ماتحت عدلیہ اور توہین عدالت کا قانون

مزمل سہروردی  منگل 13 ستمبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ماتحت عدلیہ کے پاس توہین عدالت کے براہ راست اختیارات نہیں ہیں۔ اس لیے ماتحت عدلیہ کو توہین عدالت کا زیادہ سامناہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کو خاتون جج کی توہین کے مقدمہ میں فرد جرم عائدکرنے کے فیصلہ کے بعد ان کے حامیوں کی جانب سے ایک عجیب مہم شروع کی گئی ہے۔

تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا پر ایسی فوٹیج لگا رہے ہیں جن میں ماتحت عدلیہ کے ججز کو وکلا کی جانب سے توہین کا سامنا رہا ہے۔ ماتحت عدلیہ میں وکلا گردی کے متعدد واقعات ہوتے ہیں۔ ان کی روک تھام ممکن نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے یہ سب فوٹیج نئی نہیں ہیں۔ ہم سب ان کو ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا ماتحت عدلیہ کی توہین کے ماضی کے واقعات عمران خان کی ماتحت عدلیہ کی توہین کو جائز قرار دے سکتے ہیں۔ کیا ماضی کے کسی واقعہ کی بنیاد پر عمران خان کی توہین کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے، اگر ماضی کی توہین کے نتیجے میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو کیا اب بھی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ ماتحت عدلیہ اور ماتحت عدلیہ کی جج کی توہین کو ماضی کے واقعات کے تناظر میں جائز قرار دلوانے کی کوشش کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔ اس طرح تو ماتحت عدلیہ کی توہین کا ایک فری لائسنس مل جائے گا۔ ماتحت عدلیہ کی توہین کوئی جرم ہی نہیں رہے گا اور ماتحت عدلیہ کا احترام ہی ختم ہو جائے گا۔

میں اس بات کا حامی ہوں کہ اگر اعلیٰ عدلیہ کے پاس توہین عدالت کے اختیارات ہیں تو ماتحت عدلیہ کے پاس بھی توہین عدالت کے اختیارات ہونے چاہیے۔ توہین عدالت کے اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے دیکھا ہے کہ افسر شاہی بھی ماتحت عدلیہ کو سنجیدہ نہیں لیتی۔ افسر شاہی کی جانب سے بھی ایک رویہ ہے کہ ماتحت عدلیہ کے احکامات کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔ ان پر عملداری میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ان کو نظر انداز ہی کر دیا جائے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ افسران کو اندازہ ہے کہ ماتحت عدلیہ کا جج انھیں توہین عدالت میں نہ تو بلا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔

اسی طرح وکلا نمایندے بھی ماتحت عدلیہ کا اس طرح احترام نہیں کرتے جیسے اعلیٰ عدلیہ کا کیا جاتا ہے۔ ہم نے ماضی میںبھی دیکھا ہے وکلاء نمایندے ماتحت عدلیہ کے ججز کو نہ صرف ہراساں کرتے ہیں بلکہ ان سے عدالت میں بد تمیزی بھی کرتے ہیں۔ ججز کے خلاف ہڑتال بھی کی جاتی ہے۔ ماتحت عدلیہ کے ججز کی عدالتوں کو تالہ بھی لگا دیا جاتا ہے۔ ان کو عدالت میں بیٹھنے سے روک دیا جاتا ہے۔ بار کے عہدیدار خود کو ماتحت عدلیہ سے اوپر کی کوئی چیز سمجھتے ہیں۔ اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بار کے عہدیداران کو ماتحت عدلیہ میں خصوصی اور غیر معمولی پروٹوکول دیا جائے۔

بار کے صدر کے وکالت نامہ کو خصوصی اہمیت دی جائے۔ اگر کوئی جج بار کے عہدیدار کو اہمیت نہ دے اور قانون کے مطابق سلوک کرے تو اس کی عدالت کا نہ صرف بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اچھا سیشن جج اسے ہی سمجھا جاتا ہے جو بار کے ساتھ ملکر چلے اور معاملات کو خراب ہونے سے بچائے۔ معاملات کی خرابی کو سیشن جج کی نا اہلی بھی سمجھا جانے لگا ہے، جو افسوسناک ہے۔ اس نے ماتحت عدلیہ کو کافی حد تک کمزور کیا ہے۔ وکلا ء کی اسی بالا دستی نے ماتحت عدلیہ میں تاریخ پر تاریخ کا کلچر مضبوط کر دیا ہے۔ اگر تاریخ نہ دی جائے تو وکلا ناراض ہو جاتے ہیں۔

ماتحت عدلیہ نظام انصاف کی بنیاد ہے، اگر بنیاد ہی کمزور ہو گی تو نظام انصاف بھی کمزور ہوگا۔ ٹرائل ماتحت عدلیہ میں ہوتے ہیں۔ جہاں پھنس جاتے ہیں جس کی وجہ سے نظام انصاف کمزور ہے۔ اس لیے اعلیٰ عدلیہ کے ذمے داران کو ماتحت عدلیہ کو مضبوط کرنے کے لیے اصلاحات کرنی چاہیے۔ صرف اعلیٰ عدلیہ کو مضبوط کرنے سے نظام انصاف مضبوط نہیں ہوگا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے ماتحت عدلیہ کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس حوالہ سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

اعلیٰ عدلیہ میں ماتحت عدلیہ سے آنے والے ججز کی تعداد بڑھانی چاہیے۔ ماتحت عدلیہ میں کام کرنے والا جج نہ صرف قانون بلکہ نظام انصاف کی پیچیدگیوں کو بھی زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ براہ راست آنے والے ججز چاہے قانون کو بہتر سمجھتے ہوں لیکن نظام انصاف کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتے۔ انھیں ماتحت عدلیہ کے مسائل کا علم نہیں۔ بلکہ ہم نے دیکھا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں براہ راست آنے والے ججز بھی کہیں نہ کہیں ماتحت عدلیہ کے ججز کو کمتر ہی سمجھتے ہیں۔ اس لیے اعلیٰ عدلیہ میں بھی ماتحت عدلیہ کا احترام کم ہی نظر آتا ہے جو مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ماتحت عدلیہ کے کام میں مداخلت کا بھی شور ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو ماتحت عدلیہ کا اپنے سے زیادہ احترام کرنا چاہیے۔ اسی میں انصاف کی جیت ہے۔

بہر حال اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ماتحت عدلیہ کی ایڈیشنل سیشن جج کی توہین پر کارروائی پاکستان کے عدالتی نظام کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ کیس اس لیے بھی اپنی جگہ منفرد ہے کہ جس جج کی توہین کی گئی وہ خود اس سماعت میں شامل نہیں۔ اس کی جگہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایکشن لیا ہے اور سماعت کر رہا ہے۔ اس لیے اگر جس جج کی توہین کی گئی ہو اور وہ خود بنچ میں شامل نہیں تو بنچ کے ججز پر زیادہ ذمے داری عائد ہوجاتی ہے کیونکہ اس طرح وہ شاید خود معافی کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ انھیں قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہے۔ اس لیے عمران خان کے مقدمہ کا فیصلہ میرٹ پر ہی ہونا چاہیے۔

ماتحت عدلیہ کو توہین عدالت کے اختیارات دینے چاہیے۔ ورنہ اعلیٰ عدلیہ اپنے بھی توہین عدالت کے اختیارات ختم کر دے تا کہ انھیں معلوم ہو سکے کہ اگر توہین عدالت کا اختیار نہ ہو تو لوگ عدالت کا کیا حال کرتے ہیں۔ توہین عدالت کی کارروائی صرف عدالتی احکامات پر عملداری کے لیے یہ ضروری نہیں۔ بلکہ عدالت کا احترام بھی ناگزیر ہے۔ جج کا احترام بھی ناگزیر ہے۔ اگر ملک میں ججز کی توہین کا فری لائسنس دے دیا جائے تو عدالتی نظام کی عزت بھی ختم ہو جائے گی۔ لوگ کھلے عام اپنے خلاف فیصلہ دینے والے ججز کو گالیاں دیں گے۔

کیونکہ یہ کوئی جرم ہی نہیں رہے گا۔ جو لوگ یہ مثالیں دے رہے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک نے یہ قانون ختم کر دیا ہے۔ وہاں جج کے اختیارات بھی جیوری کے پاس چلے گئے ہیں۔ عام آدمی کا مقدمہ بھی عام لوگ ہی سنتے ہیں۔ وہی فیصلہ کرتے ہیں۔ اس لیے وہاں جج کا کردار بھی بہت کم رہ گیا ہے۔ اس لیے وہاں کی مثالیں یہاں لاگو نہیں ہوتیں۔ اس لیے ماتحت عدلیہ کے ججز کی عزت کا بھی خاص خیال کرنا ہوگا۔ اس کو نظر اندازکرنے کے کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔