مقبولیت کا کامیاب سفر

اطہر قادر حسن  بدھ 14 ستمبر 2022
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

ایک حکومت کو مقبولیت کا درجہ اور حیثیت دینے میں کس کا کتنا حصہ ہے اور آج کی تحریک انصاف اپوزیشن میںکس طرح مقبولیت حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے ،اس کا جواب تو شاید نقادوں کے پاس بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ طاقتیں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں جنھہوں نے عمران خان کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کو اقتدار سے الگ کر کے سہارا دیا ہے۔

معلوم یہ ہوتا ہے اور گمان یہ تھا کہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ایک غیر مقبول حکومت کو اقتدار سے الگ کر کے بے نامی کے گڑھے میں دھکیلا جا رہا ہے اور ایک غیر مقبول حکمران کوعوام میں پذیرائی نہیں مل سکے گی، اسی مفروضے کی بنا پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ عمران خان کی حکومت کو اقتدار سے رخصت کر دیا جائے۔

لیکن عمران خان سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے ایک بیانیہ ترتیب دیا اور اسے مسلسل جلسوں اور اپنے سوشل میڈیا ونگزکے ذریعے عوام کے ذہنوں اور دلوں میں ٹھونس دیا، یہ الگ بحث ہے کہ ان کے اس بیانیے میں کس حد تک صداقت ہے لیکن بہر حال ان کا امریکا مخالف اور امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ سوشل میڈیا صارفین سے ہوتا ہوا عام لوگوں تک پہنچ رہا ہے جس کا اعتراف دبی زبان میںان کے مخالفین بھی کرتے ہیں ۔

ایک عمومی تاثر یہ تھا کہ شہباز شریف کی زیرک اور دانشمندانہ قیادت میںپی ڈی ایم کی حکومت ملکی معیشت کو بہتری کی جانب لے جائے گی لیکن ملک کی معیشت اس حد تک خراب ہوچکی تھی کہ شہباز حکومت عوام کی مشکلات کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے بلکہ عوام کی مشکلات میں دردناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔

اس تبدیلی کے دوران پنجاب کے ضمنی انتخابات نے مسلم لیگ ن کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور وہ پنجاب میں حکومت بنانے میں ناکام ہوگئی ۔ یوں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا بیانیہ کامیاب ہونا شروع ہوگیا، اب پی ڈی ایم میں یہ خوف محسوس کیا جارہا ہے کہ اگر فوری انتخابات کرائے گئے تو عمران خان کو روکنا ناممکن ہو جائے گا ، شاید اسی لیے اب پنجاب میں ضمنی انتخابات کو ملتوی کر دیا گیا ہے لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت تنہا کیسے پنجاب میں اپنی ساکھ بنا پائے گی۔

عمران خان نے ایک حالیہ انٹرویو میں حکومت سے بات چیت کا عندیہ دیا ہے، انھوں نے فوج کو راضی کرنے کے لیے اسے اپنی فوج کہا اور اس کے ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ عدلیہ کی توہین کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے جب کہ وہ امریکا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ پاکستان کو کسی کی جنگ میں نہ دھکیلا جائے۔ ان حالیہ خیالات ایک بڑی تبدیلی کے متعلق اشارہ کرتے ہیں، شاید وہ یہ بات اب سمجھ اور جان چکے ہیںکہ اگرپاکستان میں حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجانا ہے تو اس کے لیے پاکستان کے مقتدر حلقوں کی آشیر باد کے ساتھ امریکا سے دوستی کا رشتہ برقرار رکھنابھی اتنا ہی ضروری ہے۔ لیکن وہ بار بار ایک ہی بات کی تکرار کرتے ہیں کہ الیکشن کا جلد از جلد انعقاد کیا جائے۔

عمران خان کے رویے میں اتار چڑھاؤ معنی خیز ہے۔ پاکستان میں سیلاب کی حالیہ صورتحال بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت ایک پیج پر ہو اور سیاست سے بالاتر ہوکو عوام کے مسائل کو حل کیا جائے، یہی وہ سیاسی سوچ اوررویہ ہے جس کی ضرورت ایک مدت سے محسوس کی جارہی تھی اور آج جس کا اظہار عمران خان کر رہے ہیں، چلیے دیر آید درست آید والا معاملہ ہو گیا ۔

یہی وہ درست راستہ ہے جس پر چل کر سیاسی سفر میں آسانیاں ہوتی ہیں۔ انتقامی سیاست کا مشاہدہ تو ہم ایک مدت سے کرتے چلے آرہے ہیں،ایک مدت کے بعد ملک کی سیاسی قیادت پی ڈی ایم کی صورت میں اکٹھی نظر آتی ہے، چاہے اس میں ان کے مفادات ہی شامل کیوں نہ ہوں لیکن ملک کی معاشی اور سیلابی صورتحال کو دیکھتے ہوئے عمران خان بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنے پر رضا مند نظر آرہے ہیں جس کو تازہ ہوا کا جھونکا کہا جا سکتا ہے۔

آج کے انتہائی تشویشناک حالات میںملک میں گرانی اپنی حدوں کو چھورہی ہے، آئی ایم ایف سے معیشت کی بقا کے لیے جو معاہدہ کیا گیا ہے، اس میں مہنگائی کی وہ تمام شقیں شامل ہیں جن کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ بجلی اور پٹرول کی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور اب تو بجلی کا بلب جلاتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے جن گھروں میں ایک پنکھا اور ایک بلب کی روشنی ہوتی تھی، ان سے بھی بل ہزاروں میں وصول کیا جارہا ہے۔

لگتا یوں ہے کہ آزمودہ کار حکمرانوں کو ایک برس کی یہ عارضی حکومت ابھی تک راس نہیں آسکی ہے اورشاید اس حکومت کے ذمے صرف ایک ہی کام لگایا گیا تھا اور وہ کام عمران خان کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینا تھا جس کو اس حکومت نے بخوبی نبھایا ہے کیونکہ بادی نظر میں یہی دکھتا ہے ۔ بہر حال یہ تو پی ڈی ایم کی قیادت ہی بہتر سمجھ سکتی ہے کہ اس نے حکومت میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے لیکن ہمیں تو یہی دکھتا ہے کہ پایا کچھ نہیں کھویا ہی کھویا ہے اور یہ کھونا انھوں نے ابھی تک بخوشی قبول کیا ہے بقول شخصے شیروانیوں کے شوق نے مروادیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔