زباں فہمی؛ کچھ وقت بہار اُردو لغت کے ساتھ

 اتوار 11 ستمبر 2022
بِہار کی ادبی وعلمی خدمات سے متعلق متعدد کتب اور مقالہ جات سپردِقرطاس ہوچکے ہیں، منصہ شہود پر آچکے ہیں۔ فوٹو : فائل

بِہار کی ادبی وعلمی خدمات سے متعلق متعدد کتب اور مقالہ جات سپردِقرطاس ہوچکے ہیں، منصہ شہود پر آچکے ہیں۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 155

جنوبی ایشیا عرف خطہ ہند (بشمول پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، برما ودیگر ممالک وعلاقہ جات) میں جنم لینے والی دنیا کی سب سے منفرد زبان، اردو کی جنم بھومی ہونے کے دعوے داروں میں بِہار بھی شامل ہوسکتا ہے کہ جدید تحقیق کی رُو سے قدیم ترین (معروف) اردو شاعروادیب، حضرت مخدوم بِہاری (شرف الدین احمد بن یحیٰ) مَنیری (رحمۃ اللہ علیہ) نے اسی سرزمین کو شرف قیام بخشا (گزشتہ کالم میں ان سے بھی قدیم، مگر گم نام شاعر کا ذکر آچکا ہے)، مگر تعجب ہے کہ ماہرین لسانیات میں شاید کسی نے یہ بات کُھل کر نہیں کہی۔

اس نکتے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ عظیم، مَردُم خیز، سرزمین بِہار کا حُجم یا رقبہ صدیوں کے سفر میں گھٹتا بڑھتا رہا ہے، سو اُس کا تعلق / ناتا، بنگال، آسام، اُڑیسہ (اوڈیشا) اور اَراکان نیز بعض اضلاع یوپی (اُتر پردیش) سے بہت گہرا تھا اور آج بھی ہے۔

بِہار کی ادبی وعلمی خدمات سے متعلق متعدد کتب اور مقالہ جات سپردِقرطاس ہوچکے ہیں، منصہ شہود پر آچکے ہیں، انٹرنیٹ کی طلسماتی دنیا میں بھی پائے جاتے ہیں، مگر کیا کسی بِہاری/غیربہاری محقق کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اس وسیع وعریض، قدیم خطے کے طول وعرض میں بکھری ہوئی داستانِ اردو کو یکجا کرکے پیش کرتا؟ محض بِہار کی بات کریں تو ڈاکٹر اختر اُورینوی کی کتاب ’’بِہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء: 1204ء سے 1857ء‘‘جیسی کوئی اور جامع کتاب نظر سے نہیں گزری، (ہرچند کہ مابعد تحریر کی جانے والی کتب میں مختلف پہلوؤں اور جہتوں سے بِہار میں علم وادب کے فروغ کے بارے میں بیان کیا گیا)، اگر ایسی کسی دوسری کتاب کا وجود ہے ۔یا۔ اس موضوع پر کام ہوا ہے تو راقم کو آگاہ فرمائیں۔ یہاں دو باتیں اور کہتا چلوں:

ا)۔ اردو میں کسی بھی مخصوص لہجے یا بولی کی بابت بھی تحقیقی کام قدرے کم ہوا ہے۔ اس ضمن میں لغات کی ترتیب بھی مطلوب ہے۔ بِہاری بولی اور اُردو کے مخصوص بِہاری لہجے کو معیاری زبان کا حصہ قرار دینے کے لیے ایسی لغت کی ضرورت محسوس کی گئی تو خدابخش اورئینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ (بھارت) میں منصوبے کا آغاز ہوا اور1970ء میں پہلی لغت ’’بِہار اُردو لغت‘‘۔ پہلی جلد (عرف فرہنگ ِ بلخی) منظرعام پر آئی جو سید یوسف الدین احمد بلخی (مرحوم) کا تحقیقی کارنامہ تھا۔

1984ء میں اس کی دوسری باراِشاعت ہوئی، جبکہ دوسری جلد کی ترتیب کا سہرا، محترم احمد یوسف صاحب کے سر رہا اور یہ 1995ء میں شایع ہوئی۔ ان دو جلدوں کو سامنے رکھیں تو شاید فوری طور پر اسی موضوع سے متعلق مزید مواد کی تلاش ضروری نہ ہو۔

ب)۔ اراکان اور برما میں اردو کے فروغ سے متعلق کوئی تحقیقی مقالہ، مضمون یا کتاب میری نظر سے اب تک نہیں گزری۔ اہل ذوق سے استدعا ہے کہ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

’’بِہار اُردو لغت‘‘۔ پہلی جلد کی دوسری بار تدوین واشاعت ہوئی تو عرضِ ناشر میں یہ نکتہ واضح کیا گیا کہ اردو کے دیگر علاقائی لہجوں یا بہ الفاظ دیگر، اردو کی دیگر بولیوں کے اہل زبان کی کتب کے برعکس، اس کا نام بجائے ’’بِہاری اردولغت‘‘ کے، ’’بِہار اردولغت‘‘ کیوں رکھا گیا۔ کہا گیا کہ ’’اس ترتیب کا عنوان، بہاری اردولغت، مناسب تر تھا، جو ہمارے منشاء کو ظاہر کرتا (دکنی اور گجراتی اُردو کی طرح)، لیکن اس میں ایک اور پہلو بھی نکلتا تھا، اس لیے ترجیحی طور پر یائے نسبتی کے بغیر، صرف ’بہار اردو لغت‘ نام رکھا گیا ہے‘‘۔

اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ محض مخصوص بِہاری لہجے کی اردو ہی کی عکاسی مقصود نہ تھی، بلکہ شاید پورے بہِار کی زبان و تہذیب کا احاطہ اسی لغت کے توسط سے کرنا اُن کے پیش نظر تھا۔ آگے چل کر بیان کیا گیا:’’بِہار تک اردو زبان کا پھیلاؤ ہوتے ہوئے، اس میں نئے محاورے، نئے الفاظ، نئی اصطلاحات، نئی تراکیب، اور بعض اوقات نئے تلفظ آتے چلے گئے، جن کا پوری طرح نہ جائزہ لیا گیا ہے اور نہ اِسی باعث، کماحقہ‘ اعتراف کیا جاسکا ہے‘‘۔

(درست یوں ہوگا: جن کا پوری طرح جائزہ لیا گیا اور نہ اِسی باعث، کماحقہ‘ اعتراف کیا جاسکا ہے)۔ یہاں یہ بات بھی دُہرائی گئی کہ تقسیم ہند و آزادی ہندوستان کے بعد، بِہار پہلی ریاست (بمعنی صوبہ) تھی جس نے اردو کو بطور، دوسری سرکاری زبان اپنایا اور اس کے پس منظر میں ایک باقاعدہ جدوجہد پر مبنی تحریک تھی، جبکہ کشمیر میں یہ پہلے ہی اپنے قدم جماچکی تھی، مگر وہ مدتوں بھارت میں شامل نہیں تھا (اپنوں کی غداری اور غیروں کی سازش سے ماضی قریب میں ایسا بھی ہوگیا کہ کشمیر کا انضمام بالجبر کرکے مسئلہ کشمیر دفن کردیا گیا)، لہٰذا، بِہار کی اولیت مُسَلّم ہے۔ یہ لفظ ’مُسَلّم ‘ بھی کیا خوب ہے، ایک معنی تو ہوئے، تسلیم شدہ، طے شدہ، اور دوسرے سالم، جیسے مرغِ مُسَلّم۔

ہندوستان میں اردو کو مٹانے کی تمام مساعی کے باوجود، صورت حال یہ ہے کہ یہ چھَے ریاستوں آندھرا پردیش، اُترپردیش، بِہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، تلنگانہ اور وفاقی علاقہ دارالحکومت دہلی کی دوسری سرکاری زبان (Additional official language) ہے۔

مزیدبرآں، یہ جزائر انڈمان اور نکو بار(ds Andaman & Nicobar Islan) میں (ہندی کے نام سے سہی)، اور آندھراپردیش میں دوسری سب سے بڑی زبان ہے، جبکہ آسام میں یہ تیسری بڑی زبان ہے (ہندی کے نام سے)۔ بولنے والوں کی تعداد کا تخمینہ آن لائن دستیاب ہے ، مگر میں اپنے تجربے کی روشنی میں ، ایسے اعداد وشمار کو درست نہیں سمجھتا۔

’بہار اردو لغت‘ کے مرتبین وناشرین اس نکتے کے پرچار ک نظر آتے ہیں کہ دیگر علاقوں میں رائج معیاری اردو کے برعکس، بِہار میں زبان کی تشکیل زیادہ منطقی ہے۔ ’’ایک پہلو یہ ہے کہ اردو کا وہ رُوپ جو بِہار میں تشکیل پایا، اس میں جابجا الفاظ کی تشکیل میں دہلی، لکھنؤ، رام پور سے زیادہ منطقیت پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال گنتی میں استعمال ہونے والے الفاظ سے دی جاسکتی ہے۔ دس(10)کے بعد ایک تا آٹھ مزید گنتی (11,12,13,14,15,16,17,18)اور اسی طرح ہردَہائی کے بعد کی گنتی کے لیے(20,22-28),(30,31-38) ، یکساں طریقہ کارہے‘‘۔

اُن کے خیال میں چالیس (40) سے پہلے کا عدد، اُنتالیس (39)کی بجائے بِہار کے قاعدے سے اُنچالیس کہلائے تو بہتر ہے، اسے ہی لغت کا حصہ بنانا چاہیے۔ بات یہیں تک موقوف نہیں ، بلکہ اُن کے بیان کے مطابق، پنڈِت دتاتریہ کیفیؔ کی تحریک کے زیرِاثر، اسم سے فاعل بنانے کا جو طریقہ شروع ہوا (مثلاً برق سے برقیانا، قوم سے قومیانا)، بِہار میں مدتوں سے رائج تھا، مثلاً پانی سے پَنیانا (کسی کھانے میں پتلا کرنے کے لیے پانی ڈالنا)، بات سے بَتیانا (بات کرنی یا باتیں بنانا)۔ اب یہاں رک کر سوچیں کہ آیا ہم اہل زبان، معیاری زبان میں، ایسی کسی اصلاح یا ترمیم یا اضافے کو اَزخود، بلا چُوں چرا قبول کرلیں گے؟

بِہار کی اُردو میں واحد سے جمع بنانے کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ مذکرومؤنث دونوں کے لیے ایک ہی لفظ برتا جائے جیسے لڑکا اور لڑکی دونوں کی جمع لڑکن۔ ویسے خاکسار نے ان گناہگار کانوں سے متعدد بار ’’لڑکا‘‘ کی جمع ’’لڑکا لوگ‘‘ بھی سنی ہے۔

بِہاری اردو میں کسی بھی لفظ یا اسم کے آگے ’وا‘ لگاکر اس کی ہئیت تبدیل کرنا عام بات ہے، خواہ ایسا اظہارِالفت میں ہو یا تحقیر میں، جیسے من کو مَنوا، بابو کو بَبوا، مشتاق کو مُستاکوا۔ ایک مثال موٌنث کی ذہن میں آئی جو بِہار اُردولغت کے پیش لفظ میں درج نہیں: مُنّی کو مُنیا۔ (یہ معاملہ پُوربی میں بھی ہے، بیل سے بَیَلوا، سجن سے سجنوا، سجنی سے سجنیا وغیرہ۔ خاکسار نے گزشتہ کالم میں پُوربی کے ضمن میں گلوکار رَنگیلا کے مقبول گانے ’’گا مورے منوا، گاتا جارے، جانا ہے ہم کا، دور، ٹھُمک ٹھُمک نہیں چل رے بَیَلوا، اپنی نگریا ہے دور‘‘ کا ذکر نہیں کیا تھا، مگر ہے بہت عمدہ مثال)۔ بِہار میں ہندوستان کے کسی بھی علاقے کی نسبت کہیں زیادہ ایسے انگریزی الفاظ بولنے کا چلن عام ہے جن کا مترادف یا متبادل اردو میں موجود ہے جیسے سڑک کی بجائے Road اور اسے بنایا، روڈوا۔لوجی! ہم تو اپنے یہاں سڑکوں کی بجائے روڈوں کہنے پر اعتراض کرتے ہیں، اب کیا کہیں؟

بِہاری اردو میں امالہ کا اصول بالکل رائج نہیں (اور شاید اہل پنجاب نے بھی اُنھی سے سیکھا ہے)، جس کی بے شمار مثالیں تحریر اور بول چال میں موجود ہیں، فی الحال زیرِبحث لغت ہی میں منقولہ عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:

ا)۔ اسلام میں بیٹا (بیٹے) کے مقابلہ (مقابلے) پر بیٹی کا نصف حصہ ہے۔

ب)۔ سونا (سونے) کی نیلامی ہوئی۔

ج)۔ کُتّا (کُتّے) کی چوکیداری مشہور ہے۔

اب ایک ذاتی تجربہ یا لطیفہ بھی پیش کرتا ہوں:

کچھ عرصہ قبل خاکسار ایک ’’مَجازی‘‘ یعنی آن لائن مشاعرے میں (خاکسار نے آن لائن/وَرچوئل کا ترجمہ بہت عرصہ پہلے کیا جو اسی کالم کے ایک شمارے، نمبر 96بعنوان ’’مجازی مشاعرہ اور جدید غالبؔ‘‘ میں استعمال بھی کیا تھا) مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھا (ویسے تو ہندوستانی احباب نے بڑی محبت سے صدرِمحفل قرار دیا تھا، مگر میں نے دیکھا کہ مہمان خصوصی کے طور پر میرے بزرگ معاصر محترم ابن عظیم فاطمی صاحب کا نام ہے تو بندے نے اصرار کرکے ترتیب بدلوائی اور اُن سے صدارت کروائی) تو ایسے میں پٹنہ، ہندوستان (بِہاری قاعدے سے پٹنوا) سے آن لائن شریک، ایک شاعرہ نے اپنی باری سے بہت پہلے، بلکہ مشاعرے کی باقاعدہ ابتداء سے بھی پہلے، کئی مرتبہ اپنے شوہر کو آواز دی جو گھر میں کہیں دوسری جگہ موجود تھے ; ’’ سُنیے، ای (یہ یا اِس) چھُٹکا (چھوٹے سے چھُٹکا) کو دیکھ لیجے، تنگ کررہا ہے‘‘۔

دوسروں کا تو خیر کیا کہوں، دوتین مرتبہ سن کر، مجھے ہنسی ضبط کرنا محال ہوگیا۔ ذاتی معلومات کی بنیاد پر عرض کروں کہ اسی طرح مُنّا کو مُنّے اور ننھا کو ننھے کبھی نہیں کہیں گے، جبکہ یوپی کے بعض علاقوں میں تو بھیا سے بھَیّے بھی کہا جاتا ہے۔ (ہماری نانھیال، میرٹھ، بلندشہر، گلاؤٹھی ودیگر علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی اور باقیات گلاؤٹھی میں زیادہ ہیں، سو ہم نے اپنی نانی مرحومہ سمیت بعض بزرگوں سے ’ بھَیّے‘ سنا)۔

اس سے قطع نظر ایک بہت ہی انوکھی مثال بِہاری اردو میں نظر آئی۔ اقبال بک ڈپو والے جناب محبوب حسین خاں صاحب نے فرمایا، ’’ہَوے (ہَوا) نے اپنی لپیٹ میں لے لیا‘‘۔ (منقولہ درپیش لفظ : بِہار اُردو لغت)۔ پڑھیے اور سر دھنیے کہ ایسا تو کبھی معیاری زبان میں کہیں نہیں ہوا۔

ًبِہاری اُردو میں بعض الفاظ کے آخر کے ’رے‘ کو ’ڑے ‘ سے بدل دیا جاتا ہے جیسے مچھر کو مچھڑ کہتے ہیں۔ اب یہاں دو باتیں:

ا)۔ مَچھر (میم پر زبر) سے مچھڑ تو کردیا، مُچھّڑ یعنی مونچھوں والے کا کیا کریں گے؟

ب)۔ لاہور کے ایک علاقے کے مکین دنیا بھر میں اپنی اسی مخصوص عادت سے پہچانے جاتے ہیں کہ اُن کے منھ سے حرف ’رے‘ کی بجائے ’ڑے‘ نکلتا ہے، جبکہ خود ہمارے یہاں بعض بچے، بولنا سیکھتے ہیں تو نامعلوم کیوں ایسا ہی کرتے ہیں ، مگر یہ سلسلہ اُن کے بڑے ہوتے ہوتے ختم ہوجاتا ہے۔ میری تدریس کے ابتدائی دور میں ایک بچی، انگریزی نظم ”Miss Lucy Grey”کے مرکزی کردا ر کو ’’لُو۔سی۔گڑے‘‘ گاف پر زبر کے ساتھ ادا کرتی تھی، جس پر، دیگر بچے اُس کا مذاق بھی اُڑاتے تھے۔ یہ پرانی بات ہے، اب تو وہ بچوں والی ہوگی اور شاید اُسے یہ بات یاد بھی نہ ہو۔

ایک اور عجیب معاملہ ہے، کسی بھی لفظ میں اضافی ’نون غنہ‘ شامل کرکے بولنے کا، جیسے ہاتھ کو ہانتھ۔ ویسے ایک بِہاری صاحب کو بارہا 98 کے لیے ’’اَن ٹھانوے‘‘ کہتے سنا، یہ بھی کانوں کو عجیب لگتا ہے۔ اس طرح کی دیگر مثالیں بعض بزرگ اور اَدھیڑ عمر کے بِہاری حضرات کی بول چال میں تلاش کی جاسکتی ہیں، البتہ نئی نسل کا پاکستانی بہِاری طبقہ اپنی مخصوص بولی ٹھولی اور ثقافت سے قدرے ناآشنا معلوم ہوتا ہے۔

(ہمارے دوست محترم حسن رضا بخاری ایڈووکیٹ نے اس بابت تحریک کا آغاز کیا تو اُن سے ’’ایک مخصوص نمبر‘‘ کی موبائل کال کے ذریعے تفتیش بھی کی گئی، بہرحال وہ اپنی برادری کی تہذیب وثقافت کو اُجاگر کرنے اور اس کے مسائل حل کرنے میں اپنے والدگرامی، پاکستان کے محسن، نواب ٹائیگر پاس ، ہیرو آف چٹاگانگ محترم یوسف رضا بخاری مرحوم کے نقش قدم پر گامزن ہیں جنھوں نے سقوطِ ڈھاکا سے قبل، تن تنہا مُکتی باہنی کی دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور مابعد، قوم کے لیے اپنے اثاثے قربان کردیے)۔

یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موجودہ بِہار، دو ریاستوں میں منقسم ہوچکا ہے اور اَب لسانی تحقیق میں تنوع کا پہلو بھی قدرے وسیع ہوگیا ہے، اس لیے کہ پٹنہ، مظفرپور، گیا، رانچی، دربھنگہ، کشن گنج، پورنیہ، چمپارن، سمستی پور، آرہ سمیت مختلف علاقوں میں بولی ٹھولی کا فرق ابھی پوری طرح کتابی شکل میں محفوظ نہیں کیا گیا، جس کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے۔ یہاں بِہار سے متصل اور کبھی اُسی کا حصہ رہنے والے متعدد شہروں، نیز، اَوَدھی/پوربی، میتھلی، مگھی اور بھوج پوری کے ذخیرہ الفاظ سے بھی پوری طرح استفادہ کرنے کی ضرورت ہے، جس کا کچھ حصہ ’’بِہاراُردولغت‘‘ کی اولین جلد میں شامل ہے۔

اسی لغت سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بِہار میں بعض الفاظ وتراکیب کے معانی بھی مختلف مراد لیے جاتے ہیں، جیسے ’’تڑپنا‘‘ سے مراد ہے، (کسی جگہ پانی میں) کُود کر پار ہوجانا۔ اب آئیے ہم لغت کی مدد سے ایسے چُنیدہ الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہیں جو مرتبین ِبہار اُردو لغت کے بیان کے مطابق، خاص بِہاری اردو ہی میں مروج ہیں۔ الفاظ کے معانی قوسین میں درج ہیں، جبکہ وضاحت اس راقم کی ہے:

اذاں پڑنا (اذان ہونا)، اکثر ہا (اکثر اوقات ، بسا اوقات)، اِگیارہ (گیارہ)، آبھ (پَرتَو)، آدرمان (قدرومنزلت)، آسامی (جیل کی اصطلاح میں قیدی)، آسمان تارہ (ایک قسم کی آتش بازی)، آنھِٹی (تاڑ کا پھل)، آنب (آم)، بھائی جہ (بھتیجہ )، بہن جہ (بھانجہ)، بہن وَئی (بہنوئی);ویسے یہ لفظ اس تلفظ کے ساتھ بعض دیگر برادریوں میں بھی سننے کو ملا ہے۔

؎بھوجائی (بھاوج)، بھُتانا (بھول جانا)، بھنٹا (بیگن)، بدھنا =بَدھ +نا (تانبے یا المونیئم کا بنا ہوا لوٹا) (یہ لفظ بھی خالص بِہاری نہیں)، بوڑانا (بَولانا) (شاید لفظ بَوڑَم بمعنی بے وقوف سے تعلق ہے)، پھُلیا (سوزنی)، پھیپھسا (پھیپھڑا)، چونٹی یعنی چیونٹی کاٹنا (دِق /ضیق کرنا ، نوچنا)، تیرنا (کھینچنا، پھیلانا)، ٹھونگا (کاغذ کی تھیلی جس میں نیچے موٹے کاغذ کی تہہ ہو)، ٹھیونا (گھُٹنا)، چُکڑ (آب خورہ یعنی جدید زبان میںپانی پینے کا گلاس)، چیں را/چیرا(کینچوا)، دائی (گھریلو خادمہ);آج کل کی اُردومیں ماسی، حالانکہ دائی سے مراد قابلہ یعنی وہ عورت ہے جو زچگی کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے)، ڈیڑھ سَس (بڑی سالی)، رام تُرَئی (بھنڈی)، روپنا(بونا)، ساٹنا/سانٹنا (چپکانا)، سنگھاڑا/سینگھاڑا (سموسہ)، قلفی (چائے کی پیالی)، کرائی (کلرک)، کسیلی (چھالیہ);حالانکہ کسیلا تو بذاتہ ایک ذائقے کا نام ہے۔

کونہڑا (گول کدّو)، کھُدیڑنا (رگیدنا);یہ غیر بہِاری طبقے میں بھی مستعمل ہے، کھوکھی (کھانسی)، کیولا (سنترہ )، کتّنی (دیورانی)، گارنا (نچوڑنا)، گوئٹھا (اُپلا)، گولکی (کالی مرچ)، گھاگھرا (چکوترہ)، گھیلا(پانی کا گھڑا)، لخیرا/لاخیرا(غنڈہ)، لَسّا(چینپ ، پِیپ وغیرہ کا)، لُکنا(چھُپنا); یہ پنجابی میں بھی مستعمل ہے، لَند پھند (چکربازآدمی)، لنگا (ننگا)، لوکنا (ہوا میں پکڑلینا، کیچ کرلینا)، مُلّا زادہ (خادم، نوکر)، مَیلنا (مَلنا، میل صاف کرنا)، ناتی (نواسہ);یہ دیگر مقامات پر بھی رائج ہے، نَتنی (نواسی)، ننواں (تُرئی/توری)، نیہر (میکا /میکہ);یہ بھی دیگر برادریوں میں سننے کو ملتاہے، خصوصاً شادی بیاہ کے گیتوں میں جیسے ’’میرے نیہر سے آج مجھے آیا، یہ پیلا جوڑا، یہ ہَری ہَری چوڑیاں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔