بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

نسیم انجم  اتوار 11 ستمبر 2022
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

دنیا میں جتنی بھی عظیم ہستیاں گزری ہیں ، انھوں نے حق کا پرچارکیا اور باطل کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ، اگر ہم دنیا کی عظیم ترین ہستی اللہ کے آخری رسولؐ کی کلی زندگی کا احاطہ کریں تو اس بات کا ہمیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپؐ نے حق کی خاطر بے شمار مصائب اور مظالم کا سامنا کیا۔

آخرکار حق کی فتح ہوئی اور فتح مکہ ظہور میں آگیا اور حجۃالوداع کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، آج ہم نے دین اسلام مکمل کردیا ہے ، عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں ہے اگر فوقیت ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر ، واقعہ کربلا بھی اسلام کی سرفرازی اور باطل کی شکست کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اسی تناظر میں علامہ اقبال نے فرمایا :

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

سچائی کے علم بردار حضرت شاہ ولی اللہ اور ان سے پہلے حضرت مجدد الف ثانی اور ان کے ساتھیوں نے غیر اسلامی رسوم کے خاتمے کے لیے اس وقت کے سورماؤں کا مقابلہ کیا اور اپنے مشن میں کامیاب ہوئے۔ حق و صداقت کی جنگ میں منصور بن حلاج کا نام تاریخ میں نمایاں ہے۔ حضرت حلاج بن منصور نے ’’ اناالحق ‘‘ کا نعرہ لگایا یعنی ’’میں حق ہوں‘‘۔ مغربی مصنفین اور بعض علما اور اس وقت کے مقتدر حضرات نے جھوٹے فتوے دے کر انھیں تختہ دار تک پہنچانے کے لیے ماحول بنا دیا۔

فارس کے شہر بیضا میں پیدا ہوئے ، آپؒ کا اسم گرامی حسین تھا، آپؒ کو اپنے والد منصور بن حلاج سے شہرت دوام حاصل ہوئی۔ حضرت حلاج بن منصور سے بہت سے کشف و کمالات وابستہ ہیں، اس دور میں ان کی سچائی پر شبہ کیا گیا اور آخر کار بغداد کے علما نے حضرت منصور حلاج کے خلاف فتویٰ دے دیا اور آپ کو قتل کردیا گیا۔ علما دین کی ایک طویل فہرست ہے جن کی پوری زندگی امربالمعروف و نہی عن المنکر کے عمل میں گزری۔

سچائی کی خاطر زہرکا پیالہ پینے والے فلسفی کا ذکر آتا ہے تو سرفہرست سقراط کا نام مفکرین و دانشوروں کے ذہن میں روشن ہو جاتا ہے، ہر دور میں حق و باطل کے قافلے قدم سے قدم ملا کر چلے ہیں اور اپنی اپنی بات منوانے اور مقاصد کی تکمیل کے لیے دست و گریباں رہے، لیکن جیت کے وہی حق دار ٹھہرائے جاتے ہیں جو روشنی کے چراغ جلاتے اور اپنے منطقی دلائل اور دانائی کو ہتھیار بنا کر لوگوں کے دل جیت لیتے ہیں اور پھر سچائی کا سورج سوا نیزے پر اتر آتا ہے، ان حالات میں طاقتور کے پاس ایک ہی حل ہوتا ہے کہ اپنی ہار کو فتح میں بدلنے کے لیے مجمع پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جائے لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر ہوتا ہے، لہٰذا سچائی کا الم بلند کرنیوالے پر صاحب اقتدار کا عتاب نازل ہوتا ہے۔

سقراط دنیائے فلسفہ کا جلیل القدر عالم تھا، پانچویں صدی قبل اس نے فلسفے کی بنیاد رکھی۔ سقراط کی جائے پیدائش یونان کا شہر ایتھنز تھا۔ سقراط کے شاگردوں کے بقول وہ ایک مجسمہ ساز تھا، لیکن وطن سے محبت کا جذبہ اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، محب وطن ہونے کا ثبوت اس نے اس طرح دیا کہ اس نے کئی یونانی جنگوں میں حصہ لیا اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اس کی فطرت میں نیکی، خوش اخلاقی اور حق پرستی شامل تھی، اسے جھوٹ، تصنع اور بناوٹ سے سخت نفرت تھی، وہ جانتا تھا کہ سچائی انسان کا اعتبار قائم رکھتی ہے۔ وہ گھنٹوں کائنات کے اسرار و رموز اور سماجی قدروں سے نیکی اور بدی کی تقسیم میں بہت سا وقت گزارتا، اس طرح وہ اللہ کی وحدانیت کا قائل ہوگیا۔

سقراط بحیثیت معلم مختلف علوم پر دسترس رکھتا تھا ، اس کے بے شمار شاگرد تھے، جو اس کے پرستار اور اس کی قابلیت اور علمیت کے گرویدہ تھے۔ اس کی منصفانہ طبیعت اور دیانت داری سے ایتھنز کا ہر شہری اور طالب علم متاثر تھا۔ ایک دن اس کے لائق فائق شاگرد افلاطون نے اس سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا ملازم بھرے بازار میں آپ پر الزام تراشی کر رہا تھا۔

سقراط نے تحمل کے ساتھ اس سے پوچھا کہ’’ وہ میرے بارے میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ افلاطون نے جواب دینے کے لیے لب کشائی کی ہی تھی کہ اسی وقت سقراط نے اسے اشارے سے خاموش کردیا اور سنجیدگی سے بولا کہ ’’ تم یوں کرو ، ملازم کے سچ یا جھوٹ بولنے پر اسے تین کی کسوٹی پر پرکھو اور اس کے بیان کا تجزیہ کرو، اب جو بھی جواب آتا ہے تو وہ سو فیصد درست ثابت ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات اچھی تو نہیں ہے جو تم مجھے بتانے جا رہے تھے اور تیسری بات بھی قابل فکر ہے کہ یہ سننے والے کے لیے کسی بھی صورت میں مفید ہوسکتی ہے کیا؟‘‘

افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا ، سقراط نے مسکرا کرکہا کہ ’’ اگر یہ بات میرے لیے فائدے مند نہیں ہے تو مجھے بتانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟‘‘ افلاطون اپنے استاد کی باتیں سن کر پریشانی کے عالم میں اپنے اطراف میں نگاہیں دوڑانے لگا اور اس کا چہرہ ندامت کے پسینے سے شرابور ہو گیا۔ سقراط نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اپنے تینوں اصولوں کی وضاحت کی۔ اس نے یہ اصول ہزاروں سال قبل اپنے شاگردوں کو یاد کرا دیے تھے اس کے تمام شاگرد بات کرنے سے قبل ہر بات تین کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ (1)۔کیا یہ بات اچھی ہے۔ (2)۔یہ بات سو فیصد درست ہے اور یہ کہ (3) یہ بات سننے والے پر اچھے اثرات مرتب کرے گی؟

اسلام نے تو 14 سو سال پہلے ہی اخلاقیات کا درس دے دیا تھا کہ سنی سنائی باتوں کو آگے نہ بڑھایا جائے، بدگمانی، غیبت اور سزاؤں سے بھی آگاہ کردیا تھا۔سقراط کے افکار عالیہ یونان کے لوگوں کے لیے مشعل راہ تھے۔ اس کے دوست احباب اسے روحانی بزرگ مانتے تھے۔ اس کا علم وسیع اور حقیقت کا علم بردار تھا اس کے پاس ہر سوال کا مدلل جواب ہوتا اسی وجہ سے یونان کے بے شمار لوگ اس کے معتقد تھے، اس نے علم و آگہی کی روشنی میں دیوتاؤں کے بارے میں اچھی طرح جان لیا تھا ، اسی وجہ سے تحقیق اور علم کی روشنی نے اسے دیوتاؤں کے وجود کا منکر بنا دیا۔ اس کے ساتھی اس کے ہم خیال ہو گئے۔

اس کی تقریریں سننے کے لیے ایک بہت بڑا مجمع لگ جاتا، اس کی زبان سے ادا ہونے والا ہر لفظ حاضرین کے دلوں میں اترتا، اس کے سحر انگیز خطاب سے ایتھنز کے نام نہاد دانا حسد کرنے لگے۔ اس کی بے پناہ شہرت انھیں ایک آنکھ نہ بھائی سو اسے نیچا دکھانے کے لیے اس کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں اور الزامات لگائے گئے کہ یہ ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ یہ ہمارے دیوتاؤں کو نہیں مانتا، یہ ایک الگ خدا کا تصور پیش کرتا ہے، جسے کسی نے نہیں دیکھا۔ان حالات میں سقراط کے گرد گھیرا تنگ ہونا شروع ہو گیا، لہٰذا ایک بڑی عدالت لگائی گئی اس موقع پر پورا شہر امڈ آیا۔

سقراط کو سب کے سامنے صفائی پیش کرنے کا حکم دیا گیا، سقراط نے اپنی دانشورانہ گفتگو سے مجمع پر سکتہ طاری کردیا اور لوگ سقراط کے ہمنوا ہوگئے، حکومت وقت نے سقراط کے خلاف ایک نوجوان کو بطور گواہ پیش کیا تاکہ بازی الٹ جائے۔ انھوں نے سقراط کے سامنے دو شرائط رکھیں، شہر چھوڑ دو یا پھر زہر کا پیالہ پی لو۔ سقراط نے دوسری شرط مان لی، اس کے شاگرد رو رو کر فریاد کر رہے تھے کہ وہ زہر ہرگز نہ پیے لیکن سقراط سچائی کی خاطر زہر پی کر امر ہوگیا اور باطل پرست تاریخ کے صفحات پر گم ہوگئے، آج کوئی ان کا نام لینے والا نہیں۔جس دور میں ہم جی رہے ہیں وہ حسینی، منصوری اور سقراطی دور ہے۔ جو بھی حق کی بات کرے گا سچ بولے گا اسے ٹارچر سیل میں ڈال دیا جائے گا۔

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔