عصرِ حاضر میں مسلمانوں کی عملی پوزیشن

ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف  بدھ 14 ستمبر 2022
آج ہم نئی تحقیق کے بجائے مسلم سائنسدانوں کے حوالے دے کر خوش ہوجاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

آج ہم نئی تحقیق کے بجائے مسلم سائنسدانوں کے حوالے دے کر خوش ہوجاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ایک وقت تھا جب آدھی سے زیادہ دنیا پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ انھوں نے اپنے عمل (علم و اخلاق) سے دنیا کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں صرف فتوحات ہی حاصل نہیں کیں، بلکہ دوسرے ایسے اصلاحی کام بھی کیے جنھیں آج بھی کسی نہ کسی صورت میں غیر قومیں اپنائی ہوئی ہیں۔

ایک وقت تھا جب خلافتِ عباسیہ میں بغداد علم و نور کا مینار تھا۔ یہاں مامون نے بیت الحکمت کی صورت میں ایک ایسا ادارہ (اصل میں تو کتب خانہ تھا، لیکن اس میں جو کام ہوا وہ اداروں سے بڑھ کر ہوا) قائم کیا جس میں بیک وقت کتابوں کے ترجمے، تحقیقی اور سائنسی ایجادات سے متعلق کام ہوا کرتے تھے۔ بغداد اس زمانے میں دنیا بھر کے لوگوں کےلیے علم و دانش کا مرجع تھا۔ آج جیسے لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کےلیے فخر کے ساتھ یورپ جانا پسند کرتے ہیں، بالکل اسی طرح اس دور میں یہی حیثیت بغداد کی تھی۔ اسی طرح سمرقند و بخارا بھی ایک وقت میں مسلمانوں کے علم و ادب کے مرکز کے طور پر جانے جاتے تھے۔

ایجادات

اپنے دورِ زریں میں مسلمانوں نے سائنس کی دنیا میں نہ صرف انقلاب برپا کیا بلکہ لوگوں کےلیے سوچ کا ایک نیا زاویہ دے دیا۔ یہاں چند مثالیں پیش ہیں۔
ابوالقاسم خلف بن عباس الزاہراوی (متوفی 1013): مسلم سائنس داں ابوالقاسم خلف بن عباس الزہراوی نے دنیا کو پہلی بار اس بات سے متعارف کروایا کہ علاج کےلیے انسانی جسم کی سرجری کی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے ان کی مشہور تصنیف ’التصریف لمن عجز عن التالیف‘ کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے اور ایک عرصے تک ان کی کتاب بہت سے ممالک کے نصاب میں شامل رہی۔

الخوارزمی (متوفی 850): الخوارزمی جنھیں الجبرا کا بانی کہا جاتا ہے، بیت الحکمت سے منسلک ایک معروف اسکالر تھے۔ بی بی سی اردو کے مطابق، ان کی زندگی کے بارے میں معلومات کم ملتی ہے، لیکن یہ ضرور ہے وہ خلیفہ مامون کےلیے بیت الحکمت میں کام کرتے تھے۔

جابر بن حیان (متوفی 815): جنھیں پہلا کیمیا دان کہا جاتا ہے۔ اہلِ مغرب انھیں Geber کے نام سے جانتے ہیں۔ اُن کی مشہور کتاب ’الکیمیا‘ کا لاطینی زبان سمیت مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔

ان کے علاوہ مسلمانوں نے جو اہم ایجادات کیں ان میں گھڑی، علمِ فلکیات و ارضیات، کیمرہ، نزولِ چھتری (پیراشوٹ)، دوربین اور دوسری اشیا شامل ہیں۔
یہ سب ایجادات اگرچہ مسلمانوں کی ہیں اور ہمیں اس پر فخر بھی کرنا چاہیے، لیکن آخر کب تک؟ سوال یہ ہے کہ اس وقت مسلمان، دنیا میں تقریباً دو ارب ہیں، ان کا بنی نوع انسانوں کےلیے کیا کردار ہے؟ انھوں نے عصرِ حاضر میں کیا کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو انسانیت کےلیے نفع بخش ہو؟ جواب ہوگا نہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی عملی پوزیشن کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہوگا کہ غیر مسلموں کو ’حتمی جہنمی‘ کہنے کے سوا کچھ نہیں۔

دوسری طرف مغرب، جس نے ماضی میں کی گئی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور آج علم کی دنیا میں مستقل آگے جارہا ہے۔ وہاں سے ہر روز نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں۔ ایک طرف مغرب تحقیق کے کاموں میں مصروف، تو دوسری طرف ہم ابھی تک ماضی (کارناموں) کی مثالیں دے دے کر تھکنے کے بجائے خوش ہورہے ہیں۔ ہم یہ کہنے پر حق بجانب ہیں کہ علم کی دنیا میں ہم، اہلِ مغرب سے کم از کم سو سال پیچھے ہیں۔

وجوہات

اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم مسلسل پستی کی جانب گامزن ہیں، انھیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سیاسی اختلافات: سیاسی اختلافات اس حد تک ہیں کہ مخالفت میں سیاسی لیڈران قتل تک کردیے جاتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئیں (اموی، عباسی، فاطمی اور دوسری حکومتیں) ان سب کو ختم کرنے میں کسی غیر نے نہیں بلکہ اپنے چھپے آستینوں کے سانپوں نے مروا دیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔

مذہبی اختلافات: سب سے اہم مسئلہ اس امت کا یہی ہے کہ ہم مخالف مسلک کو مسلمان (سب جگہ ایسا نہیں ہے، لیکن اکثر ایسا ہی ہے) ہی نہیں مانتے۔ جس کی وجہ سے مسائل مستقل بگڑتے چلے جارہے ہیں اور ہم کم زور ہوتے چلے جارہے ہیں۔

تعلیمی اختلافات: ابھی تک مسلم دنیا کوئی ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف نہیں کراسکی جہاں دینی و دنیاوی تعلیم ایک ساتھ ہوسکے۔ (ماضی میں کسی مسلم شخصیت کے بارے میں پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین کا عالم ہونے کے ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت رکھتا تھا)۔

تحقیق سے دوری: تحقیق ہر روز علم کے نت نئے دروازے کھولتی ہے۔ ہمارے یہاں تحقیق ماضی میں کیے گئے کاموں (ہم نے یہ کیا، اس کا حوالہ یہ ہے، ہم نے وہ کیا، اس کا حوالہ یہ ہے) پر ہورہی ہے۔ کوئی نیا کام نظر نہیں آرہا، جس پر یہ کہا جاسکے کہ واقعی یہ معیاری کام اور معیاری تحقیق ہے۔

تجاویز

سیاسی اتحاد: سیاسی اختلافات ضرور کیجیے، لیکن یہ اختلافات مثبت تنقید کی صورت میں ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ اس سے مسلم دنیا نہ صرف قریب آئے گی بلکہ آگے بھی بڑھے گی۔

مذہبی اختلاف کے بجائے مذہبی مودت: مذہبی اختلافات کی اصطلاح کو اگر ’مذہبی مودت‘ کرلیا جائے تو جو اتحادِ ملت قائم ہوگا وہ شاید دنیا کےلیے کسی کامیابی سے کم نہ ہوگا۔

ایک تعلیمی نظام: مسلم دنیا کو چاہیے کہ ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف کرائے جہاں دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی باقاعدہ تعلیم دی جائے۔

بیت الحکمت کی طرز پر ادارے کا قیام: بیت الحکمت کی طرز پر ایک ایساادارہ بنایا جائے جس میں سائنسی علوم پر تحقیق کی جائے۔

نئی سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے: موجودہ دنیا سائنسی دنیا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں ایک چھوٹا سا بچہ سائنس کی نہ صرف بنیادی معلومات رکھتا ہے بلکہ عملی تجربات بھی کرتا رہتا ہے۔ اس موقع پر اس کے سوالات (خاص کر مذہبی) کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے دلائل (ایسے دلائل جو اس کی عمر کی مناسبت سے ہوں) سے جوابات دیے جائیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو تنقیدی نگاہ رکھتے ہیں ان کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ علم کے دریچے مزید کھلتے چلے جائیں۔

تحقیقی کام کرنے والوں کو فکرِ معاش سے آزاد کیا جائے: انسان کا پیٹ ساتھ لگا ہے، معاشی سکون حاصل ہونے کے بعد انسان کی سوچ میں وسعت آتی ہے، لیکن اگر اس کی سوچ دن بھر یہ ہی رہے کہ میں کماؤں گا کیسے؟ میرے بچوں کی کفالت کون کرے گا؟ وغیرہ، تو اس صورت میں اس کی سوچ صرف پیٹ تک محدود رہے گی۔ تحقیقی کام کرنے والوں کو معاش کی فکر سے آزاد کیا جائے تاکہ وہ کھل کر اپنے کام میں طاق ہوسکیں۔

سرکاری وسائل تعلیم پر خرچ کیے جائیں: امتِ مسلمہ اپنے وسائل کو مختلف چیزوں پر استعمال کررہی ہے اور یہ تجارت کےلیے بہت اچھا بھی ہے، لیکن ساتھ ہی اگر ان وسائل کا بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کرے گی تو یہ تجارت خود بخود بہتر ہوتی چلی جائے گی۔ اسی طرح سرحدوں کی حفاظت بہت ضروری ہے، خاص کر اس حوالے سے مسلم دنیا سرحدوں کی حفاظت کےلیے بجٹ کا ایک بڑا حصہ اسی مقصد کےلیے مختص کرتی ہے۔ بجٹ میں تعلیم کو پہلی ترجیح دیں گے تو تعلیمی ادارے بنتے جائیں گے اور سرحدیں خودبخود مضبوط ہوتی چلی جائیں گی۔

مسلم دنیا کو اس وقت صرف ایک ہوکر چلنا ہے۔ اگر یہ ایک ہوگئے تو دنیا میں نیا انقلاب برپا ہوجائےگا۔ اللہ تعالیٰ سے ناامید بالکل نہیں۔ ہم اسی امید میں ہیں کہ کوئی تو آئے گا جو سیاسی، مذہبی اور مسلکی اختلافات سے بالائے طاق ہوکر مسلم دنیا کو ایک صفحے پر لانے کےلیے کوئی اقدام کرے گا۔ یہ امید لگانے کے بجائے اصلاح کا عمل خود انفرادی طور پر شروع کیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف

ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف

بلاگر پی ایچ ڈی اسلامیات ہیں اور گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی FB/zohaib.zaibi.77 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔