منشیات اور حاضر غائب

سعد اللہ جان برق  بدھ 14 ستمبر 2022
barq@email.com

[email protected]

سالوں نہیں، مہنیوں نہیں بلکہ چند روزپہلے وہ ہوگیا ہے جو ہوتا رہتا ہے، اس طرح کے کاموں، حکاموں میں اورقادر کلاموں یعنی ’’ہیں گے‘‘ میں۔

ہمارے صوبے کی پیاری پیاری راج دلاری، سدا بہاری، گوٹا کناری اورسولہ سنگاری صوبائی حکومت کے نئے، تازہ ترین اورانتہائی ’’مصروف‘‘ ہیں گے، نے کہا تھا کہ ہم صوبے کو منشیات کے عادی لوگوں سے پاک کرکے ’’ہیں گے‘‘ لیکن ابھی اس ’’ہیں گے ’’ کا ’’گے‘‘ فضاؤں میں گونج رہاتھا کہ یہ خبر آگئی کہ صوبے کی راجدھانی اورگردونواح میں منشیات کا جل تھل ہوگیا ہے اور نئے نویلے اورایٹم بم نما نشے ’’آئس‘‘ یوں بکنے لگی ہے جیسے چنے، مونگ پھلی اور مکئی کے دانے بک رہے ہوں، خبر میں پشاورکے تینوں حصے شہر،چھاونی اوراضافی علاقوں کے باقاعدہ نام لے کرکہاگیاتھا کہ منشیات فروشوں کو روکنے میں پولیس اور باقی قانون نافذکرنے یا بیچنے والے ادارے قطعی ناکام ہیں ۔

اس دشت میں ایک شہر تھا وہ کیاہوا،آوارگی

لیکن ہمارے لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ پچھتر سال سے یہی تو ہورہاہے جو کام برسرزمین یا سرکاری اداروں میں بالکل بھی نہ ہورہا ہے، وہ اخباروں کے صفحات پر زورشورسے ہو رہا  ہے اورکام کے لیے خصوصی معاونین رکھے ہوتے ہیں جنھیں حقیقی نام ’’ہیں گے‘‘ سے یاد کیا جاتاہے اور اب کے ہمارے صوبے میں جو تازہ دم ’’ہیں گے‘‘ سرگرم،منہ گرم اورزبان گرم، ہیں گے ،ہیں گے کہا جاتاہے، اسے دیکھ کر اور سن کر اور اخباروں میں تسلسل کے ساتھ چھپتے دیکھ کر وہ محترمہ ’’ہیں گے‘‘ یادآجاتی ہے جو کچھ دن پہلے اتنی زیادہ متحرک تھیں کہ جیسے بیک وقت دس لوگ کام پر لگے ہوئے ہوں۔

خاصا عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ہمارے گاؤں میں ایک صاحب جھوٹ میں اتنا نیک نام ہوگیا تھا کہ اس کے بارے میں یہ بات مشہورہوگئی تھی کہ اگر وہ کہے کہ خدا ایک ہے تو اسے مان لو، اس کی باقی تمام باتیں جھوٹ سمجھو۔آدمی دلچسپ تھا، اس لیے ہم بھی جب فارغ ہوتے تو اس کے ساتھ بیٹھ کر نیا نیا مصالحے دار جھوٹ سنتے تھے ۔اس کابڑا بھائی بھی ہمارا دوست تھا چنانچہ ایک دن ہم سے بولا ،اس شخص سے دوردوررہو،بہت بڑاجھوٹا ہے جو کچھ بھی بولتا ہے جھوٹ بولتاہے اورجھوٹ کے سوا اورکچھ بھی نہیں بولتا۔

ہم نے بڑے بھائی سے کہا، آپ بے فکر رہیں، وہ ٹاپ کلاس کاجھوٹاہے توہم بھی کوئی ایسے ویسے نہیں ہیں، آپ اور باقی لوگ تو اس کاجھوٹ سن کر اسے جھوٹ کہتے ہیں لیکن ہم اس کے بولنے سے پہلے ہی جان لیتے ہیں کہ وہ کون ساجھوٹ بولنے والاہے۔

وہ سرعام چڑھے زلف کا پردہ لے کر

ہم قیامت کے نظربازتھے پہچان گئے

ہم بھی حکومتوں، وزیروں اور’’ہیں گے‘‘ کے درمیان پلے بڑھے ہیں۔ چنانچہ ہمارے صوبے کے تازہ ترین، ماہرترین اورترترین ’’ہیں گے‘‘ نے جب ’’منشیات کے عادی ‘‘لوگوں کے بارے میں کہا کہ وہ صوبے کو ان سے پاک کریں گے تو ہم بغیر پتہ کیے سمجھ گئے،کہ اب کیا ہونے والاہے اوروہ ہو بھی گیا۔ ویسے داد دینا پڑے گی کہ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ صوبے کو منشیات سے پاک کریں گے بلکہ یہ کہاتھا کہ صوبے کو ’’منشیات کے عادیوں‘‘ سے پاک کریںگے اوردونوں باتوں میں وہی فرق ہے جو جنرل مشرف کے عہد میں کہاگیاتھا، پھر کیا بھی گیا۔صوبہ حیرت انگیزطورپر ’’نشئی‘‘ لوگوں سے خالی خالی ہوگیا کہ ان منشیات کے عادیوں کو پکڑ پکڑ کسی دوسرے ’’مصرف‘‘ میں کھپایاجاتا۔

اس نیک کام کی تفصیلات میں تو ہم نہیں جائیں گے کہ ابھی نہ تو راتوں کو غائب ہونے کا شوق ہے اورنہ خود کو لاش کی صورت میں کسی دریا میں بہاناہے۔لیکن سرسری طورپر آپ ایک ایسے کردار یاکرداروں کے بارے میں ہلکا سا اشارہ دے سکتے، ایسے لوگوں کو تھانے کے خدمت گار،پولیس کے خدمت گار یاکسی بھی ’’نافذ‘‘کرنے والے ادارے کے خدمت گار یا معاون کہاجاتاہے اوراسے اس وقت استعمال کیا جاتاہے جب کوئی قیمتی چیزپکڑی جاتی ہے، ان چیزوں میں انسان بھی شامل ہوتے ہیں ،خدمت گار راتوں رات اصلی چیز فروخت کرتے اوراس کی جگہ نقلی چیزفراہم کردیتاہے ۔قیمتی منشیات، قیمتی تحائف یاکوئی قیمتی چیز حاضروغائب کرنا اس خدمت گارکاکام ہوتا ہے اوراسی طرح وہ تھانے یا ادارے کی خدمت کرتا ہے۔

اس سلسلے میں ہم جن خدمت گاروں کو جانتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں کرتے اوربہت کچھ کرتے ہیں، اکثران کے پاس آرڈرپہلے سے موجود ہوتے ہیں اورجیسے ہی وہ چیزپکڑی جاتی ہے، راتوں رات آرڈر کی تعمیل کردی جاتی ہے۔ ’’پاک کریں گے ‘‘اس فقرے کو گاتے رہیے اور لطف اٹھاتے رہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔