افریقن شیروں کی بہتات، پنجاب میں نئی سفاری کا منصوبہ مکمل نہ ہوسکا

آصف محمود  جمعـء 9 ستمبر 2022
فوٹو : ایکسپریس نیوز

فوٹو : ایکسپریس نیوز

لاہور چڑیا گھر اور سفاری پارک میں افریقن شیروں کی بڑھتی ہوئی آبادی انتظامیہ کے لیے مسئلہ بنتی جا رہی ہے، ان شیروں کی نہ تو نیلامی کی جا رہی ہے اور نہ ہی پنجاب کے دوسرے چڑیا گھروں میں منتقل کیا گیا ہے۔

دوسری طرف لاہور کے وائلڈ لائف جلو پارک سمیت کئی چڑیا گھر ایسے ہیں جہاں شیر اور ٹائیگر رکھے ہی نہیں گئے۔ جلو پارک میں 2016 میں لائن سفاری منصوبے کے تحت انکلوژر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، گزشتہ سال یہ منصوبہ تقریبا مکمل ہوچکا ہے لیکن اب ان انکلوژرز میں شیروں کی بجائے گھاس اور جھاڑیاں اگ چکی ہیں۔

لاہور چڑیا گھر اور وائلڈ لائف سفاری پارک میں بہتر سہولتوں اور انتطامات کے باعث مختلف جانوروں خاص طور پر افریقن شیروں کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت چڑیا گھر میں17 شیر اور 8 ٹائیگر ہیں، ایسی ہی صورتحال لاہور سفاری زو میں ہے۔ یہاں بھی افریقن شیروں سمیت اس انواع کے دیگر جانوروں کی تعداد 40 سے زائد ہے۔

یہاں تفریح کے لیے آنے والے شہری بھی شیروں کی کثیر تعداد سے بیزار نظر آتے ہیں۔ ایک خاتون یمنا عامر کا کہنا تھا کہ چڑیا گھر میں ویسے تفریح کا کافی مزہ آتا ہے لیکن شیر بہت زیادہ ہیں، انتطامیہ کو چاہیے کہ یہاں شہریوں خاص طور پر بچوں کی دلچسپی کے دوسرے جانور بھی لائیں تاکہ یہاں کی رونقوں میں مزید اضافہ ہوسکے، یا پھر اضافی شیروں کو دیگر چڑیا گھروں میں منتقل کر دیا جائے۔

ایک اور شہری ظل ہما نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا لاہور چڑیا گھر ہو یا سفاری پارک، ہر طرف شیر ہی شیر نظر آتے ہیں، انتظامیہ ان شیروں کو بیچ کر دوسرے جانور لائے یہاں چمپینزی کا پنجرہ کئی سالوں سے خالی ہے، ہاتھی بھی نہیں ہے۔ زرافہ ہونا چاہیے۔

شیروں کی کثیر تعداد میں جہاں شہریوں کی دلچسپی کم نظر آتی ہے وہیں خود انتظامیہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ چڑیا گھروں میں گنجائش سے زیادہ جانور رکھنا خود ان جانوروں کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔

لاہور چڑیا گھر کی ترجمان اور ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم کہتی ہیں کہ چڑیا گھروں میں موجود انکلوژرز کے ساتھ اضافی انکوژر بھی بنائے جاتے ہیں تاکہ جب گنجائش سے زیادہ جانور ہوں تو انہیں وہاں منتقل کیا جا سکے۔ خاص طور پر بریڈنگ سیزن میں مادہ شیرنی کا رویہ تبدیل ہوجاتا ہے، ان جانوروں کو اگر اکٹھا رکھا جائے تو آپس میں لڑتے ہیں اور ان کے زخمی ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے اس کے علاوہ ان کے رویے اور برتاؤ پر منفی اثر پڑتا ہے۔

لاہور کے ان دو بڑے چڑیا گھروں میں شیروں کی بھرمار ہے لیکن اگر پنجاب کے دیگر چڑیا گھروں کا جائزہ لیں تو وہاں بہت کم تعداد میں شیر اور ٹائیگر رکھے گئے ہیں۔ اس وقت ڈی جی خان چڑیا گھر میں چار، کمالیہ زو میں بھی چار، بہاولپور چڑیا گھر میں 9، لوئی بھیر میں ایک جبکہ وہاڑی زو میں پانچ افریقن نر اور مادہ شیر ہیں۔ لاہور کے وائلڈ لائف پارک جلو سمیت کئی چڑیا گھر ایسے ہیں جہاں شیر اور ٹائیگر رکھے ہی نہیں گئے۔

پنجاب وائلڈلائف کے ترجمان محمد رمضان نے بتایا کہ ’’شیروں سمیت دیگر سرپلس جانوروں کے حوالے سے ادارے کی پالیسی بڑی واضع ہے‘‘۔ سرپلس جانوروں کے حوالے سے پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ انہیں ایسے دوسرے سرکاری چڑیا گھروں کے ساتھ ایکسچینج کیا جائے جہاں وہ جانور موجود نہ ہوں اور وہاں سے متبادل کے طور پر دوسرے جانور منگوا لیے جائیں۔ اس وقت لاہور سفاری میں لائن سفاری میں توسیع کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے جس کے تحت مزید انکلوژر بنائے جائیں گے جبکہ جلو پارک میں انکلوژر تقریباً مکمل ہیں، اضافی شیروں کو ان دو جگہوں پر منتقل کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ آخری آپشن کے طور پر نیلامی کی جاتی ہے، سفاری پارک میں 12 شیروں کی نیلامی گزشتہ مالی سال میں منظور کی گئی تھی لیکن نئے مالی سال میں اس فیصلے پر نظرثانی کے بعد ان کی نیلامی کا فیصلہ منسوخ کر دیا اب ان شیروں کے لیے نئے انکلوژر بنائے جا رہے ہیں۔

واضع رہے کہ لاہور جلو سفاری کا منصوبہ جولائی 2016 میں شروع کیا گیا تھا جس کی لاگت کا تخمینہ تقریباً 400 ملین روپے تھا۔ یہ منصوبہ جون 2019 میں مکمل ہونا تھا تاہم ابھی تک کام نامکمل ہے۔

شیروں کے لیے بنائے گئے انکلوژرز میں جھاڑیاں اور گھاس نظر آتی ہے اور یہ انکلوژر آباد ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہوگئے ہیں جس سے حکومت کے کروڑوں روپے کے فنڈز ضائع ہو رہے ہیں۔

پنجاب وائلڈ لائف کی طرف سے منصوبے تو بنائے جاتے ہیں تاہم جیسے ہی محکمے کا وزیر، سیکریٹری یا پھر ڈی جی تبدیل ہوتا ہے یہ منصوبے ٹھپ ہو جاتے ہیں یا پھر ان کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔