ادویہ سازی کا عالمی افق

ڈاکٹر عبید علی  پير 12 ستمبر 2022
چند دہائیوں میں ادویہ سازی کی نوعیت میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ (فوٹو: فائل)

چند دہائیوں میں ادویہ سازی کی نوعیت میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ دو دہائیوں میں نت نئی کیمیائی دواؤں کی ایجادات میں ٹھہراؤ اور حیاتیاتی ادویہ کے پھیلاؤ میں تلاطم کا شور دیکھا، سنا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ دھیرے دھیرے قسطوں میں ادویہ بنانے والی صنعتوں کی انگڑائی نے مستقل تیز رفتار ادویہ سازی کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔

ادویہ کے غیر متوقع نقصانات کے ابھرنے سے پہلے اسے پڑھے جانے کی اہلیت قدرے بڑھ گئی۔ اندیشوں کا سائنسی تجزیہ حادثات کی شدت روکنے اور کم کرنے میں خاصا کامیاب رہا۔ مختلف ممالک کے حکومتی اداروں کا آپس میں حیرت انگیز گہرا تعاون ایک انفرادی مثال بن کر انسانیت کے تاج پر قیمتی پتھر کی طرح جگمگا رہا ہے۔ گو 2020 اور وبا سے وابستہ افراتفری نے اعتماد کی تمام بنیادوں کو ہلا دیا ہے مگر سائنس کے ٹھوس اصولوں پر قائم کئی ادارے اپنا وجود اس طوفان میں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ خیالات کے حامل لوگوں کی سائنسی طریقہ کار پر کڑی نظر اور اس سے حاصل کردہ شواہد کا زمینی حقائق سے تعلق جوڑنے کی وجوہ کو محسوس کرنا کسی نعمت سے کم نہیں۔

بیماریوں کے پیچھے چھپی سچائی کے تعاقب میں لگے ہر سمت حیاتیاتی، کیمیائی، انجینئرنگ سے وابستہ پیشہ ور محققین تحقیق میں جڑے ہیں۔ اسی طرح جدید انداز کے سائے میں نئی ادویہ سے لیس ہوکر بیماریوں سے مقابلہ کررہے ہیں۔ ایک سے ایک ترکیب لڑائی جارہی ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ سمندر کی کس گہرائی میں غوطہ خور پہنچ چکے ہیں۔ گہرے برفیلے ماحول مہیا کرکے حرارت سے حساس مالیکیولز کا مطالعہ کرنا مسلسل دلچسپی کا موضوع اور توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ کہیں آلودگی سر درد اور کہیں حرارت کی باریک راہداری ترقی کے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے مگر آفرین ہے جستجو رکھنے والوں پر کہ وہ پیچیدہ الجھے ہوئے معاملات کو سمجھنے کی کوشش میں دن رات لگاتے اور بل کھاتی ہوئی گتھیاں سلجھاتے ہیں۔ جن دواؤں میں فائدہ نظر آتا ہے وہ اکثر محلول میں حل نہیں ہوپاتیں۔ مشکل سے حل ہونے والے مالیکیولز کے فوائد مریضوں تک پہنچانے کےلیے منفرد تکنیک استعمال کرکے دوا کو جسم کے اس حصے تک پہنچایا جاتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہو۔ ایک سے ایک حیرت انگیز تکنیک صنعت کی پیچیدگی کو کم کرنے، ترقی کو تیز کرنے اور مریضوں کو اس کا فائدہ پہنچانے کے درپے ہے۔

تحقیقی ادارے ہوں یا سائنس دان کی لگن یا حکومتی اداروں کی ترجیحات، سب کی سب مریض اور اس کے درد کے گرد گھومتی ہیں۔ ادویہ سازی کی صنعت نے گزشتہ دو دہائیوں میں نمایاں عالمگیریت کا بھی تجربہ کیا ہے۔ اگرچہ ایجادات کا مرکز شمالی امریکا ہے مگر وقت اور لاگت پر براعظم ایشیا خصوصی اور دیگر ممالک امتیاز رکھتے ہیں۔ یہ امتیاز ان ممالک کی معیشتی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔

پچھلی دہائی میں جدید بائیو فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی طرف سے تیار کی جانے والی ادویہ کی نوعیت میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ بہت سی بیماریاں خصوصاً موروثی جس کے مریض بہت کم ہیں، ان بیماریوں کے علاج میں دلچسپی کا فقدان ایک فطری عمل ہے کیونکہ اس کی تجارت میں منافع کے امکانات محدود ہوتے ہیں۔ ان یتیم بیماریوں کے علاج میں اضافے کی کوشش اور مخصوص مریضوں کےلیے مخصوص ادویہ بنانے کی کوشش میں توسیع قابلِ ستائش ہے۔ بالخصوص بڑے حیاتیاتی مالیکیولز کی طرف پھیلتا ہوا رجحان قابل قدر بائیولوجیکل پروڈکٹس بنا رہا ہے۔ گو کہ اس کی پیداوار محدود اور مینوفیکچرنگ کے انتہائی مخصوص تقاضے ہیں مگر حالات کی نزاکت ٹیکنالوجی کے غیر مثالی ارتقا کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ معیشت کو بھرپور فائدہ پہنچانے کی ضامن اور بے بس مریضوں کےلیے امید ہے۔

نئے ڈرگ ڈیلیوری سسٹم میں نظر نہ آنے والے انتہائی چھوٹے ذرات میں سوراخ اتنے بڑے رکھے جاتے ہیں کہ یہ اپنے اہداف تک پہنچ کر ان سوراخوں سے دوا کو مخصوص جگہ پر پہنچا سکیں۔ اس طرح کی تگ و دو تیزی سے آگے کی طرف رواں دواں ہے۔ ایٹمی سطح پر جوڑ توڑ کی کوشش جیسے کینسر کے خلیات کو تباہ کرنے کےلیے نینوشیلز کے استعمال کا کامیاب تجربہ کیا جارہا ہے۔ اسٹیم سیلز کی لیبارٹری میں نشوونما کی جارہی ہے اور بیمار ٹشوز کو اس سے تبدیل کرنے کی کوشش میں تجربات جاری ہیں۔ عیب دار جین کو نئے جین سے تبدیل کرنا سائنس دانوں کی آج بھی دلچسپی مرکوز کیے ہوئے ہے۔

کیا، کیوں، کیسے، کتنا، کس طرح، کب اور کن حالات میں؟ ان سوالات سے ادویاتی علوم کا تعلق گہرا سے گہرا ہے۔ دوائیں کیوں اور کب بےاثر ہوجاتی ہیں، دوائیں کیوں اور کب نقصان پہنچا دیتی ہیں، امیدوں کے بادل پر یقین کتنا، اندیشۂ خطرات کے پہروں پر اعتبار کتنا، سیلاب اور طوفان میں جھاگ کتنا اور غبار کتنا؟ ان سب سوالات اور خدشات کے جوابات کےلیے ریاضی اور شماریات کے اصول، حیاتیاتی انفرادیت سے بغلگیر ہوکر منزلوں کا تعین کررہے ہیں۔ انسانی ذہن بھرپور جتن سے ادویاتی دنیا کو ایک نیا رنگ دے رہا ہے۔

بھیانک سچائی یہ ہے کہ جوں جوں سائنس ترقی کررہی ہے، اسی رفتار سے ٹھہری ہوئی قوم پیچھے کی طرف سرک رہی ہے۔ فاصلہ رفتار کے فرق سے آگے نہیں بڑھ رہا بلکہ ہمارا اور بیرونی دنیا کا اس موضوع پر فرق اب بے قابو ہوچکا ہے۔ سائنس کی زبان کسی رنگ، قبیلے اور جغرافیہ کی محتاج نہیں۔ یہ فطرت میں پیوستہ وجوہات سے ترتیب پاتی ہے جس کی عکاس جابجا اپنی جگہ بناتی نظر آتی ہے۔ حقیقی دنیا میں باعزت رہنے کےلیے ہمیں سائنس کے اصولوں کو مقدم جاننا پڑے گا تاکہ عالمی خوشحالی میں ہماری قومی شراکت داری ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر عبید علی

ڈاکٹر عبید علی

ڈاکٹر عبید علی ایک معروف فارماسسٹ ہیں جو اس میدان میں 25 سال کا بھرپور تجربہ رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔