- ایشیاکپ کے مستقبل کیلئے پی سی بی کی دو رکنی ٹیم آج بحرین روانہ ہوگی
- امریکا کی جنگی مشقیں صورتحال کو ریڈ لائن کی انتہا پرلے جا رہی ہیں، شمالی کوریا
- وزیراعظم نے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے تیسرے یونٹ کا افتتاح کردیا
- عمران خان نے آصف زرداری پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگائے، شرجیل میمن
- پنجاب میں چکی آٹے نے سارے ریکارڈ توڑ دیے، قیمت 165 روپے تک جاپہنچی
- سندھ میں گھریلو صارفین گیس سے کیوں محروم ہیں؟ حکام نے وضاحت پیش کردی
- پی ٹی آئی کے 43 ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
- مکی آرتھر کی عدم موجودگی میں یاسر عرفات کو جُزوقتی ہیڈکوچ بنانے کا فیصلہ
- ایف بی آر کا عوام کے ٹیکسز سے اپنے افسران کو بھاری مراعات دینے کا فیصلہ
- سودی نظام کو فروغ دے کر اللہ و رسولؐ سے جنگ نہیں لڑسکتے، وزیر خزانہ
- پشاور دھماکا؛ پولیس جوانوں کو احتجاج پر نہ اکسائیں، لاشوں پر سیاست نہ کریں، آئی جی کے پی
- ایران کا حالیہ ڈرون حملوں پر اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان
- حفیظ بھی نمائشی میچ میں شرکت کرینگے، مگر بطور کھلاڑی نہیں!
- بابراعظم نے ٹرافیز اور کیپس کیساتھ تصاویر شیئر کردیں
- پی ٹی آئی دور میں تعینات 97 لا افسران کو کام سے روکنے کا نوٹیفکیشن معطل
- پاکستان کو سیکورٹی چیلنجز کا حل تلاش کرنا چاہیے، طالبان حکومت
- مبینہ بیٹی چھپانے پر عمران خان نااہلی کیس میں لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ
- پولیس لائنز دھماکے سے پہلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی
- عوام پر بوجھ بڑھائے بغیر 1500 ارب کی اضافی ٹیکس وصولی ممکن، پاکستان بزنس کونسل
- شہباز گل کیس میں اسپیشل پراسیکیوٹر تعیناتی کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
انسانی آواز سے جسم میں خطرناک امراض کا پتہ چلانے والی ایپ

یہ پروجیکٹ چار سال میں مکمل ہوگا، فوٹو: فائل
واشنگٹن: محققین انسانی آوازوں کا ایک ایسا ڈیٹا بیس بنا رہے ہیں جسے وہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی ٹولز کے ذریعے خطرناک بیماریوں کی تشخیص میں مدد لے سکیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی مالی اعانت سے چلنے والے ایسے پروجیکٹ کا اعلان کیا گیا ہے جس میں انسانی آواز کو کسی ایسی چیز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جسے بیماری کی تشخیص میں بائیو مارکر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ پروجیکٹ چار سال تک چلے گا اور اس دوران نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ 14 ملین ڈالر تک کی فنڈنگ جمع کرسکتی ہے۔ جس کی مدد سے تحقیقی ٹیم ایک ایسی ایپ بنانا شروع کرے گی جو انسانی آواز کے ذریعے نمونیا، آٹزم، ڈپریشن، پارکنسن، الزائمر اور فالج جیسے امراض کی تشخیص کرسکے گی۔
عموی طور پر پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے والے بائیو مارکر خون یا درجہ حرارت ہیں تاہم اب سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انسان کی آواز سے ہی ان کے جسم میں پنپنے والی بیماریوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے اور اسی نکتے پر تحقیق جاری ہے۔
سائنس دانوں کے بقول اگر مذکورہ بالا امراض میں مبتلا افراد کی آوازوں کو ریکارڈ کر کے ایک ڈیٹا بنالیا جائے اور پھر آواز کی فریکوئنسی سے کسی دوسرے مریض کی آواز کا موازنہ کیا جائے تو نتائج حیران کن ہوں گے۔
ویل کارنیل میڈیسن کے انسٹی ٹیوٹ فار کمپیوٹیشنل بائیو میڈیسن کے پروفیسر اور اس پروجیکٹ کے سرکردہ تفتیش کاروں میں سے ایک اولیور ایلیمینٹو کا کہنا ہے کہ “وائس ڈیٹا کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ شاید سب سے سستے قسم کے ڈیٹا میں سے ایک ہے جسے آپ لوگوں سے جمع کر سکتے ہیں یعنی یہ ایک انتہائی قابل رسائی قسم کی معلومات ہے۔
اسی طرح یو ایس ایف ہیلتھ کے ایک اوٹولرینگولوجسٹ اور دوسرے سرکردہ تفتیش کار یائل بینسوسن کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے مطالعے سے تصدیق ہوتی ہے کہ بیماری کی تشخیص میں مدد کے لیے انسانی آواز بھی کارگر ہے تاہم ابھی صرف ابتدا ہے، کافی کام کرنا باقی ہے۔ سب سے بڑا چیلنج ڈیٹا اکٹھا کرنے کے معیارات بنانا ہیں۔
خیال رہے کہ طبی محققین ہی نہیں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں بھی بیماریوں کی تشخیص کے لیے آواز کا استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں جیسے ایمازون جن کے پاس پیٹنٹ ہیں جو الیکسا کا استعمال کرتے ہوئے یہ معلوم کریں گے کہ آیا لوگوں کو جذباتی مسائل ڈپریشن، یا جسمانی امراض جیسے گلے کی سوزش کس حد تک سنگین ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔