ایک صدی کا انتقال

وسعت اللہ خان  ہفتہ 10 ستمبر 2022

مصر کے آخری بادشاہ شاہ فاروق سے یہ فقرہ منسوب ہے کہ دنیا میں بالاخر پانچ بادشاہ ہی رہ جائیں گے۔چار تاش کے اور ایک برطانیہ کا۔

جمعرات آٹھ ستمبر کو ایک صدی کا قصہ لپٹ گیا۔ ملکہ برطانیہ ستر برس سے زائد حکمرانی کے بعد سدھار گئیں۔انھوں نے پرانی دنیا کو نئی دنیا میں ڈھلتے دیکھا۔کئی سلطنتیں ، بادشاہ ، ڈکٹیٹر اور منتخب رہنما ان کے سامنے آئے اور گذر گئے۔کتنی سرحدیں پھیلیں اور سکڑیں۔کیسی کیسی انقلابی ایجادات مقبول ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے فرسودہ بھی ہو گئیں۔

جب چھ فروری انیس سو باون کو ستاون سالہ شاہ جارج ششم کا انتقال ہوا تو ان کی پچیس سالہ صاحبزادی ( شہزادی الزبتھ ) اور شریکِ حیات شہزادہ فلپ سہہ ملکی شاہی دورے پر نکلے ہوئے تھے۔ دونوں کینیا کے ایک گیم ریزرو میں شکار کر رہے تھے جب انھیں بادشاہ کے انتقال کی خبر ملی۔جس مہمان خانے میںوہ قیام پذیر تھے اسی جگہ شہرہِ آفاق انگریز شکاری جم کاربٹ بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔

جم کاربٹ اپنی یادداشتوں میں ذکر کرتے ہیں کہ ایک روز پہلے میں نے ایک من موجی لڑکی کو درختوں پر چڑھتے اترتے خوش خوش دیکھا اور گزشتہ روز وہی لڑکی میری ملکہ بن چکی تھی۔

لگ بھگ ڈیڑھ برس بعد جون انیس سو تریپن میں ملکہ کی باقاعدہ تاج پوشی ہوئی۔یہ پہلی شاہی تقریب تھی جسے ٹیلی ویژن پر لاکھوں برطانوی ناظروں نے دیکھا۔اس وقت دوسری عالمی جنگ کی تھکن سے نڈھال برطانیہ آہستہ آہستہ دوبارہ کھڑا ہو رہا تھا۔مگر جنگ نے اس کی نوآبادیاتی قوت کی جڑوں کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔تاجِ برطانیہ کا سب سے قیمتی ہیرا یعنی جزیرہ نما ہندوستان ہاتھ سے نکل چکا تھا۔

جب شہزادی الزبتھ ملکہ بنیں تب بھی ستر سے زائد سمندر پار ممالک اور خطے تاجِ برطانیہ کی قلم رو میں شامل تھے،لیکن گذری جمعرات کو جب ملکہ نے آنکھیں بند کیں تو صرف چودہ چھوٹے چھوٹے سمندر پار جزیرے ہی براہ راست برطانوی انتظام میں باقی بچے تھے۔یہ الگ بات کہ دولتِ مشترکہ میں شامل کینیڈا ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور جمیکا سمیت پندرہ ممالک اور خطوں کی آئینی سربراہ ملکہ ہی تھیں۔

ملکہ نے دوسری بار عہدہ حاصل کرنے والے سرونسٹن چرچل سے لز ٹرس تک پندرہ برطانوی وزرائے اعظم کو سندِ مسند عطا کی۔آئزن ہاور سے جو بائیڈن تک پندرہ امریکی صدور کو جاتے اور آتے دیکھا۔جب وہ ملکہ بنیں تو سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا اور سوویت یونین پر جوزف اسٹالن کی حکمرانی تھی۔جب ملکہ نے آنکھیں موندیں تب سوویت یونین کے خاتمے کو بھی اکتیس برس گذر چکے تھے اور ایک سابق سوویت ریاست ( روس) دوسری سابق ریاست ( یوکرین ) پر چڑھ دوڑی تھی۔

معلوم تاریخ میں سترویں اور اٹھارویں صدی کے فرانسیسی بادشاہ لوئی چہاردہم نے طویل ترین حکمرانی کا ریکارڈ قائم کیا یعنی بہتر برس ایک سو دس دن۔ان کے بعد ملکہ الزبتھ دوم کا ریکارڈ ہے جنھوں نے برطانوی تاریخ میں سب سے طویل عرصے یعنی ستر برس دو سو چودہ دن حکومت کی۔وہ موجودہ عالم کی سب سے طویل العمر حکمران تھیں۔ان کے تقریباً برابر کی حکمرانی کا ریکارڈ تھائی لینڈ کے بادشاہ شاہ بھومی بھول کا ہے۔ جنھوں نے اکتوبر دو ہزار سولہ میں آخری سانس تک ستر برس چار ماہ شاہی مسند پر گذارے۔

ملکہ نے سو سے زائد ممالک اور خطوں کا دورہ کیا۔جب دو ہزار پندرہ میں ضعیفی کے سبب انھوں نے بیرونی دورے ترک کیے تب تک وہ کرہِ ارض کے بیالیس چکروں کے برابر سفر کر چکی تھیں۔نومبر انیس سو تریپن سے مئی انیس سو چون تک ملکہ تیرہ ممالک کے دورے پر مسلسل ایک سو اڑسٹھ دن ملک سے باہر رہیں۔انھوں نے مجموعی طور پر ایک سو بارہ سربراہانِ مملکت و حکومت کا بکنگھم پیلس میں استقبال کیا۔

ملکہ چرچ آف انگلینڈ کی بھی سربراہ تھیں۔اس حیثیت میں انھوں نے پوپ جان پال سے پوپ فرانسس تک چار کیتھولک اسقفِ عظام کی میزبانی کی۔

چھبیس مارچ انیس سو چھہتر کو ملکہ نے وزارتِ دفاع کے ایک تحقیقی مرکز کے دورے میں وہاں سے پہلی ای میل بھیجی۔دو ہزار چودہ میں ٹویٹر اور دو ہزار انیس میں انسٹا گرام اکاؤنٹ بنایا۔

ملکہ کے پاکستان سے دو رشتے تھے۔ایک تو وہ سابق برطانوی نوآبادیات پر مشتمل دولتِ مشترکہ کی مستقل سربراہ تھیں اور چھ فروری انیس سو باون سے تئیس مارچ انیس سو چھپن تک چار سال سے اوپر پاکستان کی آئینی سربراہ رہیں۔ان کی مقامی نمایندگی گورنر جنرل غلام محمد اور اسکندر مرزا نے کی۔ جب انیس سو چھپن کے آئین کے تحت پاکستان ڈومینین سے ریپبلک بن گیا تو اسکندر مرزا نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔یوں ملکہ کا پاکستان سے علامتی آئینی رشتہ ختم ہو گیا۔

ملکہ دو بار پاکستان آئیں۔یکم تا سولہ فروری انیس سو اکسٹھ کو وہ پندرہ روزہ دورے پر شہزادہ فلپ کے ہمراہ دارالحکومت کراچی میں اتریں۔فوجی صدر ایوب خان اور ملکہ کھلی کار میں دو رویہ کھڑے عوام کو ہاتھ ہلاتے ہوئے مرکزِ شہر صدر کی شاہراہوں سے بھی گذرے۔ قائد کی قبر پر پھول چڑھائے، کورنگی ٹاؤن شپ کا دورہ کیا۔ ان کے اعزاز میں فریئر ہال گارڈن میں استقبالیہ دیا گیا جس میں پانچ ہزار ممتاز شہریوں نے شرکت کی۔

پشاور میں قیام کے دوران شاہی جوڑے نے یونیورسٹی دیکھی اور طورخم بارڈر تک گئیں۔کوئٹہ کے چھ گھنٹے کے دورے میں سڑک پر دو رویہ منتظر تیس ہزار کے لگ بھگ شہریوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔سردار محمد خان جوگیزئی اور نواب خیر بخش مری نے شاہی مہمانوں کو بھیڑوں کا روایتی تحفہ دیا۔کچھ وقت کوئٹہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں بھی گذارا۔

جب کہ لاہور میں ملکہ نے علامہ اقبال کے مرقد پر پھول چڑھائے۔اقبال کا شاہی خاندان سے شعری ناتا یوں بنتا ہے کہ ملکہ کی پردادی وکٹوریہ کی جنوری انیس سو ایک میں بروز عید وفات کی خبر ملنے پر اشکِ خوں کے عنوان سے تئیس برس کے اقبال نے ایک سو دس اشعار کی سوگوار نظم کہی۔البتہ اسے اپنے پہلے مجموعے بانگِ درا ( انیس سو چوبیس ) میں شامل نہیں کیا۔

کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے ہوا کرے

اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے

تو جس کی تخت گاہ تھی اے تخت گاہِ دل

رخصت ہوئی جہاں سے وہ تاج دار آج

اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایہِ خدا

اک غم گسار تیرے مکینوں کی تھی گئی

ملکہ برطانیہ نے مرقدِ اقبال سے متصل بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ بھی دیکھا۔ شالامار باغ میں زندہ دلانِ لاہور کے استقبالیے میں بھی شرکت کی۔

ملکہ کا دوسرا چھ روزہ دورہ پینتیس برس بعد انیس سو ستانوے میں قیامِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے ہوا۔تب فاروق احمد خان لغاری صدر تھے اور نواز شریف دوسری بار وزیرِ اعظم بنے تھے۔ملکہ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ایوانِ صدر کی ایک خصوصی تقریب میں ملکہ کو اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ نشانِ پاکستان اور شہزادہ فلپ کو نشانِ امتیاز پیش کیا گیا۔ملکہ نے بھی صدر لغاری اور وزیرِ اعظم نواز شریف کو نائٹ گرینڈ کراس سے نوازا۔

ایوانِ صدر میں شاہی جوڑے کو دیے گئے عشائیے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی شرکت کی۔ان کی حکومت کو صدر لغاری نے چند ماہ قبل ہی برطرف کیا تھا۔دراصل ملکہ کو پاکستان کے دورے کی دعوت وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے ہی دی تھی۔لیکن جب ملکہ اسلام آباد آئیں تو ان سے بے نظیر بھٹو کا تعارف بطور قائدِ حزبِ اختلاف کروایا گیا۔

یہ قصہ سن کے یونہی ایک سوال ذہن میں آیا۔ آج اگر ملکہ زندہ ہوتیں اور اسلام آباد تشریف لاتیں تو ایوانِ صدر میں عشائیے کے موقعے پر وزیرِ اعظم شہباز شریف اور حزبِ اختلاف کے سرکردہ رہنما عمران خان ملکہ سے ملاقات کے لیے ایک چھت تلے ہوتے؟

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔