ملکہ الزبتھ دوم ، تاریخ کا ایک عہد تمام ہوا

ایڈیٹوریل  ہفتہ 10 ستمبر 2022
پاکستان ان کی موت کے سوگ میں برطانیہ اور دیگر دولت مشترکہ ممالک میں شامل ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

پاکستان ان کی موت کے سوگ میں برطانیہ اور دیگر دولت مشترکہ ممالک میں شامل ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

برطانیہ کے تخت اور برطانوی عوام کے دلوں پر طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی ملکہ الزبتھ دوم، 96 برس کی عمر میں اسکاٹ لینڈ میں انتقال کرگئیں۔

انھوں نے 70 سال تک برطانوی سربراہِ مملکت کی ذمے داریاں نبھائیں‘ وہ پورے عالم میں سب سے عمر دراز حکمران اور سب سے لمبے وقت تک حکومت کرنے والی ملکہ ہیں۔

تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر پاک و ہند کے باسیوں کا سلطنت برطانیہ سے ایک تعلق اور واسطہ گزشتہ صدی سے برقرار ہے‘برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں میں پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے امیگرینٹ سب سے زیادہ ہیں۔

ملکہ ان دنوں اسکاٹ لینڈ میں اپنی شاہی رہائش گاہ میں موجود تھیں اور اپنی وفات سے محض 2 روز قبل ہی انھوں نے برطانیہ کی نو منتخب وزیر ِاعظم لز ٹرس سے ملاقات کی تھی۔ الزبتھ دوم اس دور میں ملکہ بنی تھیں جب برطانیہ 1946 میں ختم ہونے والی دوسری عالمی جنگ کے اثرات سے نکل رہا تھا۔ انھوں نے اپنے دور میں کئی وزرائے اعظم، صدور، پوپ بدلتے دیکھے۔ سرد جنگ اور پھر سوویت یونین کا انہدام بھی اسی ستر سالہ تاریخ کا حصہ ہے۔

انھوں نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اور کورونا کی عالمی وبا سے پیدا ہونے والے غیر معمولی حالات بھی دیکھے۔ملکہ الزبتھ دوم کا مکمل نام الزبتھ الیگزینڈرا میری تھا، وہ مملکت متحدہ کی ملکہ اور دولت مشترکہ قلمرو کی آئینی ملکہ ہیں۔ ملکہ الزبتھ 21 اپریل 1926 کو لندن میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔

1947میں ان کی شادی شہزادے فلپ کے ساتھ ہوئی، جن سے 4 بچے ہیں۔ جب ان کے والد بادشاہ جارج ششم کا 1952 میں انتقال ہوا، تب الزبتھ دولت مشترکہ کی صدر اور مملکت متحدہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، جنوبی افریقا، پاکستان اور سری لنکا کی حکمران بن گئیں۔

ان کی تاجپوشی سال1953میں ہوئی اور یہ اپنی طرح کی پہلی ایسی تاج پوشی تھی جو ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی۔9 ستمبر2015 کو انھوں نے ملکہ وِکٹوریا کے سب سے لمبے دورِ حکومت کے ریکارڈ کو توڑ دیا اور برطانیہ پر سب سے زیادہ وقت تک حکومت کرنے والی ملکہ بن گئیں۔

6 فروری 1952کو پاکستان کے بادشاہ جارج ششم کی موت کے بعد ان کی بیٹی شہزادی الزبتھ پاکستان کی نئی حکمران بن گئیں۔ ملکہ الزبتھ کو پاکستان سمیت اپنے تمام علاقوں میں ملکہ قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان میں 8 فروری کو گورنر جنرل نے اعلان کیا کہ ملکہ معظمہ الزبتھ دوم اب اپنے علاقوں اور ریاستوں کی ملکہ اور دولت مشترکہ کی سربراہ بن گئی ہیں۔

انھیں پاکستان میں 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔ مورخ اینڈریو میچی نے 1952 میں لکھا تھا کہ ملکہ الزبتھ برطانیہ کا تو چہرہ تھی ہی ساتھ ہی وہ  پاکستان کا بھی چہرہ تھیں، 1953 میں ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی کے دوران انھیں پاکستان کی ملکہ اور دولت مشترکہ قلمرو کا تاج پہنایا گیا۔ ملکہ نے تاجپوشی کے دوران یہ حلف لیا کہ وہ پاکستان کے عوام پر لوگوں سے متعلقہ قوانین اور رواج کے مطابق حکومت کریں گی۔ ملکہ کے تاجپوشی گاؤن پر ہر دولت مشترکہ قوم کے نشانات سے کڑھائی کی گی تھی۔

شاہی گاؤن میں پاکستان کے 3نشانات نمایاں تھے۔ ہیرے اور سنہرے کرسٹل کے بنے گندم، چاندی اور سبز ریشم اور پٹ سن سے بنا کپاس، اور سبز ریشم اور سنہرے دھاگے سے بنا پٹ سن۔ پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے بھی اپنی اہلیہ اور دو بیٹوں کے ساتھ لندن میں تاجپوشی کی تقریب میں شرکت کی۔ تاج پوشی کی پریڈ میں پاکستانی فوجیوں اور جہازوں نے بھی حصہ لیا۔23 مارچ 1956 کو جمہوریہ آئین کو اپنانے پر پاکستانی بادشاہت ختم کر دی گئی۔

تاہم پاکستان دولت مشترکہ کے ممالک میں ایک جمہوریہ بن گیا۔ ملکہ الزبتھ نے صدر مرزا کو ایک پیغام بھیجا جس میں انھوں نے کہا کہ میں نے آپ کے ملک کے قیام کے بعد سے اس ملک کی ترقی کے لیے گہری دلچسپی کے ساتھ پیروی کی ہے۔ میرے لیے یہ جان کر بہت اطمینان کا باعث ہے آپ کا ملک دولت مشترکہ میں رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مجھے یقین ہے پاکستان اور دولت مشترکہ کے دیگر ممالک ترقی کرتے رہیں گے اور ان کی باہمی رفاقت سے فائدہ اٹھائیں گے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے1997میں اپنے دور اقتدار میں ملکہ سے اس وقت ملاقات کی جب وہ دوسری بار پاکستان آئیں، اپنے دورہ پاکستان پر قومی اسمبلی میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی ملاقات کی تھی۔پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال پر تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملکہ الزبتھ کے انتقال پر بہت دکھ ہے۔

پاکستان ان کی موت کے سوگ میں برطانیہ اور دیگر دولت مشترکہ ممالک میں شامل ہے۔ برطانیہ کے شاہی خاندان، عوام اور حکومت سے میری دلی تعزیت ہے۔‘‘ ان ستر برسوں میں دنیا کی سیاست اور سماج میں کئی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن وہ نہ صرف اپنے منصب پر برقرار رہیں بلکہ انھیں برطانیہ میں استحکام کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔