قرضوں میں جکڑی معیشت

ایم جے گوہر  اتوار 11 ستمبر 2022
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

جس ملک کی معیشت اندرونی اور بیرونی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہو، زرمبادلہ کے ذخائر میں ابتری کا سلسلہ دراز ہونے لگے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا گراف بھی بلندی کی سمت مائل بہ پرواز ہو، تو پھر اس ملک کے حاکموں کو معیشت کو استحکام بخشنے کے لیے کشکولِ گدائی اٹھانا پڑتا ہے۔

پاکستان بھی ان بدقسمت ممالک میں شامل ہے جس کی معیشت سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی قرضوں کی بے ساکھیوں پر کھڑی ہوئی ہے۔ بعینہ ہمارے حکمران آج بھی عالمی مالیاتی اداروں، بالخصوص آئی ایم ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) اور دوست ممالک سے قرضوں کی بھیک لینے ان کے دروازوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ جب قرضہ منظور ہو جاتا ہے ارباب اقتدار اور ان کے حاشیہ بردار خوشی کے شادیانے بجانے لگتے ہیں۔

قرضہ دینے والا ادارہ آئی ایم ایف قرض تو دے دیتا ہے لیکن اپنی شرائط پر دیتا ہے اور ایسی سخت شرطیں اور پابندیاں مقروض ملکوں پر عائد کرتا ہے کہ جس کا بالواسطہ اور بلاواسطہ خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے، معیشت قرضوں کے دباؤ میں رہتی ہے اور اس کے استحکام کے آگے ایک بڑا سوالیہ نشان لگا رہتا ہے۔ اگرچہ آئی ایم ایف کے رکن ممالک کی تعداد 185 کے قریب ہے تاہم اس مالیاتی ادارے پر بڑی طاقتوں کا مکمل کنٹرول ہے جس کی بڑی وجہ اس کے فیصلوں کے لیے ووٹ ڈالنے کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

قرض دیتے وقت آئی ایم ایف مقروض ممالک پر جو کڑی شرائط عائد کرتا ہے۔ اس کے بارے میں معاشی ماہرین اور ناقدین کا موقف ہے کہ یہ شرائط اکثر اوقات مقروض ملک کے معاشی حالات بہتر بنانے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے بجائے اسے مزید بگاڑ دیتی ہیں۔ جو ملک طویل عرصے سے آئی ایم ایف کے قرضوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں وہ قرضوں کے منفی اثرات کو نظرانداز کرکے اپنی زبوں حال معیشت کو سہارا دینے کے لیے قرضوں کے حصول پر مجبور اور بے دست و پا نظر آتے ہیں۔

انگریزی کی ایک کتاب ’’اکنامک ہٹ مین‘‘ کا شمار معیشت کی معروف کتب میں ہوتا ہے۔ مذکورہ کتاب کے مصنف جان پرکنز آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ملازم رہ چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب میں اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں یہ لکھا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کس طرح دنیا کے مختلف ملکوں کو قرضوں کے جال میں جکڑ لیتے ہیں۔ لاچار و مجبور اور بے بس مقروض ممالک اپنے اپنے کشکول گدائی بھرنے کے بعد پوری طرح مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور برسوں گزرنے کے بعد بھی ان کے چنگل سے نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا بلکہ دائرہ مزید تنگ ہوتا جاتا ہے۔

پاکستان نے اپنے قیام سے تادم تحریر جو قرضے لیے اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 1947 سے 2008 تک پاکستان نے گزشتہ چھ دہائیوں میں عالمی مالیاتی اداروں سے تقریباً 6 ہزار ارب روپے کا بیرونی قرضہ حاصل کیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2008 میں وطن عزیز کا ہر شخص پانچ سو روپے کا مقروض تھا۔ 2008 سے 2022 تک خود کو جمہوریت کا چیمپئن کہنے والے اور ملک کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنانے والے سیاسی حکمرانوں کے دور میں وطن عزیز پر قرضوں کا غیر معمولی بوجھ ڈالا گیا۔

2008سے 2022 تک دو لاکھ ستائیس ہزار سے بھی تجاوز کرچکے ہیں اور آج ملک کا ہر شہری دو لاکھ بیس ہزار روپے سے بھی زیادہ کا مقروض ہوچکا ہے۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پی پی پی کے دور حکومت میں 161 بلین ماہانہ، مسلم لیگ (ن) کے دور میں 235 بلین ماہانہ اور پی ٹی آئی کے دور میں سب سے زیادہ یعنی 540بلین ماہانہ کے حساب سے قرضے حاصل کیے گئے۔ نتیجتاً آج 2022 میں پاکستان کے کل قرضے 127 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو ایک انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے۔

آپ اس مقروض ملک کے حاکموں کے ٹھاٹ باٹ دیکھیں تو ان کے عیش و عشرت کی کئی داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ پاکستان اپنی آزادی و خود مختاری کو عالمی مالیاتی اداروں کی تجوریوں میں گروی رکھ چکا ہے اور مقتدر طبقے کو اس کا نہ کوئی احساس ہے اور نہ فکر، کہ ملک پر اتنے بھاری قرضوں کا بوجھ کیسے کم ہوگا۔ عوام کے دکھوں کا مداوا کیوں کر ممکن ہے۔ ان کی مشکلات کے ازالے کی کیا سبیل کی جائے۔

طرفہ تماشا یہ کہ آئی ایم ایف سے ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والے حاکم وقت نے پہلے آئی ایم ایف کے پاس جانے کو خودکشی قرار دیا پھر اسی کے دور حکومت میں آئی ایم ایف سے سب سے زیادہ قرضہ لیا گیا۔ کیا عجب صورت حال ہے کہ جب عالمی مالیاتی اداروں یا دوست ممالک سے قرضہ حاصل کیا جاتا ہے تو خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ جیسے ہمالیہ کی چوٹی سر کرلی ہے۔

موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے تازہ قرضہ حاصل کرکے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا گیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا اور ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہوگا اور جلد آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات حاصل کرلی جائے گی۔ ذرا غور کیجیے اور ماضی پر نظر ڈالیے تو ہر قرضے کے حصول کے بعد اسی قسم کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ عوام کو خوش خبری اور امیدیں دلائی جاتی ہیں کہ قومی معیشت کے استحکام کے مثبت اثرات عوام تک منتقل کیے جائیں گے اور ان کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ مہنگائی کا گراف نیچے آئے گا اور غربت کم کرنے میں مدد ملے گی۔

ایسے بودے دعوے اور کھوکھلے وعدے سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں۔ عوام خاطر جمع رکھیں اس بار بھی کچھ نیا نہیں ہونے والا ہے، کیوں کہ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کا گراف اس قدر بلند ہوتا جائے گا کہ عوام تنگ آ کر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور احتجاجی مظاہرے ہوں گے۔ احتجاج تو سیلاب زدگان بھی کر رہے ہیں۔ جہاں جہاں ہمارے منتخب نمایندے سیلاب زدہ لوگوں کے احوال جاننے اور ان سے نمائشی ہمدردیاں جتانے جا رہے ہیں مصیبت زدہ انھیں گھیر لیتے ہیں اور انھیں خوب صلواتیں سناتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔