سیلاب اور سیاست

شکیل فاروقی  منگل 13 ستمبر 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے حیرت انگیز ترقی کرلی ہے لیکن اس کے باوجود تباہ کن طوفانوں اور زلزلوں کی مکمل زد سے بچنا اب بھی ممکن نہیں ہے تاہم اِس تباہی اور بربادی سے کم سے کم متاثر ہونے کے لیے پیشگی اقدامات ضروری ہیں۔

وطن عزیز میں حالیہ طوفانی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں نے غفلت اور نااہلی کے مرتکب ہونے والے اداروں کی قلعی کھول دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ غیر ذمے داری کے مرتکب ہونے والوں کے خلاف کب اور کیا ایکشن لیا جاتا ہے؟

اس مرتبہ ہونے والی تباہی اور بربادی 2005 کے خوفناک زلزلے اور 2010 کے سیلاب کے مقابلہ میں کئی گُنا زیادہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق حالیہ طوفانی بارشوں کے نتیجہ میں آنے والے سیلاب سے تین کروڑ تیس لاکھ سے بھی زیادہ افراد تباہی کا شکار ہوئے ہیں۔سیلابی ریلے میں عمارتیں، کھیت اور کھلیان سازوسامان سمیت سب کچھ بہہ گیا۔

سب سے بڑا نقصان انسانی جانوں کی ہلاکت کی صورت میں ہوا جس کی نہ کوئی تلافی ممکن ہے اور نہ مداوا۔اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ چند بھائی گھنٹوں تک مدد کے لیے پکارتے رہے اور کوئی اُن کو بچانے کے لیے نہیں پہنچا اور وہ نذرِ آب ہوگئے۔سرکاری ہیلی کاپٹر جن کا استعمال اربابِ اختیار بے دھڑک آزادانہ استعمال کرتے ہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد بارہ سو کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جس میں معصوم بچے بھی شامل ہیں۔اس طوفانِ بلا خیز نے نہ صرف خاصی بڑی تعداد میں لوگوں کو قلاش اور بیروزگار کردیا بلکہ سیکڑوںاسکولوں کو بھی مسمار کردیا۔

سیلاب مسلسل، خراب موسم، ٹرانسپورٹ اور انفرااسٹرکچر کی بربادی کی وجہ سے امدادی کاموں میں شدید رکاوٹیں پیش آئیں جن کے نتیجہ میں بچاؤ کا کام مشکل سے مشکل تر ہوگیا۔تباہی اور بربادی کے مناظر کو دیکھنے والوں کے کلیجے پھٹ گئے۔تقریباً پانچ لاکھ سیلاب زدگان کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور اُس وقت کا انتظار کررہے ہیں جب صورتحال اس درجہ معمول پر آئے گی کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔اِس کام میں کتنا وقت لگے گا یہ کہنا ابھی ممکن نہیں کیونکہ ہمارے اداروں کی کارکردگی اور سُست روی سے پورا ملک اور عوام بخوبی واقف ہیں۔ بقول غالبؔ:

آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زُلف کے سَر ہونے تک

سن دوہزار پانچ کے زلزلے کے متاثرین کی دوبارہ آبادکاری کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔ یہی صورتحال 2010 کے سیلاب زدگان کی از سرِ نو آبادکاری کی ہے۔شروع شروع میں بڑے بڑے وعدوں اور دعوؤں کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے سب کچھ بھُلا دیا جاتا ہے اور پھر ہوتا یہ ہے کہ بیچارے متاثرین رو پیٹ کر تھک ہارتے ہیں اور نوبت یہ ہوتی ہے کہ:

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

ایک اندازے کے مطابق اِس تباہی و بربادی کی معاشی قیمت دس بلین کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔موسلادھار بارشوں نے سب سے زیادہ تباہی صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ میں مچائی جس کے آگے حکومتِ وقت بالکل بے بس نظر آئی،اگرچہ محکمہ موسمیات نے بہت پہلے پیشینگو ئی کرکے اپنا فرض ادا کردیا تھا لیکن متعلقہ محکموں کی روایتی لاپرواہی کے باعث مطلوبہ انتظامات کی عدم موجودگی کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانہ پر تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔

اپنی نااہلی تسلیم کرنے کے بجائے اب حکومت کی جانب سے اپنے بچاؤ کے لیے حیلے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں تاکہ اپنی مجرمانہ کوتاہی اور نااہلی کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈا جاسکے لیکن میڈیا نے بھی عوام کے سامنے اصل تصویر پیش کرکے کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔انسان دوستی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ آزمائش کی اِس گھڑی میں تمام اختلافات کو بھُلا کر اور سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر اِس قدرتی آفت کی زد میں آنے والے لوگوں کے بچاؤ کی خاطر کندھے سے کندھا ملا کر کام کیا جائے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک سیاستدان نے حکومت کی جانب سے پیش کی گئی زیتون کی شاخ کو تھامنے سے انکار کردیا اور اپنے جلسے جلوسوں کو جاری رکھا۔

قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ موصوف سے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنے کی توقع تھی کیونکہ انھوں نے کھیل کے میدان میں شہرت حاصل کرکے ہی سیاست کے میدان میں قدم رکھا ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ انھوں نے صرف اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سمندر پار مصروفِ کار ہم وطنوں سے یہ بھی کہا کہ وہ وفاقی حکومت کی اپیل کے جواب میں امدادی رقوم بھیجنے سے بھی اجتناب کریں۔

ہمیشہ کی طرح ملک و قوم کو درپیش ہنگامی صورتحال میں افواج پاکستان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور پیش پیش رہیں خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہوتا تو حالات قابو سے باہر ہوجاتے۔یہ امر بھی لائق تحسین ہے کہ صاحبان ثروت اور درد مند لوگوں نے مصیبت میں گھرے ہوئے انسانوں کی مدد میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اور اقبالؔ کے اِس شعر کی بھرپور تائید کی:

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کم نہ تھے کروبیاں

مختلف فلاحی اداروں اور تنظیموں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس موقع پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض بے ضمیر گراں فروشوں نے اشیاء ضروریہ سستی کرنے کے بجائے مزید مہنگی کردیں۔اس موقع پر ہمیں وہ جاپانی بڑھیا یاد آرہی ہے جس نے گزشتہ سونامی کے دوران اپنی چیزیں مہنگی کرنے کے بجائے سستی کردی تھیں اور جب کسی شخص نے اُس سے یہ سوال کیا کہ اُس نے ایسا کیوں کیا؟ تو اُس کا سیدھا سادہ جواب یہ تھا کہ  ’’میں یہ سامان ہول سیل میں خرید کر لاتی ہوں اور مصیبت کی اِس گھڑی میں اُس کو بلا منافع قیمت خرید پر فروخت کر دیتی ہوں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔