حالت میں وینٹی لیٹر پر تھا۔

اب آتے ہیں کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان، اس کے موجودہ، سابقہ اور آیندہ حکمرانی کے خواب دیکھنے والے سیاستدانوں اور اس ملک و ملت کے ساتھ دشمنی کی حد تک بڑھتی ہوئی بے حسی کی طرف۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا، قائد محمد علی جناح رحمہ اللہ، لیاقت علی خان رحمہ اللہ کے بعد آنے والے تقریباً سارے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو لوٹ مار کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اپنا وقت حکمرانی گزارا، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت کے خاتمے پر ہر چور نے ہی اپنے آپ کو عوام کا اصل اور حقیقی نمایندہ سمجھ کر اقتدار سے رخصتی اور الیکشن میں ہار دھاندلی اور ملک کی بدقسمتی سے تعبیر کیا۔

کسی ایک حکمران نے اس ملک کو مادر وطن سمجھا ہوتا تو آج ہماری یہ حالت کبھی نہ ہوتی۔ آج کل اس ملک کی حقیقی حکمرانی کا واحد دعویدار عمران خان نیازی ہے جو پونے چار سالہ حکمرانی کے بعد جمہوری اصول و قواعد اور آئین پاکستان کے عین مطابق عدم اعتماد کی وجہ سے ایوان اقتدار سے نکلا۔ ابھی وزیراعظم ہاؤس میں تھا کہ کہنے لگا کہ “میں اقتدار سے باہر اور بھی خطرناک ہو جاؤں گا” اس جملے کا واضح مطلب ہے کہ وہ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی خطرناک ہے اور جب ایوان اقتدار سے نکلے گا تو وہ اس سے زیادہ خطرناک ہوجائے گا۔ قوم حیران تھی کہ عمران خان نیازی کی یہ دھمکی کس کے لیے ہے۔

ہر بندہ اپنی فہم کے مطابق اس کے مخاطب کو تلاش کرتا رہا۔کوئی کہتا تھا کہ یہ دھمکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ہے اور وہ کسی حد تک حق بجانب تھے کیونکہ اقتدار سے اترنے کے فوراً بعد انھوں نے سرکشی شروع کی تھی، کوئی کہہ رہا تھا کہ مخاطب اپوزیشن، خصوصاً بحیثیتِ جماعت مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ہیں اور شخصی طور پر شریف فیملی، زرداری، بھٹو فیملی، مولانا فضل الرحمن اور ان کا خاندان ہے اور یہ لوگ بھی حق بجانب تھے کیونکہ عمران خان نے گذشتہ 15سے 20 سال اپنی سیاسی دکان کو ان کی مخالفت میں اندھا ہوکر چمکایا، ان میں سے کسی کو بھی ان کے نام سے نہیں پکارا بلکہ ہمیشہ نام بگاڑ کر مخاطب کرتا رہا۔ اپنے چاہنے والوں کی اسی نہج پر تربیت کرتا رہا اور انھیں بھی اسی کلچر کو اپنانے کی تلقین کرتا رہا۔

اس نے اس ملک میں ایک ایسی نسل تیار کر ڈالی ہے جسے چھوٹے بڑے کی تمیز تو دور کی بات اپنے حقیقی رشتے داروں حتیٰ کہ ماں باپ سے بات کرنے کا ڈھنگ نہیں رہا۔ ہر کسی سے بدتمیزی اور بڑوں کی بے توقیری کی زہریلی عادت سے لیس ہو کر ہماری معاشرتی اقدار کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ اپنے کچھ ذاتی مشاغل کے علاوہ مخالفین کی پگڑی اچھالنا، گالیاں دینا، مخالفین کو چور اور ڈاکو کہنا ان کے مشاغل ہیں اسی بنیاد پر یہ بات بھی قابل فہم تھی کہ یہ دھمکی ان کے لیے ہوگی۔

مگر ہم نے تبدیلی میں کچھ اس طرح لکھا تھا کہ “یہ دھمکی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے لیے تو ہے ہی مگر حقیقت میں یہ دھمکی ریاست پاکستان کو دی گئی ہے” اور یہ بات ہوا میں نہیں کہی تھی بلکہ حکیم محمد سعید شہید رحمہ اللہ اور ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی پیشگوئیوں اور اپنے ذاتی مشاہدے اور فہم کے مطابق کہی تھی۔

میرے خیال میں وہ ایوان اقتدار میں رہ کر اپنے مخالفین کے لیے، اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کے لیے خطرناک تھے اور آج مجھے وہ اپنے دعوے میں سچے ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ اب وہ نہ صرف موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرناک ہے بلکہ وہ ریاست دشمنی میں بھی کھل کر آگئے ہیں، انکا خیال بلکہ وہم ہے کہ ریاست بکھر جائے گی تو پھر اپوزیشن رہے گی نہ اسٹیبلشمنٹ مگر یہ ان کی خام خیالی ہوگی انشاء اللہ پاکستان تاقیامت سلامت رہے گامگر عمران کی محبت میں گرفتار نسل نو کو سمجھانا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے اس لیے اس پر وقت ضایع نہیں کرتے بلکہ آتے ہیں۔

اقتدار چھن جانے کے بعد عمران خان ضدی بچے کی طرح پہلے سے بھی زیادہ ضدی بن گئے ہیں۔ ان کی تقاریر سے ریاست کو نقصان پہنچتا ہے تو پہنچتا رہے، اسے کوئی پرواہ نہیں۔ پہلے شہباز گل نے فوج کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی، اب پی ٹی آئی کے سابق وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین کی آڈیو کالز منظر عام پر آگئیں۔

آڈیو لیکس کے مطابق شوکت ترین پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ کو آئی ایم ایف کو خط ارسال کرنے کی ہدایت کررہے ہیں، جس میں سیلاب کی وجہ سے مبینہ طور پر 750 ارب روپے کی یقین دہانی پوری نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

لیک ہونے والی ٹیلی فون کال کی آڈیو میں شوکت ترین سے دورانِ گفتگو پنجاب کے وزیرِ خزانہ محسن لغاری کی پاکستانیت جاگ اٹھی اور سوال کیا کہ اس سے ریاست کو نقصان تو نہیں ہوگا۔ جس پر شوکت ترین نے انھیں جواب دیا کہ جس طرح چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور دیگر کے ساتھ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے، کیا اس سے ریاست کو نقصان نہیں ہو رہا؟ یہ نہایت حساس نوعیت کا معاملہ ہے بلکہ یہ معاملہ ریاست پاکستان پر خود کش حملے کے مترادف ہے، جس پر حکومت، ریاستی اداروں اور تمام محب وطن حلقوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ آڈیوز لیکس سے پہلے فواد چوہدری یہ کہہ چکے تھے کہ “اگر فوری الیکشن کا اعلان نہ کیا گیا تو آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہونے دیں گے”۔

اس کے دو دن بعد ہی سانپ ان آڈیو لیکس کی صورت میں پٹاری سے باہر نکل آیا۔ یہ اتفاق نہیں بلکہ پارٹی پالیسی اور بیانیے کا تسلسل ہے۔ پہلے شہباز گل نے ہرزہ سرائی کی، پھر فواد چوہدری نے دھمکی دی۔ گوکہ عمران خان سمیت پی ٹی آئی قائدین ایک ایک کرکے شہباز گل کے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے اور راہ فرار اختیار کرتے رہے۔ مگر ریاستی اداروں نے اس معاملے کو زیادہ اہمیت نہیں دی اگر عمران خان سمیت سب کو شامل تفتیش کرتے تو صورت حال مختلف ہوتی مگر چشم پوشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس بار جو حملہ کیا گیا اس کے دفاع میں ساری کی ساری پی ٹی آئی کھڑی ہے۔

کپتان وہ انوکھا لاڈلہ بن چکا ہے جو کھیلن کو چاند نہیں مانگ رہا، بلکہ ضد میں آکر اس چاند کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اسے احساس اور ادراک نہیں کہ آدھے سے زیادہ ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار بنا ہے، کروڑوں لوگ اپنا سب کچھ سیلاب میں بہا کر سڑکوں پر آگئے ہیں۔ اس نازک موقع پر جب تمام سیاسی قیادت کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے متحد ہونا چاہیے تھا مگر وہ جلسے کرکے انتشار پھیلا رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نیازی نے فیصل آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ستمبر میں نیا آرمی چیف آنے والا ہے اور یہ دونوں زرداری اور نواز شریف اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں، یہ ڈرتے ہیں کہ تگڑا اور محب وطن آرمی چیف آیا تو ان سے چوری کا پوچھے گا۔

اس لیے ان کی پوری کوشش ہے اپنا آرمی چیف لے آئیں۔ شہباز گل نے جو کہا تھا وہ ابتدایہ، فواد چوہدری کی دھمکی، شوکت ترین کی آڈیو لیک اور آئی ایم ایف کو خط یہ ریاست دشمنی کے ناقابل تردید ثبوت و شواہد ہیں۔

ابھی تک تو عمران خان نیازی اپنے مخالف سیاستدانوں میں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتا رہا مگر آج وہ پاکستان کے عسکری ادارے میں پھوٹ ڈالنے کا پروگرام بنا رہا ہے، فی الحال انھوں نے پانی کی گہرائی ناپی ہے۔ خان صاحب آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ سارے جنرلز، سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہوئے، صبر آزما ٹریننگ سے گزرے ۔ اپنی جوانیاں پاکستان کی سلامتی اور حفاظت کے لیے ہتھیلی پر رکھنے، دشمن کی گولیوں کو اپنے سینے پر روک کر مادر وطن کی حفاظت کرنے کا عہد پورا کرکے یہاں تک پہنچے۔

ان کے سامنے ان کے جگری دوست اور کورس میٹ شہید ہوئے ان کے ہاتھوں اور گود میں سر رکھ کر جام شہادت نوش کیا اور اس طرح اپنے کیریئر کے پیک تک حب الوطنی کے تمغے سجا کر یہاں پہنچے۔ دوسری طرف آپ کو آج تک پاکستان کی خاطر مچھر تک نے نہیں کاٹا تو آپ محب وطن اور جنھوں نے اپنے سینے دشمن کی گولیوں کے پیش کیے وہ غدار؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔