ناگہانی آفتوں کا ذمے دار انسان خود ہے

جاوید نذیر  منگل 13 ستمبر 2022
انسانوں نے قدرتی ماحول کو بری طرح خراب کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

انسانوں نے قدرتی ماحول کو بری طرح خراب کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

جب سے دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچائی ہے ہر طرف ایک بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کیا ان ناگہانی آفات کا ذمے دار آج کا انسان خود ہے؟ کیونکہ انسان نے ہی قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں کو تباہ کرنا شروع کیا تو ناگہانی آفات کی صورت میں اسے ان کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان میں مون سون کی حالیہ بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب نے ملک بھر میں 216 سے زیادہ اضلاع کو بری طرح تباہ کیا ہے۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بہت زیادہ تباہی ہوئی جبکہ پنجاب میں اس کی شدت نسبتاً کم رہی ہے لیکن یہاں بھی ہلاکت خیزی اور متاثرین کی تعداد کم نہیں ہے۔ 2022 کے اس سیلاب کو 2010 سے بڑا سیلاب قرار دیا جارہا ہے کیونکہ 2010 کے سیلاب میں ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں ایک کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہوئے تھے جبکہ رواں سال سیلاب میں تین کروڑ سے زائد لوگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ جن میں انسانی جانوں کی ہلاکتوں کے ساتھ ان کے گھر بار، مال مویشی اور فصلوں کو نقصان ہوا ہے۔ سندھ کی 90 فیصد فصلیں بری طرح تباہ ہوچکی ہیں۔

آج دنیا اس بات پر نوحہ کناں ہے کہ انسان نے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر جنگلوں کو بری طرح تباہ کیا ہے۔ انسان نے دریاؤں کے ان حصوں پر آبادیاں بنا لیں جہاں ان دریاؤں کا اضافی پانی کھڑا ہوتا تھا۔ نتیجے میں وہ اضافی پانی آبادیوں کا رخ کرنے لگا۔ سندھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جن راستوں سے دریا کا پانی سمندر میں جاتا تھا ان راستوں پر قبضہ مافیا نے رہائشی کالونیاں بنالیں، جس کی وجہ سے آج سندھ میں عام انسانوں کو قدرت کے اس قہر کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہم نے ماحول کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔

صاف پانی کے میسر نہ ہونے کا مسئلہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے انسان بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہے اور انسان کی طبعی عمر بھی کم ہوچکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ انسان نے سیوریج کے پانی کو فصلوں اور سبزیوں کو سیراب کرنے کےلیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے، اس لیے ملک میں ہر تیسرا شخص پیٹ کی بیماریوں کے عارضے میں مبتلا ہے۔ انسانوں کی کمزور صحت اور پیلی آنکھیں ہونا معمولی بات ہے۔ تشویشناک بات یہ کہ پیدا ہونے والوں بچوں میں یہ بیماریاں کثرت سے نظر آتی ہیں۔

انسان نے اپنے ندی نالوں، نہروں، دریاؤں اور سمندر کو ہی آلودہ نہیں کیا بلکہ اُس نے اپنی فضا کو بھی اس قدر آلودہ کردیا ہے کہ لگتا ہے موسمیاتی تبدیلیوں، بارشوں، سخت گرمی اور سخت سردی کے ذریعے قدرت انسانوں سے انتقام لے رہی ہے اور انسان ہے کہ اپنی روش کو بدلنے کےلیے تیار ہی نہیں۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ جنگلوں، باغات، زرعی زمینوں اور چراگاہوں کو ختم کرکے رہائشی کالونیاں بنادی جاتی ہیں اور پھر ان ہی کالونیوں پر شجرکاری مہم کے بورڈ آوایزاں کردیے جاتے ہیں۔ رہائشی کالونیوں کےلیے لگتا ہے کہ گویا کوئی قانون ہی نہیں ہے۔ ملک میں اتنی بنجر زمینیں پڑی ہیں لیکن ان پر رہائشی کالونی بنانے کا خیال کبھی کسی کو نہیں آیا بلکہ زمین کے ان ٹکڑوں کو ہی برباد کیا گیا ہے جہاں جنگل اور کھیت کھلیان تھے۔

ملک بھر میں صنعتیں، کارخانے، چمڑے کے کارخانے اور ٹینریز کام کررہی ہیں اور ان کےلیے قانون موجود ہے کہ انہوں نے اپنے کارخانوں کا کچرا اور گندے پانی کےلیے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا ہے۔ لیکن ملک بھر میں آپ دیکھیں کہ اس سیکٹر سے جڑے کتنے فیصد سرمایہ داروں نے اس پر عملدرآمد کیا ہے؟ یہ تو کبھی انٹرنیشنل پریشر ہو یا ان کا مال خریدنے کےلیے عالمی سطح پر اُن پر کوئی دبائو نہ ہو تو جو تھوڑا بہت اس پر عمل کرتے ہیں وہ بھی نہ کریں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ ملک بھر میں صاف پانی گندے پانی میں تبدیل ہوگیا اور اب حالت یہ ہے کہ صاف پانی ملنا مشکل ہوگیا ہے اور صاف پانی کے نہ ہونے سے بیماریوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ناگہانی آفتوں خصوصاً بارشوں کا سامنا ہمیں ہر سال کرنا پڑتا ہے لیکن جہاں حکومتی سطح پر خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے وہاں عوام کی تیاری بھی سست روی کا شکار ہوتی ہے۔ حکومت کے قائم کردہ ادارے این ڈی ایم اے اور صوبائی اداروں نے اپنی سی کوشش ضرور کی لیکن محدود وسائل کی وجہ سے ہر متاثرہ شخص تک رسائی شاید ان کےلیے ممکن نہیں۔ ناگہانی آفات میں فو ج کا کردار ہمیشہ ہی قابل تحسین رہا ہے اور اس کے ساتھ پولیس، ریسکیو اور فلاحی و رفاہی تنظیمیں بھی اپنے وسائل سے بڑھ کر کام کررہی ہیں۔ ملک بھر میں سیلاب زدگان کےلیے کیمپس نظر آرہے ہیں اور لوگ اپنی بساط کے مطابق مدد بھی کررہے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی دنیا پاکستان کی مدد کرنے کےلیے کوشاں ہے۔ یو این او نے دنیا بھر میں پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کرنے کےلیے اپیل کی ہے۔ ایک خبر کے مطابق حکومت نے ناگہانی آفات میں کام کرنے والے انٹرنیشنل ڈونرز کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی ہے اور یہ ایک اچھا قدم ہے کیونکہ 2010 کے سیلاب کے وقت ملک بھر میں رجسٹرڈ این جی او ز نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے خاصا کام کیا تھا۔ عام مشاہدہ ہے کہ پوری دنیا میں ناگہانی آفات کے متاثرین کو حکومتوں کے ساتھ ساتھ این جی اوز کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ برس پہلے ایسا ہی تھا اور تاریخ گواہ ہے کہ 2005 کا زلزلہ ہو یا 2010 کا سیلاب، این جی اوز نے متاثرین کی بحالی میں بہت کام کیا تھا لیکن اب ان پر جو قدغن لگائی ہے اس کی وجہ سے این جی اوز کا کام محدود ہوگیا ہے۔ حکومت کو این جی اوز کی ماضی کی کارکردگی دیکھتے ہوئے انہیں فوری طور پر کام کرنے کی اجازت دینی چاہیے تاکہ رواں سال کے سیلاب متاثرین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف مل سکے۔

مصیبت کی اس گھڑی میں ہم سب کو تمام امتیازات بالائے طاق رکھ کر صرف انسانیت کو بچانے کی کوشش کرنی ہے۔ اپنے رویوں میں تبدیلی لائیے۔ فطرت سے پیار کیجئے اور قدرتی ماحول بگاڑنے کے بجائے خوبصورت بنانے میں ہر ممکن اقدام کیجئے۔ اسکولوں میں ابتدائی کلاسوں سے ہائی کلاسوں تک ماحول سے متعلق طلبا کو آگاہ کیا جائے اور ماحول کو خوبصورت بنانے میں عملی مشقیں کروائی جائیں۔ جس طرح ماضی میں این سی سی کی ٹریننگ اسکولوں اور کالجوں میں دی جاتی تھی بالکل اسی طرح ناگہانی آفات سے بچاؤ (ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن DRR) کی ٹریننگ شروع کروائی جائیں۔ ان علاقوں میں جہاں متواتر سیلاب آتا ہے وہاں کے نوجوانوں کےلیے خصوصی طور پر اس ٹریننگ کا بندوبست کیا جائے۔ ان علاقوں میں محفوظ مقامات کے متعلق لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ ناگہانی آفات کی صورت میں آپ نے کس محفوظ مقام پر جانا ہے۔ آفات سے لوگوں کو باخبر رکھنے کےلیے ’’الارم سسٹم‘‘ ہو جس سے ان علاقوں کے لوگ فوری طور پر باخبر ہوجائیں۔ جن علاقوں میں مسلسل سیلاب آتا ہے وہاں پر آبادکاری کو روکنے کےلیے سخت اقدامات کیے جائیں اور وہاں کی آبادی کےلیے مقامی حکومت متبادل جگہ کا بندوبست کرے۔

یاد رہے کہ دنیا بھر کے سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ انسان نے جس بری طرح قدرتی ماحول کو خراب کیا ہے اس کو ٹھیک کرنے میں بہت وقت لگے گا اور اس دوران انسان کو ناگہانی آفتوں جیسے شدید بارش، طوفانوں، سخت گرمی اور سخت سردی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا اس صورتحال سے بچنے کےلیے انسان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کےلیے ابھی سے ہی تیاری شروع کرنا ہوگی، ورنہ یہ صورتحال جو ابھی ملک کے دیہی علاقوں تک دیکھ رہے ہیں اس کو شہری علاقوں تک آنے سے انسان روک نہیں سکیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔