عمران خان کی تقریر نامناسب ضرور مگر دہشت گردی کی دفعہ نہیں بنتی، اسلام آباد ہائیکورٹ

ویب ڈیسک  جمعرات 15 ستمبر 2022
اس تقریر کے بعد کیا آئی جی آفس پر حملہ ہوگیا؟ یہ بہت اسپیشل لا ہے جودہشت گردوں پر لگتا ہے اسے عام قانون نہ بنائیں،عدالت (فوٹو: فائل)

اس تقریر کے بعد کیا آئی جی آفس پر حملہ ہوگیا؟ یہ بہت اسپیشل لا ہے جودہشت گردوں پر لگتا ہے اسے عام قانون نہ بنائیں،عدالت (فوٹو: فائل)

 اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ عمران خان کی تقریر نامناسب ضرور مگر دہشت گردی کی دفعہ کیسے لگ گئی؟ یہ بہت سیریس نوعیت کا الزام ہے  کوئی معمولی الزام نہیں نہ اس دفعہ کو اس طرح نہ بنائیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق خاتون جج کو دھمکی دینے کے مقدمے میں عمران خان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کی۔ عمران خان کے وکیل سلمان صفدر، اسپیشل پراسیکوٹر رضوان عباسی اور کیس کے تفتیشی افسر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آخری سماعت میں کہا تھا کہ عمران خان تفتیش جوائن کریں جس پر پراسیکوٹر راجہ رضوان عباسی نے بتایا کہ عمران خان نے تفتیش جوائن کی ہے، عدالت نے پوچھا کہ تفتیشی افسر بتائیں گے کیا دہشت گردی کی دفعہ لگتی ہے یا نہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ  دہشت گردی کی دفعہ اس کیس میں لگتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان کی تقریر کے علاوہ کچھ ہے؟ یہ دہشت گردی کی دفعہ کو undermine نہیں کریں کہ لوگوں کے ذہنوں سے ڈر ہی نکل جائے، یہ بہت سیریس نوعیت کا الزام ہوتا ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، توہین عدالت کیس اس سے الگ ہے، چیزوں کو آپس میں مکس اپ مت کریے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو الفاظ آپ نے بتائے یہ بے شک غلط ہوں نامناسب ہوں یہ تو بادی النظر میں اس دفعہ کے تحت نہیں آتے، اس تقریر کے بعد کوئی حملہ کیا ہو آئی جی کے آفس پر حملہ کیا ہو وہ بتائیں، اس قانون کو ایسے نہ بنائیں کہ عام قانون بن جائے، یہ بہت اسپیشل لا ہے جو دہشت گردوں پر لگتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بے چارے پولیس والے شہید ہوئے ہیں اس قسم کے واقعات پر لگتا ہے، آئی جی صاحب کیا اتنے کمزور ہیں کہ ان کے کہنے سے وہ متاثر ہو جائیں، آپ اس کو کنفیوز نہ کریں اس پر الگ سے توہین عدالت کی کارروائی چل رہی ہے۔

پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ جے آئی ٹی کی میٹنگ ابھی ہونی ہے وہ اس دفعہ کے رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کریں گے، جے آئی ٹی کے سامنے کل جب یہ پیش ہوں گے تو آج انہیں یہاں بتانا چاہیے تھا، یہ معمولی الزام نہیں ہے نہ اس دفعہ کو اس طرح نہ بنائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نہ آئی جی نہ تفتیشی افسر اتنا کمزور ہے کہ وہ کسی تقریر سے ڈر جائے،  یہ نا مناسب تقریر ہو سکتی ہے غلط ہو سکتی ہے لیکن دہشت گردی کی دفعہ کیسے لگ گئی؟ پوری دنیا دیکھ رہی ہے ایسے مت کریں بار بار آپ پر چھوڑ رہے ہیں۔ جسٹس اطہر نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ اس قانون کا جو مقصد ہے وہی رہنے دیں۔

بعدازاں عدالت نے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ لگنے یا نہ لگنے سے متعلق جے آئی ٹی سے پیر تک رپورٹ طلب کرلی اور کہا کہ جے آئی ٹی میٹنگ کرکے پیر تک عدالت کو آگاہ کرے جس پر میں پیر کو مصروف ہوں گا جس پر عدالت نے کہا کہ پھر جے آئی ٹی ارکان کو خود آئندہ سماعت پر پیش ہونے دیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ جے آئی ٹی کی میٹنگ ہونی ہے، اس میں وہ طے کریں گے جس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ ہم نے آرڈر کیا تھا کہ آج عدالت کو بتائیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ ملزم ہی تاخیر سے شامل تفتیش ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی آئی جی اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ تقریر سے ڈر جائے یا گھبرا جائے، بہت غلط تقریر اور نامناسب الفاظ تھے مگر دہشت گردی کی دفعہ تو نہیں بنتی۔

بعدازاں عدالت نے عمران خان کی مقدمہ اخراج درخواست پر سماعت 19 ستمبر تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔