انوار زیدی ، کچھ یادیں…ڈاکٹر حسن جاوید

ڈاکٹر حسن جاوید  جمعـء 9 ستمبر 2022

’’ ساتھی انجمن محبان وطن دوبارہ فعال کرنے کی کوشش جاری ہے۔‘‘

’’ آج ایک دار المطالعہ کا آغاز ہو گیا ہے۔‘‘

’’ ڈاکٹر رشید حسن خان میموریل کلینک کے سلسلے میں ساتھیوں سے ملاقات ہے، کوشش ہے کہ ڈاکٹر ساتھیوں کا تعاون مل جائے۔‘‘

’’ این ایس ایف کے کونسل سیشن کے لیے ساتھیوں نے لاہور بلایا تھا، وہاں جا رہا ہوں۔ ‘‘

’’ فیصل آباد میں پرانے کسان ساتھیوں سے ملاقات ہے ، ایک ہفتے کے لیے وہاں قیام رہے گا۔‘‘

’’ اردو بازار کے راستے میں بس میں ہوں ، فلاں ساتھی نے سورج پہ کمند منگوائی تھی ، اردو بازار سے لے کر ان تک پہنچانی ہے۔‘‘ ( نوٹ : فلاں ساتھی کے پاس کار اور ڈرائیور ہمیشہ موجود رہتا ہے۔)

’’ تین دن سے تیز بخار تھا ، آج کچھ ہوش آیا ہے تو ایچ آر سی پی کے دفتر میں ایک تعزیتی ریفرنس میں شرکت کے لیے جا رہا ہوں ، ویگن میں سگنل بہت خراب ہے ، آپ کی آواز صاف نہیں سنائی دے رہی۔‘‘

’’ غیاث بابا کی طبیعت بہت خراب ہے، آج ان کی عیادت کے لیے گیا تھا ، ہمیں اپنے پرانے ساتھیوں کی خبر گیری کا کوئی نظام بنانا چاہیے۔‘‘

’’ عبد الوہاب بلوچ سے بہت عرصہ ہو گیا ملاقات ہوئے ، کل ان سے ملنا ہے۔‘‘

’’ عبدالحئی نے سورج پہ کمند کے لیے یاد داشتیں لکھی ہیں، آپ تک کیسے پہنچائی جائیں؟‘‘

’’ساتھی آپ کب کراچی پہنچے، میں ابھی آپ کے پاس آتا ہوں، کچھ اہم معاملات میں مشورہ چاہیے۔‘‘

ستمبر 2017 میں کراچی کے ایک سفر کے دوران ، پہلی ملاقات کے بعد سے شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرتا ہو جب کم از کم دو یا تین بار انوار زیدی سے ٹیلی فون پر گفتگو نہ ہوتی ہو ، نہ ہی ایسا ہوا کہ کبھی وہ گھر پر آرام کرتے ہوئے ملے ہوں یا تو وہ کہیں جا رہے ہوتے تھے یا کہیں سے آ رہے ہوتے تھے، یا ہم خیال ساتھیوں کی کسی نشست کے منتظر ہوتے۔ گھر پر ان کی موجودگی کا مطلب صرف یہ ہوتا کہ آج ان کی طبیعت اس قدر خراب ہے کہ وہ چلنے پھرنے کی بھی ہمت نہیں پا رہے۔

کافی عرصہ بعد یہ پتا چلا کہ برسوں سے ان کا کوئی مستقل گھر بھی نہیں تھا ، کبھی ایک اور کبھی دوسرے واقف یا دوست کے ساتھ قیام ہوتا۔ نئی کراچی کے پرانے دوستوں اور محلہ داروں کے دروازے ان کے لیے کبھی بند نہ ہوئے ، لیکن وہ کسی کے لیے مستقل بوجھ بھی نہیں بننا چاہتے تھے۔ بیٹی کی شادی کی ذمے داری سے عہدہ برآ ہونے کے بعد ، ان کے سیلانی پن میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ان سے ہر دوسرے روز گفتگو کا یہ سلسلہ گزشتہ برس ان کے فالج کا شکار ہونے تک جاری رہا۔

انوار زیدی سے پہلا تعارف کلیم درانی کی وساطت سے ارتقا انسٹیٹیوٹ کے دفتر میں ہوا تھا۔ میں سورج پہ کمند کی پہلی جلد کی تکمیل میں مصروف تھا اور این ایس ایف کے ایسے پرانے کارکنوں کی تلاش میں تھا جو اپنی یاد داشتوں کے ذریعے میرے کام میں مددگار ہو سکیں۔ کلیم درانی نے ارتقا کے دفتر میں یہ کہہ کر بلوایا کہ این ایس ایف نئی کراچی یونٹ کے ایک پرانے ساتھی یہاں موجود ہیں، آپ کو ان سے کافی مدد مل سکتی ہے۔ پہلی ملاقات سے ہی ہمارے درمیان احترام اور محبت کا ایک گہرا رشتہ قائم ہو گیا ، کم از کم زیدی صاحب نے یہ رشتہ قائم رکھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔

کراچی قیام کے دوران جب بھی ملے، اتنی محبت اور عزت سے پیش آئے کہ محسوس ہوتا تھا کہ کوئی بہت پرانی واقفیت ہے، بسوں اور ویگنوں میں سفر کرتے ہوئے ہر اس شخص سے ملنے کے لیے بے چین رہتے ، جن کے بارے میں ان کا حسن گمان تھا کہ یہ اب بھی اپنے نظریات سے مخلص ہیں۔

انوار زیدی 1973 میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان ، کراچی شاخ کے خزانچی اور 1974 میں جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے، اس سے قبل وہ نئی کراچی یونٹ اورگورنمنٹ کالج ناظم آباد کے یونٹ سیکریٹری کے فرائض بھی سرانجام دے چکے تھے، لیکن این ایس ایف سے ان کی وابستگی کا سفر اسکول کے زمانے سے ہی شروع ہو چکا تھا۔ وہ کراچی کی ایک مضافاتی بستی نئی کراچی کے رہائشی تھے۔

یہاں کی زیادہ تر آبادی نچلے درمیانی اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ سن ساٹھ کی دہائی میں اس پسماندہ علاقے میں این ایس ایف سے منسلک ایک سماجی تنظیم انجمن محبان وطن نے اپنی سماجی خدمات کا آغازکیا جس میں غریب طلبا کے لیے ایک ٹیوشن سینٹر کا قیام بھی شامل تھا۔

انجمن محبان وطن کے سرکردہ منتظمین میں ایوب عثمانی ، سید ستار حسین اور محمد اقبال جیسے سینئر ترقی پسند کارکنان شامل تھے جب کہ ٹیوشن سینٹر میں تعلیم دینے والے موسیٰ رضا پاشا، نعیم آروی، احتشام صدیقی، نظار حسین وغیرہ خود بھی این ایس ایف کے سینئر کارکنان رہے تھے۔ انوار اس وقت اپوا بوائز اسکول میں زیر تعلیم تھے اور خود بھی اس ٹیوشن سینٹر کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے تھے۔

یہیں ان کا تعارف ترقی پسند نظریات اور این ایس ایف سے ہوا۔ نئی کراچی یونٹ نہ صرف این ایس ایف کا سب سے منظم علاقائی یونٹ تھا بلکہ اسے کراچی شاخ کا بازو شمشیر زن بھی سمجھا جاتا تھا۔ این ایس ایف سے اپنی وابستگی کے دوران انھوں نے 1973 اور 1975 میں دو بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

انوار اپنی زندگی کے آخری سالوں میں سوشل میڈیا پر بہت متحرک تھے۔ سیاسی موضوعات پر ان کی تلخ نوائی کئی بار دوستوں کی ناراضگی کی وجہ بھی بنی لیکن وہ اپنی رائے کے اظہار میں ہمیشہ دو ٹوک رہے۔ ترقی پسند تحریک کے سابقہ کارکنان کی خبر گیری کرنا ، ان کے معمولات میں تھا اور مجھ سے بات چیت کے دوران وہ اکثر اس بات پر شاکی رہے کہ تحریک نے اپنے ان جاں نثار کارکنوں کو برے وقتوں میں فراموش کردیا۔

وہ ان کارکنوں کے حالات زار کو سوشل میڈیا پر بھی اپنی تحریر کا موضوع بناتے ، جس میں ان کا درد واضح طور پر جھلکتا تھا۔ ان کا انداز تحریر بہت پر اثر اور منفرد تھا۔ کاش کہ وہ اپنی قلمی صلاحیت کو یکسوئی سے استعمال کرتے تو یقینا ان کا شمار ادب برائے زندگی کی ترجمانی کرنے والے اچھے لکھاریوں میں ہوتا۔ میرے اصرار پر انھوں نے اپنی یاد داشتیں اپنے منفرد انداز میں لکھنی شروع کیں جس کی ایک قسط ’’ ڈوبتی ابھرتی یادیں‘‘ کے عنوان سے ہم سب میں شایع بھی ہوئی لیکن اپنی گونا گوں دلچسپیوں کے باعث وہ اس سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے۔

اسی طرح سماجی موضوعات پر بہت پر اثر مختصر کہانی نویسی کا سلسلہ بھی وہ جاری نہ رکھ سکے۔ان کی اپنی صحت ہمیشہ ان کی آخری ترجیح رہی۔ وہ بلڈ پریشر کے عارضے کا شکار تھے، لیکن غالباً دوائی کی پابندی اور کھانے پینے کی احتیاط ان کے رہن سہن کے انداز میں ممکن نہ تھی۔

میرے بے حد اصرار پر وہ ایک دو بار ڈاکٹر امین بیگ سے معائنہ کروانے گئے لیکن علاج کے معاملے میں ثابت قدم نہ رہے۔ جس دن ان پر فالج کا حملہ ہوا اسی دن ان کا فون آیا تو ان کی زبان لڑکھڑا رہی تھی، لیکن ان کا اصرار تھا کہ ایسا صرف دانتوں میں آ کر زبان زخمی ہونے کے باعث تھا۔

وہ کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے تیار نہ تھے۔ ہمارے پرانے ساتھی عبدالحئی بہت مشکل سے انھیں ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو فالج کے حملے کی تصدیق ہوئی۔ اگلا مرحلہ انھیں اسپتال لے جانا تھا، مسلسل انکار کے بعد بالآخر ایدھی اسپتال جانے کے لیے راضی ہوئے، لیکن دو مرتبہ آئی ہوئی ایمبولینس واپس کردی، تیسری کوشش بہ مشکل کامیاب ہوئی۔

اسپتال میں داخل ہوتے ہی ڈس چارج پر اصرار بڑھتا گیا۔ اسی دوران پیشاب کے انفیکشن کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے پر ، ان کی صاحبزادی اور داماد بمشکل انھیں اپنے ساتھ لے جانے پر راضی کرسکے۔

اپنی زندگی کا آخری سال انھوں نے اپنی بیٹی، داماد اور نوزائیدہ نواسی کے ساتھ گزارا، فالج کے اثرات کے باعث وہ وہیل چیئر اور بستر تک محدود تھے لیکن ان کی صاحبزادی اور داماد نے ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ خوراک اور علاج کا بھی پورا خیال رکھا گیا۔ لیکن شاید ان کی سیماب صفت شخصیت، اس ٹھہراؤ کو زیادہ عرصہ برداشت نہیں کرسکی۔ 27 اگست کو ان کی صاحبزادی اور عبدالحئی صاحب کے پیغامات سے ان کے انتقال کی خبر ملی۔

الوداع ساتھی انوار زیدی! ستمبر میں آپ سے ملنے کی خواہش اب خواہش ہی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔