سیلاب متاثرین کی مدد اور دلجوئی کیجیے

ایڈیٹوریل  ہفتہ 17 ستمبر 2022
ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ سیلاب زدگان بے گھر اور بے در ہیں، سیکڑوں انسان جانوں سے گئے۔ فوٹو: فائل

ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ سیلاب زدگان بے گھر اور بے در ہیں، سیکڑوں انسان جانوں سے گئے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم شہباز شریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے بائیس لاکھ گھریلو اور ساڑھے تین لاکھ کمرشل صارفین کے بجلی ماہ اگست اور ستمبر کے بل معاف کرنے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کی سنگین خلاف ورزی سابق حکومت نے کی اور خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑا۔

وزیراعظم نے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے موقعے پر بلوچستان کے لیے 10ارب روپے دینے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ سیاست بعد میں ہوگی کیونکہ ریاست کو بچانا ہمارا اولین فرض ہے۔ دوسری جانب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے ملک میں مزید سیلاب کے خطرے کا الرٹ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دریائے ستلج ، راوی ، چناب اور اس سے ملحقہ دریاؤں کے ساتھ ساتھ سندھ اور پنجاب میں نالوں میں سترہ اور اٹھارہ ستمبر کو بہاؤ میں اضافے کا خدشہ ہے ۔

ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ سیلاب زدگان بے گھر اور بے در ہیں، سیکڑوں انسان جانوں سے گئے۔ ہزاروں پالتو جانور سیلاب کی نذر ہوئے۔ لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں اور باغات کا نام و نشان نہیں رہا۔ لاکھوں کی تعداد میں گھروں کے مکین سڑکوں پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔

افواجِ پاکستان ، حکومت اور مختلف سماجی تنظیمیں جو ہر موقعے پر کارِخیر میں پیش پیش ہوتی ہیں، سیلاب متاثرین کی مدد اور دلجوئی میں مصروف ہیں ، تاہم متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہ تمام کوششیں ابھی تک آٹے میں نمک کے برابر دکھائی دیتی ہیں۔ سیلاب زدگان بیک وقت کئی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان کا پہلا مسئلہ کھانے کا ہے۔ ہزاروں متاثرین بھوک اور خوراک کی عدم دستیابی کا شکار ہیں۔

پینے کے لیے صاف پانی نہیں ہے اس لیے وہ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے پیٹ اور دیگر امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ مچھروں کی بہتات اور گرمی کی شدت کی وجہ سے جلدی امراض پھوٹ پڑے ، کئی بچے دودھ اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان سیلاب متاثرین میں 95 فیصد غریب اور دیہات سے تعلق رکھنے والے کسان ہیں۔ وہ جائیں تو کہاں جائیں۔

ان کا کوئی اور ٹھکانہ ہی نہیں ہے۔ ان کے گھر اور زمینیں سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ نہ تو وہ واپس جانے کے قابل ہیں نہ ہی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے خوراک اور پینے کے صاف پانی کے بغیر زندہ رہنا ممکن ہے۔

ان میں ہزاروں کی تعداد میں بوڑھے، مریض، عورتیں اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں جن کے پاس نہ کھانے پینے کو کچھ ہے اور نہ ہی ادویات اور علاج معالجے کا بندوبست ہے ، بچوں کے لیے دودھ بھی دستیاب نہیں۔ متعدد متاثرہ علاقوں سے یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ حکومت کی طرف سے جاری رقوم اور امدادی اشیا متاثرین کو نہیں مل رہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2005 کے زلزلے کے متاثرین کی طرح یہاں بھی سرکار کی طرف سے جاری رقوم اور امدادی اشیا سیلاب متاثرین کے بجائے چند ’’خاص‘‘ لوگ ہی لے جائیں گے یا بازاروں میں فروخت ہوں گی اور نقد رقوم بھی آپس میں بانٹی جائیں گی۔

تازہ ترین مثالوں میں ایک مثال سندھ کے علاقہ ٹھٹھہ کی ہے جہاں وفاقی حکومت کی طرف سے فی خاندان 25 ہزار روپے کی فوری اور نقد امداد کی تقسیم میں گھپلا سامنے آیا، متاثرین میں 25 کے بجائے 23 ہزار روپے کی تقسیم کا انکشاف ہوا جس پر بعض سرکاری اہلکاروں کو معطل کیا گیا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ مکانات کی دوبارہ تعمیر و مرمت اور فصلوں کے نقصانات کی مد میں نقد رقوم کی تقسیم کا آئے گا، جس میں بڑے پیمانے پر خورد برد اور رشوت ستانی کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ اس میں بھی ’’خاص‘‘ لوگوں کے ہی زیادہ مستفید ہونے کا اندیشہ ہے۔ متاثرین میں اگر امدادی رقوم کی تقسیم سرکاری اہلکاروں اور سیاستدانوں کے سپرد کی گئی تو حقدار نہ صرف محروم رہ جائیں گے بلکہ اس کے اثرات طویل عرصے تک ملکی پیدا وار پر بھی محسوس کیے جاتے رہیں گے۔

دوسری طرف مہنگائی کا نہ رُکنے والاطوفان ہے۔ درمیانے طبقے اور غریبوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے لیکن عمران خان جلسہ جلسہ اور سیاست کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اس مشکل ترین وقت اور ناگفتہ بہ حالات میں بھی ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈی جی خان میں سیلاب متاثرین کے ساتھ ملاقاتوں کے نام پر ڈرامہ کیا گیا۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں بچا جس کی اعلیٰ قیادت اور شخصیات کے لیے نامناسب الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں۔

توہین آمیز بیانات اور دھمکی آمیز گفتگو نہ کی گئی ہو۔ ان کو نہ سیلاب متاثرین کی فکر ہے نہ اداروں کے احترام کا احساس لیکن اس تمام صورتحال پر حکومت کی پر اسرار خاموشی سے ذہن میں سوالات اٹھتے ہیں۔ نہ تو عمران خان نے اب تک اپنے بیانات پر معافی مانگی ہے ، نہ ہی وہ باز آتے ہیں، الٹا اپنے بیانات اور الفاظ کے بارے میں عجیب و غریب منطق اور توجیہات پیش کرتے ہیں ، حالانکہ گزشتہ دنوں پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں ان کے بیان کی خود ان کی پارٹی نے حمایت نہیں کی۔

بعض ’’دانشور‘‘ حضرات ملک میں جلد انتخابات کے بارے میں پیش گوئیاں اور مختلف خاکے پیش کرتے ہیں۔ کچھ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی خبریں، حکومت اور عمران خان کی پس پردہ ملاقاتوں یا معاملات طے کرنے اور اس میں اداروں کی سہولت کاری کے ’’انکشافات‘‘ کرتے ہیں۔

یہ دراصل ملکی صورتحال، سیلاب زدگان اور عمران خان کے خلاف جاری مقدمات سے توجہ ہٹانے کی کوششیں ہیں۔ ایسی افواہیں پھیلانے والوں کے مقاصد جو بھی ہیں لیکن ان کو سوچنا چاہیے کہ کیا موجودہ صورتحال میں جب کہ خزانہ خالی اور سیلاب سے تباہی پھیلی ہوئی ہے، الیکشن ممکن ہے؟ کیا ملکی خزانہ اس وقت ایسے بوجھ کا متحمل ہوسکتا ہے؟ کیا سیلاب زدگان کو یوں ہی بے آسرا چھوڑ کر الیکشن کا سرکس لگانا جائز ہے۔ یقیناً ہرگز نہیں لیکن بالفرض اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو یہ حکومتی جماعتوں کی سیاسی موت اور سو فیصد عمران خان کی کامیابی ہوگی۔

پاکستان میں ایک دوسری افسوس ناک صورت وجود میں آ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ اب عوام کی خدمت اور بروقت مدد و تعاون کے بجائے ان کے نام پر اندرون ملک اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں سے سیلاب زدگان کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے کا مقابلہ ہے۔ اس مقابلے سے پاکستان کا امیج مزید خراب ہو گا، بہتر نہیں ہو سکتا۔ ایک سیاستدان مختلف ممالک سے چندہ مانگ رہا ہے، اُس کی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایک کھرب تین ارب جمع کیے ہیں۔

دوسرا سیاستدان چینلز پر بیٹھ کر 5 ارب جمع کرلیتا ہے۔ اتنی بڑی ’گنتی‘ دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ قوم جانتی ہے کہ سیاستدانوں کے وعدے ایسے ہیں جیسے سرائیکی محاورہ ’’تیرے لارے تے پرنے کنوارے۔‘‘ چندہ جمع کرنے میں بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہو رہی ہے۔ ایک سیاستدان بالکل سیلاب زدگان کی حالت زار دیکھنے ہی نہیں گئے۔

جب ان پر عوام اور میڈیا نے دباؤ ڈالا تو وہ چینلز پر بیٹھ کر چندہ جمع کرنے لگے۔ انھوں نے اس دباؤ کا رد ِعمل عوام میں جانے کے بجائے چندہ جمع کر نے میں دکھایا ، وہ چندہ بھی Pledged ہے یعنی معلوم نہیں کتنا جمع ہوتا ہے اور کتنا جمع نہیں ہوتا۔ جو جمع ہوتا ہے وہ کب پروسس سے گزر کر اِن کے اکاؤنٹ میں پہنچتا اور عوام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت غریب عوام کا جو حال ہے وہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کی بحالی کا کام تیزی سے جاری رہے۔ تب وہ کہیں جاکر معمول کی زندگی کی طرف آسکیں گے۔

ملک میں جاری سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ صرف یہیں تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ سیلاب متاثرین کو محفوظ مقامات پر پہنچانے ، ان کے لیے خوراک و علاج کا انتظام کرنے کے بعد ان کی آباد کاری، تباہ شدہ علاقوں کی بحالی اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی ایک ایسا مشکل مرحلہ ثابت ہورہا ہے ، جسے خوش اسلوبی سے گزرنے کے لیے قوم اور سیاستدانوں کو ایثار و خلوص اور اتحاد و یگانگت کے ساتھ دیانت و شرافت کی بھی ضرورت ہوگی۔

بات یہیں تک نہیں رکے گی بلکہ فصلوں سیلاب سے ہونے والی فصلوں کی تباہی ملک میں غذائی قلت کا باعث بنے گی اور سیلاب سے متاثرہ زمین کو قابل کاشت بنانے میں طویل وقت لگے، اس دوران قومی غذائی ضرورت کی تکمیل کے لیے ایسی موثر پالیسی کی بھی ضرورت ہوگی جو نہ صرف ضرورت کے مطابق دنیا بھر سے سستے داموں غذائی اشیا و اجناس کی درآمد یقینی بنائے بلکہ ذخیرہ اندوزی ، گرانی اور ناجائز منافع خوری سے بھی قوم کو نجات دلانے کے ساتھ علاج و ادویات کی مناسب نرخوں پر فراہمی کے سسٹم کو بھی درست طریقے سے مانیٹر کرے۔

ان حالات میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے والے پاکستانیوں پر یہ لازم و فرض ہے کہ وہ ’’ ایثار مدینہ ‘‘ کی روایت کے امین بنتے ہوئے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے آگے آئیں اور سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کے لیے فعال کردار ادا کرنے والی سماجی و فلاحی تنظیموں کے دست و بازو بنیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔