سانحہ نائن الیون کی یاد میں

شبیر احمد ارمان  اتوار 11 ستمبر 2022
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

سانحہ 11 ستمبر 2001 ایک یادگار تاریخ ہے اس روز ریاست ہائے متحدہ امریکا کے شہر نیویارک میں دن کے وقت چار فضائی مسافر بردار طیارے اغوا ہو کر خودکش انداز میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور دیگراہم عمارتوں سے ٹکرا دیے گئے۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹرجن کی سو سے زیادہ منزلیں تھیں اِس حادثے کے نتیجے میں یہ عمارتیں مکمل زمین بوس ہو گئیں اور ہزاروں لوگ جان سے گئے۔ یہ واقعہ دہشتگردی سے منسوب ہے۔ اِس دن کو نائن الیون کے نام سے یادکیا جاتا ہے اِس واقعہ کا ذمے دار مکمل طور پر اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا جاتا ہے اور کہا جاتاہے کہ وہ افغانستان میں موجود اِیک دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا سربراہ تھا۔

11 ستمبر 2001ء صبح قریباً آٹھ بجے یہ حادثات پے در پے رونما ہوئے۔ پہلے ایک مسافر بردار بوئنگ طیارہ 757 نیو یارک کے 110 منزلہ ٹاور سے ٹکرایا اس کے اٹھارہ منٹ بعد ہی دوسرا بوئنگ 757 بھی دوسرے ٹاور سے ٹکرا گیا۔ دو مسافر ہوائی جہاز نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی بلند و بالا عمارتوں سے ٹکرا گئے جن سے یہ عمارتیں منہدم ہو گئیں۔ اس کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد ایک اور اغوا شدہ مسافر جہاز بوئنگ 757 بھی امریکی محکمہ دفاع کے ہیڈ کوارٹر پینٹا گان پر گرایا گیا جس سے پینٹا گان جزوی طور پر تباہ ہو گیا۔

آدھے گھنٹے بعد ایک اور جہاز کے متعلق خبر آئی کہ جسے اغوا کر کے وائٹ ہاؤس کی طرف لے جایا جا رہا تھا یہ بھی بوئنگ 757 تھا جسے پنسلوانیا کے مقام پر لڑاکا طیاروں کے ذریعے مار گرایا گیا۔ ان تمام حملوں میں جہازوں میں موجود تمام مسافر مارے گئے۔ ختم ہونے سے پہلے کئی مسافروں نے اپنے اپنے موبائل سیل کے ذریعے اپنے مختلف جگہوں پر فون کر کے اطلاعات دیں۔ ان تمام اطلاعات کو بعد میں منظم کیا گیا تا کہ اس حادثے میں ہونیوالے اندرونی واقعات کو تفصیل سے جوڑا جا سکے۔

حادثے کے وقت اس بلڈنگ میں دس ہزار افراد تھے۔ان واقعات کے بعد پورے امریکا میں ریڈ الرٹ کر دیا گیا۔ امریکا نے اپنی میکسکو اور کینیڈا سے ملنے والی سرحد کو بند کر دیا۔ امریکی فضاؤں میں جنگی طیاروں نے پروازیں شروع کردیں۔ امریکی بحری بیڑے حرکت میں آ گئے۔ تمام ایئر پورٹس بند کر دیے گئے اور کسی عام طیارے کو پرواز کی اجازت نہیں دی گئی۔ تمام سرکاری عمارتوں کو خالی کرا لیا گیا اور سرکاری تنصیبات پر فوج متعین کر دی گئی۔

جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن نے ہدایت جاری کر دی کہ ورجینیا، میری لینڈ، پنسلوانیا اور مغربی ورجینیا میں تمام عدالتیں اور دفاتر تا حکم ثانی بند رہیں گے۔ اسی طرح کانگریس کی عمارت خالی کرالی گئی، وہ تمام 19 عمارتیں جو پولیس کے کنٹرول میں تھیں بند کر دی گئی۔ اسی طرح تمام ضلعی حکومتوں کے دفاتر بند کرا دیے گئے۔ ورجینیا ریلوے ایکسپریس کو معطل کر دیا گیا اور یونین اسٹیشن سے تمام ٹرینوں کی آمد و رفت بند ہوگئی۔ بسوں کے ساتھ پینٹا گون میٹرو ریل اسٹیشن بھی بند کر دیا گیا۔

ریاست میری لینڈ کے تمام اسکولوں میں چھٹی کر دی گئی اور جارج ٹاؤن یونی ورسٹی میں کلاسز معطل کر دی گئیں۔ دنیا کی سب سے بڑی تجارتی شاہراہ وال اسٹریٹ پر سناٹا چھا گیا۔ اس حملے میں 2977 انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔اس کے ساتھ ہی امریکا اور اس کے حامیوں کو مالی بحران کا شکار ہونا پڑا۔ عالمی مارکیٹ کریش ہونا شروع ہو گئی جو چوبیس گھنٹوں بعد کسی حد تک سنبھلنے لگی تھی۔حملوں کی اطلاع عام ہوتے ہی عالمی منڈی میں تیل اور سونے کی قیمتوں میں فوری اضافہ ہو گیا اور یورپی کرنسی یورو کے مقابلے میں ڈالر کر نقصان پہنچا۔

لندن کی مارکیٹ میں اگلے ماہ یعنی اکتوبر کے لیے تیل کی قیمتیں 27۔26 ڈالر سے بڑھ کر 30 اعشاریہ دس ڈالر تک جا پہنچیں جب کہ نیو یارک میں تیل کی مارکیٹ حملوں کی اطلاع کے ساتھ ہی بند ہوگئی۔اسی طرح سونے کی قیمت میں لگ بھگ 19 ڈالر فی اونس کا اضافہ ہو گیا۔تباہی کے نتیجے میں انشورنس کمپنیوں نے نقصان کا تخمینہ 15 ارب ڈالر تک لگایا۔

القاعدہ کے جہادی اراکین نے یہ حملہ مسلم دنیا پر امریکا کی جارحیت و اسلام مخالف پالیسیوں کی مخالفت میں کیا۔ جس سے ان کا خیال تھا کہ اس سے امریکا کی کمر ٹوٹ جائے گی، مگر خلاف توقع امریکا نے پوری دنیا سے اپنے لیے ہمدردی سمیٹ کر مسلم امہ پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی شروعات کر ڈالی۔ ایک خیال کیمطابق یہ حملہ اور اس کی منصوبہ بندی تو القاعدہ ارکان نے کی مگر جتنا زیادہ فائدہ امریکیوں کو ہوا اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ حملہ خود امریکیوں کی خواہش و منصوبہ بندی پر ہی کیا گیا۔

القاعدہ تنظیم، جس کی بنیادی شروعات روس افغانستان جنگ کے بعد ہونیوالے افغان خانہ جنگی کے دوران میں ہوئی۔ اسامہ بن لادن مشہور اسلامی شدت پسند تنظیم القاعدہ کا سربراہ جس کی سربراہی و قیادت میں اس حملے کو سر انجام دیا گیا۔کافی عرصہ بعد امریکی خفیہ آپریشن کے ذریعے پاکستان کی سر زمین پر کارروائی کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا امریکی دعویٰ کیا گیا اور دنیا کو اس کی لاش بتائے بغیر اسے سمندر برد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ۔ قبل ازیںخالد شیخ جو کہ اس سانحے کا ماسٹر مائنڈتھاجسے پاکستان سے گرفتار کیا گیا۔

سانحے کے بعد پوری دنیا بالخصوص امریکا و یورپ میں مسلمان دہشت کی علامت بن گئے اور حکومتی مشنریوں نے بے گناہ مسلمانوں پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے ۔امریکی مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ان کا ہر قسم کا بائیکاٹ کیا جاتا رہا اور رہی سہی جگہوں پر غیر مسلم ان سے خوف زدہ ہوکر الگ ہو جاتے۔

بعد ازاں تہذیبوں کے درمیان مکالمہ کا آغاز کیا گیا اور مغرب کو بتایا گیا کہ دین اسلام ایک پرامن اور سلامتی کا مذہب ہے جو کسی بھی ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے لیکن اس کے باوجود مغربی دنیا میں وقتا فوقتا اسلامو فوبیا پر مبنی واقعات ہوتے رہتے ہیں جو قابل مذمت ہوتے ہیں ،بلاشبہ سانحہ نائن الیون کے بعد دنیا بدل کر رہ گئی ، پوری دنیا کو غیر محفوظ تصور کیا جانے لگا خود امریکیوں کے لیے بھی دنیا کی زمین تنگ محسو س کی جانے لگی۔

امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے، لاکھوں افغانی شہری ہلاک ہوئے ساتھ ہی امریکی اور اس کے اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوتے رہے ،پاکستان نے بھی اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالا جس کے نتیجے میں پچاس ہزار پاکستانی شہری اور جوان شہید ہوئے اور اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ پھر رفتہ رفتہ حالات و واقعات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ۔

افغانستان جنگ سے امریکا اور اس کے اتحادی تھک ہار گئے اور افغان طالبان سے کافی عرصے تک امن مذاکرات کرتے رہے اور بالآخر امریکا اور اس کے اتحادی افواج اچانک راتوں رات افغان سر زمین چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ۔ پھر طالبان کی حکومت قائم ہوگئی لیکن اب بھی افغانستان کسی نہ کسی حوالے سے شورش زدہ لگتا ہے ، الغرض یہ کہ سانحہ نائن الیون میں اور اس کے نتیجے میں افغان جنگ کے دوران جو جانی و مالی نقصانات ہوئے اور دنیا جس طرح غیر محفوظ ہوئی اس پربہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔