سیلابوں سے کیسے بچا جائے

عبد الحمید  جمعـء 9 ستمبر 2022
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

اب جب کہ بلوچستان،خیبر پختون خواہ،گلگت بلتستان، اورسوات کے علاقوں سے موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں تباہ کن سیلابی ریلے اترتے جا رہے ہیں، سندھ سیلابی پانی میں ڈوبتا جا رہا ہے۔پانی منچھر جھیل کے کناروں سے باہر چھلکنے پر سیہون شریف کو بچانے کے لیے اس جھیل میں اب تک تین شگاف ڈالے جا چکے ہیں۔بستیوں کی بستیاں اورکھڑی فصلیں پانی میں ڈوب چکی ہیں۔سبزیاں اور پھل گل سڑ چکے ہیں۔ سندھ تباہ ہو چکا ہے۔

پانی نکلنے یا خشک ہونے میں چند ماہ درکار ہوں گے۔موجودہ فصل خراب ہو چکی ہے اور زیرِ آب ہونے کی وجہ سے اگلی فصل کی بوائی نا ممکن نظر آتی ہے۔پاکستان دنیا کا بہترین نہری نظام رکھنے والا  ملک ہوتے ہوئے،انتہائی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پہلے ہی غذائی اجناس باہر سے منگوانے پر مجبور ہے۔موجودہ تباہی سے شدید ترین غذائی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس کا جلد از جلد حل نکالنا ہو گا۔

ہمارے کارپردازوں کو سوچنا ہو گا کہ سلاب سے متاثرہ علاقوں میں جلد بحالی کیسے ممکن بنائی جائے اور پورے ملک میں غذائی قلت سے کیسے نمٹا جائے۔ اجناس، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ابھی اس تباہی کے اثرات کی ابتدا ہے۔ پٹرول اور کھاد کی قیمتیں زیادہ رہنے سے کاشت کار کو شدید مشکلات ہیں۔ان عوامل کو نظر میں رکھ کر آیندہ کی حکمتِ عملی ترتیب دینی ہو گی۔

دنیا میں سب سے زیادہ بارش جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا کے علاقے ٹوٹوننڈو میں ہوتی ہے۔وہاں سالانہ11770ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔نیوزی لینڈ کے کراپ دریا کے علاقے میں11516ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔بھارت میں شیلانگ کے نزدیک ماسن رام اور چراپونجی کے مقامات پر سالانہ دس ہزار ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔افریقہ میں استوائی گنی اور سان انٹونیو میں سالانہ 10450ملی میٹر،افریقہ ہی میں کیمرون میں اوسط دس ہزار ملی میٹر،جزیرہ ہوائی کے تین مقامات اور چین کے صوبے سی شوان میں اوسطاً آٹھ ہزار ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔

بہت زیادہ بارش والے ان علاقوں میں پہاڑی ندی نالوں ،دریاؤں اور رودکوہیوں و سیلابی ریلوں سے کبھی کوئی نقصان رپورٹ نہیں ہوا پھر پاکستان میں ایسا انوکھا کیا ہے کہ یہاں ادھر بارش ہوئی اور اُدھر تباہی شروع ہو گئی۔ سوات چترال میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ کسی دریا اور ندی نالے کی گزرگاہ کے پتھر جہاں تک پڑے ہوں وہاں تک کوئی آبادی، کوئی تعمیر نہیں کرنی چاہیے۔یہ پتھر دریا کے انڈوں کی طرح ہوتے ہیںاور دریا جلد یابدیر انھیں سینچنے کے لیے ضرور آتا ہے۔

یہ بات زیادہ بارش والے ہر علاقے کے مکینوں کو معلوم ہے لیکن ہمارے ہاں زمین پر قبضے کی اتنی ہوس ہے کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود پانی کی گزرگاہ کو بھی نہیں چھوڑتے جہاں بھی بس چلے تعمیرات کر کے اپنے قبضے کو پکا کرتے ہیں۔

تین سال پہلے ناسا کے جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2025 تک موسمیاتی تغیر و تبدل شدید ہوتا چلا جائے گا، کہیںزورداربارشیں،کہیں خشک سالی اورکہیں زلزلے متوقع ہیں۔خشک سالی اوربارشیں،یہ دونوں موسمیاتی حالتیں پلٹ پلٹ کو جلدی جلدی آئیں گی۔ایسے میں پاکستان کو خشک سالی اور خاص کر تباہ کن سیلابوں سے محفوظ ملک بنانے کے لیے کچھ اقدامات تیزی سے اُٹھانے ہوں گے۔

ان میں سے کچھ شارٹ ٹرم اقدامات ہیں اور کچھ لانگ ٹرم۔سب سے پہلا، آسان اور انتہائی ضروری قدم یہ ہونا چاہیے کہ پورے ملک میں پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستے میں تمام تعمیرات کو غیر قانونی گردانتے ہوئے اگلے چند ماہ میں مسمار کرنا ہوگا تاکہ جتنا مرضی پانی آئے وہ جانی اور مالی نقصان پہنچائے بغیرگزر جائے۔ آبی گزرگاہوں کو محفوظ بنانا ہو گا۔

موجودہ ڈیموں اور بندوں کی ترجیحی بنیادوں پرخاطر خواہ مرمت کا بیڑہ اٹھانا ہو گا۔اگر یہ کام کر لیا جائے تو سیلاب کا خطرہ کافی کم ہو جائے گا۔ آفت کے مارے لوگوں کی مدد کے لیے کیے گئے دکھاؤے کے تمام  کاموں سے منہ موڑنا ہوگا۔ حکومتی جعلی امدادی کیمپوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گی۔یہ انسانیت کی کھلم کھلا تذلیل کا سبب بنتے ہیں۔اس سال جتنی بارش اسلام آباد اور جہلم میں ہوئی اتنی ہی بارش کراچی میں ہوئی۔

اسلام آباد اور جہلم میں پانی اتر گیا ،اس لیے ان مقامات پر کوئی علاقہ نہیں ڈوبا۔ کراچی میں عمومی طور پر بارشیں بہت کم ہوتی ہیں اس لیے سڑکیں بناتے اور تعمیرات کرتے وقت اس بات کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جاتا کہ اگر زیادہ بارشیں ہو گئیں تو تب کیا ہو گا۔کراچی میں نکاسی آب کا سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بیشتر علاقے  بشمول ڈیفنس کراچی پانی میں ڈوب گئے۔

آج کل ڈیم بنانے کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ڈیم بنانے کے لیے بہت سرمایہ اور کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ 1970کے بعد ہماری تمام حکومتوں نے اس سلسلے میں کوتاہی برتی ہے لیکن اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے تمام مقامات جہاں ڈیم بن سکتے ہیں۔جن کی Feasibilityرپورٹ بھی مثبت آ چکی ہے ان پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اے این پی اور سندھ میںسیاسی رہنماؤں کو اپنی صوبائی اور علاقائی سیاست پر ریاست اور عوام کی بہتری کو ترجیح دینی پڑے گی۔ہمارے پڑوسی ملک میں ساڑھے چار ہزار ڈیم بن چکے ہیں اور ہم اس انتہائی ضروری کام سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

سندھ میں ویسے تو دریا اور ندی نالے پانی کو ترستے ہیں ۔دریائے سندھ جس میں کبھی اسٹیمر سروس چلا کرتی تھی وہاں ابھی تین مہینے پہلے حیدر آباد کے قریب دریا کا پاٹ خشک پڑا تھا۔طوفانی بارشوں میں البتہ ہمارے دریا بے کراں ہو جاتے ہیں اس لیے فاضل پانی کو سنبھالنے کے لیے آؤٹ فال ڈرین بہت ضروری ہیں۔سندھ میں چار آؤٹ فال ڈرین تھیں جن میں سے تین ڈرین بند ہو چکی ہیں اور صرف ایک لیفٹ آؤٹ فال ڈرین کسی حد تک کام کر رہی ہے جس کو ورلڈ بینک کی مدد سے 1987سے1997کے درمیان مکمل کیا گیا۔

یہ غالباً ایک سو تیس کلو میٹر طویل ڈرین ہے جوبے نظیر آباد،سانگھڑ،بدین اور میر پور خاص کے علاقوں کا پانی نکالتی ہے۔دیکھ بھال اور بروقت مرمت نہ ہونے سے اس کی صلاحیت میں خاصی کمی ہو چکی ہے۔اسی لیے 2003میں اس ڈرین سے پانی باہر نکل کر چاروں طرف پھیل گیا۔

اس ڈرین کو بڑا،چوڑا اور مزید گہرا کرنے کے ساتھ اس کی مسلسل مرمت و دیکھ بھال کی طرف دھیان دینا ہو گا۔دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر تین پروجیکٹس پر مشتمل رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین ایک بڑا منصوبہ ہے جو بوجوہ ابھی تک مکمل نہیں ہو پایا۔یہ کشمور سے شروع ہو کر منچھر جھیل تک کے علاقے کے فاضل پانی کو لے کر دریائے سندھ کے سپرد کرتا ہے۔اس پروجیکٹ کی زمینوں پر جا بجا قبضے ہو چکے ہیں۔قبضہ کرنے والوں نے مٹی سے بھرائی کر کے اسے مختلف جگہوں سے بند کر دیا ہے۔یہ  لاڑکانہ سمیت سندھ کے چاول پیدا کرنے والے اضلاع کے علاوہ ملحقہ بلوچستان کے اضلاع کو سیلاب سے بچا سکتا ہے۔کاش یہ مکمل کر لیا جائے۔

راجن پور،تونسہ اور روجھان میںکل چھ سے آٹھ ڈیموں کے بنانے کی ضرورت ہے۔جنوبی پنجاب میں یہ چند ڈیم بن جائیں اور آبی گزرگاہوں میں غیر قانونی تعمیرات اور قبضے ختم ہو جائیں تو یہ سارا علاقہ بشمول اپر سندھ سیلاب اور خشک سالی دونوں سے بہت حد تک محفوظ ہو جائے گا۔

ایک اندازے کے مطابق اگر ایک سو ملین روپے سندھ میںنکاسی آب یعنی ڈرینوں پر لگا دیے جائیں تو آیندہ کے لیے سارا سندھ بھی سیلاب سے بچ جائے گا اور لاکھوں ایکڑ پر کاشتکاری بھی محفوظ ہو جائے گی۔ابھی سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کے لیے 70ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،کیا ہی اچھا ہو کہ یک مشت 100ملین روپے لگا کر چاروں ڈرینوں کو مکمل کر لیا جائے تو بہت لمبے عرصے تک سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔