پروفیسر خیال آفاقی کی منفرد کتاب ’’ بچوں کے اقبال‘‘

عثمان دموہی  اتوار 11 ستمبر 2022
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

حضرت علامہ اقبال کی ذات و شخصیت عالم اسلام اور خصوصاً مسلمانان پاک و ہند کے لیے ایک ایسے محسن کی حیثیت رکھتی ہے ، جس کو آنے والی نسلیں بھی فراموش نہیں کرسکیں گی۔

آپ نے جہاں اپنی ملت کے ہر طبقے پر اپنی فکر کے اثرات چھوڑے وہیں انھوں نے خصوصاً نوجوانوں کو اپنے تخاطب سے نوازا اور انھیں ایک ایسا ولولہ تازہ دیا جس نے فی الحقیقت مسلم نوجوان کو اپنے اندر شاہینی صفات پیدا کرنے کا جذبہ پیدا کردیا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت علامہ نے بچوں کو بھی فراموش نہیں کیا اور ان کے لیے بڑی سبق آموز نظمیں لکھیں ، لیکن ہمارے دانشور طبقے نے علامہ کو اپنے ہی دائرہ دانش میں محصور کرکے رکھ دیا، بہت کم بچوں پر توجہ دی گئی، کاش کہ علامہ کے پیغام کو نوجوانوں کے ذہنوں میں اور خصوصاً بچوں کے اندر بھی پیغام اقبال کو سادہ اور معصومانہ طریق پر عام کرنے کی کوشش کی جاتی۔

اس میں یقینا اقبال پسند طبقہ ناکام نظر آتا ہے لیکن کسی بھی صورت حال میں یکسر مایوسی کا اظہار بیان کے اندر عدم توازن پیدا کرتا ہے لہٰذا اس اعتبار سے کئی حضرات کو دیکھا گیا کہ انھوں نے علامہ صاحب کو خواص سے نکال کر عوام سے روشناس کرانے کی کوشش کی اور کئی حضرات نے علامہ کو بچوں سے بھی متعارف کرانے کا فریضہ انجام دیا، یعنی حیات اقبال پر بچوں کے لیے بھی کتابیں لکھیں، لیکن ہم نہایت ادب اور معذرت کے ساتھ یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ ان لکھنے والوں نے اس اہم ترین اور بنیادی باتوں کا خیال نہیں رکھا کہ بچوں کو بچوں کی زبان میں سمجھایا جائے۔ خصوصاً حضرت علامہ کی بچوں کے لیے نظموں کی تشریحات کرکے انھیں ان کے اندر سبق آموز مفہوم کو وضاحت سے سمجھانے کی کوشش کی گئی۔

اس فقدان میں ایک ایسا امید افزا کام ہماری نظر سے گزرا جس کی ازحد ضرورت تھی اور اس کام کی ادائیگی کا سہرا پروفیسر خیال آفاقی کے سر ہے۔ انھوں نے ’’اذان اقبال‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی کتاب نوجوانوں کے لیے مرتب کی جس کو دیکھ کر اعتراف کرنا پڑا کہ اس سے قبل علامہ کے اشعار کی اس انداز میں تشریح نہیں کی گئی۔ پروفیسر صاحب کے اس کام کو خاصا سراہا گیا اور نوجوانوں بالخصوص طلبہ نے ’’اذان اقبال‘‘ سے خوب استفادہ کیا اور اب نہایت مسرت افزا بات یہ ہے کہ پروفیسر خیال آفاقی نے حضرت علامہ اقبال کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کو کہانی کا روپ دے کر بہت اہم فریضہ انجام دیا ہے۔

کتاب اس وقت شایع ہو کر ہمارے سامنے ہے، نہایت دلچسپ ہے اور خصوصاً بچوں کی نفسیات ان کے ذوق و شوق اور ان کی ذہنی استطاعت کے مطابق نہایت ہی مفید کام کیا گیا ہے۔ شروع تا آخر ایک تمثیل کا انداز ہے جو پڑھنے والے کو اپنے ساتھ باندھ کر رکھتی ہے۔ ظاہر ہے بچوں کے اندر کہانی سننے کا فطری شوق ہوتا ہے، خیال آفاقی نے اسی بات کو پیش نظر رکھا اور کہانی کے روپ میں ان تمام نظموں کو جو بچوں کے لیے ہیں اس طرح بیان کیا ہے کہ ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بچے پوری دلچسپی کے ساتھ اس کتاب کو نہ صرف پڑھیں گے بلکہ نظموں کے مفہوم کو بھی پورے طور پر ذہن نشین کرسکیں گے۔

کہانی کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ایک کالج کے استاد اپنے دو بچوں، ایک بیٹی اور دوسرے بیٹے کو ہر روز ایک نظم کا مفہوم اس وضاحت اور خوب صورت لہجے میں سمجھاتے ہیں کہ یہ ہرگز نہیں لگتا کہ وہ تدریسی انداز میں طالب علم کو نظموں کا مطلب سمجھا رہے ہیں بلکہ روایت کے برخلاف بس لگتا یوں ہے جیسے کہہ رہے ہوں، آؤ بچو! کہانی سنو!‘‘ اور صاف نظر آتا ہے کہ بچے بالکل یہی محسوس کرتے ہیں کہ وہ سبق نہیں پڑھ رہے بلکہ کہانی سن رہے ہیں۔

مذکورہ کتاب کے اندر یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ استاد اپنے بچوں کو ’’نظم کہانی‘‘ سنانے کے بعد ان کا امتحان بھی لیتے رہیں اور خود ان سے بیان کردہ نظم کا مفہوم دریافت کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے بچوں نے کس حد تک نظم کے اندر کی روح کو محسوس کیا ہے۔ اس دوران بچے کہیں اگر بھول چوک کرتے ہیں تو والد صاحب مزید ان کی تصحیح اور درستگی کردیتے ہیں اور یوں وہ مقصد پا جاتا ہے جس کے حصول کے لیے بچوں کے والد صاحب نے جو استاد بھی ہیں، یہ کوشش کی ہے۔

اس موثر، مفید اور کسی حد تک نہایت منفرد کام پر ہم پروفیسر خیال آفاقی صاحب کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں بلکہ شعبہ تعلیم سے درخواست اور سفارش کرتے ہیں کہ مذکورہ کتاب کو نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ اقبال فہمی بڑوں سے نکل کر بچوں میں بھی آسکے کہ ان کا سب سے زیادہ حق ہے، آخر انھی کو بڑے ہوکر اس ملک کو سنبھالنا ہے تو اگر ان کل کے ذمے داروں کے اندر شاہینی صفات نہ ہوں گی تو اس نظریاتی ملک کا اصل تقاضا کیوں کر پورا ہو سکے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔