شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی!

راؤ منظر حیات  ہفتہ 10 ستمبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

جادوگر جناب‘ لفظوں کا جادوگر ‘ تلخ حقیقتوںکو منفرد بلکہ حد درجہ مخصوص انداز میں بیان کرنے والا انسان۔ تعریف اور نکتہ چینی سے اوپر سوچنے کی استطاعت رکھنے والا شخص‘ حسن نثار کا ذکر کر رہا ہوں۔ ’’بلیک اینڈ وائٹ‘‘ نام کی کتاب انتہائی محبت سے موصول ہوئی ۔ حسن نثار کے کالموں پر مبنی اس کتاب پر لکھاری نے جس شفقت سے میرا ذکر کیا ہے۔

اس کا حد درجہ شکر گزار ہوں۔ تحریر اور حیرت انگیزتحقیق میں تلخ نظر آنے والا انسان۔ اپنے دوستوں کے لیے صرف اور صرف دھوپ سے بچانے والا سائبان ہے۔ عزت کرتا ہے اور عزت کروانے کا قرینہ بھی جانتا ہے۔ پوری زندگی میں حسن نثار سے صرف ایک ملاقات ہے۔ دس پندرہ منٹ کی۔ ان کو خیر بالکل یاد نہیں ہو گا۔ مگر طالب علم مبہوت ہو کر ان کی باتیں سنتا رہا تھا۔ گوجرانوالہ کی پہچان‘ زاہد صاحب کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے۔ اس قلیل وقت میں بھی حسن نثار کئی علمی اور لفظی گتھیاں کھول گیا۔ یہ کوئی پندرہ برس پہلے کی بات ہے۔

راقم نے حسن نثار کی بیشتر تحریریں پڑھ رکھی ہیں۔ ٹی وی پر اگر چند پروگراموں میں سے کسی کا پروگرام سوچ سمجھ کر دیکھتا ہوں تو وہ صرف اور صرف حسن نثارہے۔ اس مرد عجیب کی تحریریں اور باتیں ‘ عام فہم زبان میں ہوتی ہیں۔مگر یہ قطعاً عامیانہ نہیں ہوتیں۔ حسن نثار کی تحریر اور تقریر میں اثر ہے۔

یہ صرف اس وقت برپا ہوتا ہے جب لکھنے والا بذات خود جھوٹ سے کوسوں دور ہو۔حسن نثار میں یہ سچ بدرجہ اتم موجود ہے۔ مگر کیا یہ سوال جائز نہیں ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں جہاں ریا کاری ایک فن بن چکا ہے۔ جہاں دروغ گوئی‘ ترقی کرنے کا واحد زینے کا درجہ رکھتی ہے۔ وہاں معدودے چند لوگوں میں ایک ایسا سرخیل بھی موجود ہے جو بغیر کسی ریا کاری کے سچ بولنے کی جرأت کر رہا ہے۔

کیا یہی ایک بات حسن نثار کو ممتاز نہیں بنا دیتی۔ جہاں قلم بیچنے کے لیے جید ترین لکھاری موجود ہوں۔ جہاں مقتدر حلقوں سے ناجائز مراعات لینے والے قطار میں کھڑے ہوں۔ وہاں عمومی رویوں کی چیڑ پھاڑ کرنے والا ایک ایسا قلمی مجذوب بھی موجود ہے جو کسی کا بھی کاسہ لیس نہیں ہے۔ حسن نثار جو ایک سیلف میڈ آدمی ہے کس طرح اس غلاظت سے اوپر رہا ہے۔ یہ رویہ بہترین نہیں‘ بلکہ قابل تقلید ہے۔

کسی استاد نے مجھے سمجھایاتھا کہ جن لکھاریوں ‘ دانشوروں کو پسند کرو‘ ان سے ملنے کی کوشش نہ کرنا۔ اس نصیحت پر عمل کرتا ہوں۔ مگر شروع شروع میں اس بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔ مگر اب اس اصول پر کار بند ہوں۔ مگر حسن نثار کی بابت اس کلیے پر عمل نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے کہ بحیثیت انسان ‘ حسن نثار ایک بڑا انسان ہے۔ میرے چند باہمی دوست اکثر بتاتے رہتے ہیں کہ اس کا دستر خوان کتنا وسیع ہے۔

ڈاکٹر طارق جب بھی لندن سے آتا ہے تو حسن نثار کے گھر کا باسلیقہ کھانے کا اکثر ذکر کرتا رہتا ہے۔ اب چند باتیں بلیک اینڈ وائٹ کتاب کے متعلق عرض کرونگا۔ حسن نثار کے کالموں کا یہ گلدستہ حد درجہ خوبصورت کاوش ہے۔ چنداقتباسات پیش کرونگا ۔

اردو کے سفر کی جھلکیاں:اردو زبان کے آغاز کے تعین میں محققین نے جو مختلف آرا قائم کیں‘ ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ اردو داستانی ادب کے سرخیل میر امن دہلوی (1823) کے مطابق اردو زبان عہد اکبری (1556-1605) کے دوران وجود میں آئی۔ وہ ’’باغ و بہار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جب اکبر تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے علاقوں سے سب اقوام قدر دانی اور فیض رسانی اس خاندان کی سن کر ان کے حضور آ کر جمع ہوئی لیکن ہر ایک کی بولی اور گویائی جدا جدا تھی۔

آپس میں لین دین‘ سودا سلف‘ سوال جواب کرتے ہوئے ایک زبان اردو مقرر ہوئی‘‘۔ محمد حسین آزاد 1910 ’’آب حیات‘‘ کے مصنف کی رائے میں اردو کا آغاز شاہجہانی دور (1628-1658) میں ہوا‘ لکھتے ہیں۔ ’’شاہ جہاں کے دور میں اقبال تیموری کا آفتاب عروج پر تھا۔شہر اور شہر پناہ تعمیر ہو کر نئی دہلی تعمیر ہوئی۔ بادشاہ اور ارکان دولت زیادہ تر وہاں رہنے لگے۔

اہل سیف‘ اہل قلم‘ اہل حرفہ‘ اہل تجارت وغیرہ ملک ملک اور شہر شہر کے آدمی وہاں موجود ہوئے اور ان کی بولی کا نام اردو پڑ گیا‘‘۔ فورٹ ولیم کالج کے روح رواں ڈاکٹر گلکرائسٹ 1841نے اردو زبان کی تاریخ پر اپنی شہرۂ آفاق کتاب’’Hindostani Philalogy‘‘ میں ہندوستان پر امیر تیمور کے حملہ 1398کو اردو زبان کا نقطہ آغاز قرار دیا ہے۔

خوشخبریاںاور سازشیں:مندرجہ بالادونوں ’’ایمان افروز‘‘ خبروں کے بعد مجھے یقین ہو چکا ہے کہ اب تیزاب سے دیا گیا غسل بھی گندگی کے اس ڈھیر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ یہاں غیرت ہی نہیں‘ حیرت بھی مر چکی ہے کہ مکروہ ترین انکشافات پر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ ہم جیسے ’’غیوروں‘‘اور ’’باشعوروں ‘‘ نے ہر قسم کے خبائث خوشدلی سے قبول کر لیے ہیں۔

خوشخبریاں تو اور بھی بہت سی ہیں ۔ مثلاً روشنیوں کے سابق شہر کراچی اور حال کچرانگر میں چپراسیوں کی اسامیوں کے لیے اشتہار دیا گیا تو ایم فل نوجوان کی درخواستوں کے انبار لگ گئے کہ ایسا شہکار شاید ہی کوئی اور معاشرہ پیش کر سکے لیکن اس پر بھی آبادی ٹوٹے ہوئے چھتروں کی طرح بڑھتی جا رہی ہے۔ کیونکہ’’یہ وطن ہمارا ہے۔ ہم ہیں پاسباں اس کے‘‘۔

مادر حریت ‘ بیگم جناح:محترمہ مریم کے مشاغل میں کتب بینی‘ موسیقی‘ قیمتی ملبوسات شامل تھے اور پالتو جانوروں سے بھی بہت پیار کرتیں۔ وہ بمبئی ایلیٹ کی سب سے خوش لباس خاتون تھیں اور اکثر ایرین نامی ملازمہ ان کے ساتھ ہوتیں۔مریم جناح صاحبہ کو گھڑ سواری کا شوق بھی تھا۔ گھر میں بولی جانے والی زبان انگریزی تھی جب کہ فرانسیسی زبان سے بھی آشنائی تھی۔

مطالعہ کے شوق کی تکمیل کے لیے وہ کتابیں خریدنے بمبئی کی مشہور دکان ’’تھیکراینڈ کولمٹیڈ‘‘ سے پسندیدہ کتابوں کی شاپنگ کرتیں۔ مریم جناح کا خواب تھا کہ ایک دن اپنی شاعری کی کتاب منظر عام پر لائیں گی لیکن زندگی کا سفر ہی بہت جلد ختم ہو گیا۔ان کا ایک فیورٹ گیت تھا ’’So deep is the nught‘‘۔

شخصیت پرستی کا روگ:خوشامد جس کی خوراک بن جائے وہ انسان نہیں شیطان یا جانور میں تبدیل ہو جاتا ہے‘ خصوصاً اگر اس کے پاس ’’طاقت‘‘ بھی ہو۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہو گی کہ شخصیت پرستی پر لکھتے ہوئے میرے ذہن میں صرف اور صرف لیڈرز بلکہ ’’سیاسی لیڈرز‘‘ ہیں ورنہ اگر کسی مصور‘ شاعر‘ ادیب ‘ کھلاڑی‘ سنگر‘ ایکٹر کو دیوانگی کی حد تک چاہنے والے میسر آ جائیں تو وہ زیادہ سے زیادہ کیا کر لے گا؟

ماڈرن میر جعفر و میر صادق:

نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا

ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا

ہمارے صوفی شاعر کے اس شعر میں’’نیچ‘‘ لفظ غربتوں اور محرومیوں کے لیے نہیں‘ رویوں کے حوالہ سے ہے ‘‘۔

ارطغرل غازی کا ابن عربی: ابن عربی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‘ جنگی عرب تھے اور عرب ہونے پر فخر کرتے تھے۔ آپ کا پورا نام شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی الحاطمی الطائی الاندلسی تھا۔ ابن عربی اندلس کے شہر مرسیہ میں 27رمضان المبارک 560ہجری (1165ء) کو ایک ایسے عرب خاندان میں پیدا ہوئے جو مشہور زمانہ ضرب المثل امام سخاوت حاتم طائی کے سگے بھائی کی نسل سے تھا۔

آپ دنیائے اسلام کے عظیم مفکر‘ ممتاز صوفی‘ محقق اور اک ایسے عارف تھے جنھیں اپنے زمانے کے مختلف علوم پر دسترس حاصل تھی۔ تاریخ تصوف میں آپ کو شیخ اکبرکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

کتاب کے چند اقتباسات سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ حسن نثار کس درجہ زرخیز ذہن کا مالک ہے۔ اس کاایک بھی کالم دوسرے کالم سے مضمون کے حساب سے یکساں نہیں ہوتا۔ ادبی صلاحیت سے بھرپور حسن نثار وہ نشان ہے جو قلمکاروں کے لیے باعث عزت بھی ہے اور قابل افتخار بھی۔ اب حسن نثار ہی کے ایک شعر پر اختتام کرتا ہوں۔

شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں کافی

الٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔