سیاست اب اتنی بے رحم کیوں؟

محمد سعید آرائیں  منگل 13 ستمبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

وفاقی حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک کا ایک بڑا حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے ، لاکھوں متاثرین بے گھر کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار امداد کے منتظر ، فصلیں تباہ ، تاحد نگاہ پانی ہی پانی، بیماریوں کے ہر طرف ڈیرے ، بلکتے بچے ہر طرف آہ و بکا ، خوراک اور دوائیں فراہم کرنے کی اپیلیں اور بے حسی کے غیر انسانی رویے ہیں تو دوسری طرف عمران خان کے جلسے جن پر روزانہ پچیس تیس کروڑ روپے کے اخراجات پر سیاست درندگی کیوں بنا دی گئی ہے جس پر انسانیت بھی شرم سار ہی ہے یہ وہی سیاست ہے جسے ماضی میں عبادت اور عوام کی خدمت کا ذریعہ کہا جاتا تھا۔

عمران خان جب کھیل کی دنیا سے سیاست میں آئے تھے تو ان کا موقف تھا کہ کھیل میں مخالف کھلاڑی کے لیے رحم کا جذبہ نہیں ہوتا ، اگر کھیلوں میں رحم کا جذبہ غالب آ جائے تو کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ عمران خان اپنے اسی نظریے کی بنیاد پر سیاست میں آئے اور اقتدار ملنے سے قبل کی سیاسی زندگی میں 22سال تک اسی نظرئیے کے تحت سیاست کرتے رہے۔

انھوں نے سیاست میں آ کر اپنے سیاسی مخالفین کے لیے اپنے دل سے رحم ختم کردیا اور اپنے ہر مخالف سیاستدان کو اپنا دشمن قرار دیا جب تک وہ عمران خان کا مخالف رہا اور عمران خان سے نہیں ملا۔ جب تک شیخ رشید عمران خان کے مخالف رہے وہ بھی شریفوں اور آصف زرداری کی طرح مخالف قرار پائے۔

شیخ رشید بھی عمران خان کے لیے منفی خیالات رکھتے تھے اور انھیں سیاست کے لیے نااہل سمجھتے تھے مگر بعد میں (ق) لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف واپس نہ آئے اور انھوں نے جنرل پرویز کے ساتھیوں کے لیے (ن) لیگ کے دروازے کھولے مگر شیخ رشید کو قبول نہ کیا تو انھوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی عوامی مسلم لیگ بنائی جو عوام نے مسترد کردی اور نواز شریف مخالف سیاست شروع کی تو انھیں عمران خان کی توجہ ملنا شروع ہوئی تو وہ اپنی چرب زبانی اور نواز شریف مخالف تقاریر کے باعث عمران خان کے قریب آتے گئے اور پھر ان کی ضرورت بن گئے کیونکہ وہ نواز شریف کے بہت قریب تھے اور انھوں نے راولپنڈی کی دونوں نشستیں جیت کر نواز شریف کے قدموں میں پیش کرنے کا اعلان بھی کیا تھا مگر شریفوں نے انھیں لفٹ نہ دی تو وہ عمران خان کی پناہ میں آگئے اور جب سے نواز شریف کے خلاف بے سروپا تقاریر اور بیانات کے باعث عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ عمران خان کی سیاست کے زبردست حامی اور ن لیگ کے خلاف تقاریر ان کا مشغلہ بن چکی ہیں جو عمران خان کو بہت پسند ہیں۔

شیخ رشید کی سیاست فواد چوہدری نے اختیار کی اور پی ٹی آئی حکومت کے بعد بے اپنے بیانات میں انھوں نے شیخ رشید کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اور اصول پرست اچھی شہرت کے حامل ممتاز قانون دان حامد خان حال ہی میں دو بار فواد چوہدری کا نشانہ بن چکے ہیں۔

فواد چوہدری کی اس سیاست کو پی ٹی آئی میں پسند نہیں کیا گیا مگر عمران خان کو فواد چوہدری کی بے رحم منفی سیاست پسند ہے اور انھوں نے اپنے بانی ساتھی حامد خان پر فواد چوہدری کو ترجیح دے رکھی ہے۔عمران خان کھیل کی طرح سیاست میں اپنے مخالفین کے لیے رحم کا جذبہ رکھنے پر یقین ہی نہیں رکھتے اور 26 سال قبل انھوں نے بے حس اور مفاد پرستی کی جس سیاست کی بنیاد رکھی تھی وہ آج انتہا پر پہنچ چکی ہے اور ان کی نفرت کی سیاست عروج پر ہے۔ عمران خان کی سیاست میں نفرت، الزام تراشیاں اور اپنے مخالفین کے ساتھ نہ بیٹھنا ان کا پہلا اصول جب تک وہ عمران خان کی حمایت نہ کرنے لگیں۔

عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف سے اپنے کینسر اسپتال اور گھر کے لیے پلاٹ لیے تھے اور وہ نواز شریف کو پسند کرتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کو انھوں نے جنرل پرویز مشرف کی مخالفت میں صدارتی ووٹ دیا تھا اب وہ انھیں مولانا نہیں مانتے ہیں۔

عمران خان نے وزیر اعظم بننے کی امید میں پہلے جنرل مشرف کا ریفرنڈم میں ساتھ دیا مگر وزیر اعظم نہ بنائے جانے پر وہ جنرل پرویز مشرف کے مخالف ہوگئے۔عمران خان کی بے رحمانہ سیاست کی تقلید کرنے والے سعودیہ میں سزائیں بھگت رہے ہیں اور عمران خان نے ان کے لیے آواز تک نہیں اٹھائی۔ یہ کیسی بے رحمانہ سیاست ہے جو ملک میں پروان چڑھ چکی ہے۔ وہ اصول پرستی کہاں گئی جو سیاست میں اعلیٰ مقام رکھتی تھی جس میں رحم، خلوص، محبت اور ایک دوسرے کا احترام تھا جو اب سب ختم ہو چکا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔