دادرسی

ایم جے گوہر  جمعـء 16 ستمبر 2022
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

تاریخ شاہد ہے کہ 1945 میں اتحادی طاقتوں نے جرمنی کو تباہیوں کی دلدل میں اتار دیا تھا ، مگر صرف 25 سے 30 سال بعد جرمنی کے لوگوں نے اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو نہ صرف دوبارہ حاصل کرلیا بلکہ تباہی و بربادی کے ملبے سے کامیابی کا ایسا سفر شروع کیا کہ جرمنی پہلے سے زیادہ طاقتور بن گیا۔

اس ترقی و کامرانی کا راز یہی ہے کہ وہاں کا ہر فرد اپنی قومی و اخلاقی ذمے داری کو پوری طرح نہ صرف یہ کہ سمجھتا ہے بلکہ اسے احسن طریقے سے قومی مفاد کے مطابق ادا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ ساتھ ہی وہ اپنے سے جڑے ہر فرد کو بھی قومی ذمے داری کا احساس دلا کر اسے اپنا تعمیری کردار ادا کرنے کی سمت مائل بھی کرتا ہے۔

وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو اپنی قوم کے تابع سمجھتا ہے، قومی خدمات کو اپنا فرض سمجھتا ہے، حب الوطنی کے لافانی جذبے سے سرشار اور وطن کی ترقی و کامیابی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار رہتا ہے۔ ہر جرمن نے اپنی ذات کو ملک کی خدمت سے منسلک کیے رکھا، مگر قومی مفاد کی قیمت پر نہیں بلکہ ذاتی جدوجہد کی قیمت پر۔ جہاں ذات اور قوم کے مفاد میں ٹکراؤ ہو، وہاں وہ قوم کے مفاد کو ترجیح دیتا ہے اور اپنی ذاتی خواہشات و مفادات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔

قوم کی حالت کا انحصار ہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فرد کے بننے سے قوم بنتی ہے اور فرد کے بگڑنے سے قوم بگڑ جاتی ہے۔ قوم کا معاملہ بھی ایک مشین جیسا ہے۔ کوئی بھی مشین صرف اسی وقت صحیح کام کرتی ہے جب اس کے تمام پرزے درست طریقے سے کام کر رہے ہوں۔

اسی طرح کوئی بھی قوم صرف اسی وقت متحد، منظم اور مربوط انداز سے ترقی کا سفر طے کرتی ہے جب اس قوم کا ہر فرد اور اس کے رہنما و قائدین اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے حصے کا کام قومی جذبۂ تعمیر وطن کے تحت درست طریقے سے پوری ذمے داری، ایمانداری، دیانت داری، فرض شناسی اور حب الوطنی سے سرشار ہو کر انجام دے رہے ہوں۔ جیساکہ قومی شاعر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا تھا کہ:

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

اس پس منظر میں ہر پاکستانی بالخصوص ہمارے رہنما و قائدین اپنے اپنے کردار و عمل کا جائزہ لیں کہ کیا ہم ایک ذمے دار شہری اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا قومی کردار احسن طریقے سے، ایمانداری، فرض شناسی اور پوری ذمے داری کے ساتھ ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے ارباب اختیار اور ہمارے رہنما و قائدین، جنھیں اس منتشر قوم کی رہنمائی کا دعویٰ ہے۔

اپنا اپنا کردار قومی تعمیر و ترقی کے تناظر میں ایمانداری، ذمے داری، فرض شناسی اور رہنما اصولوں کے مطابق آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بھرپور طریقے سے ادا کر رہے ہیں؟ کیا نیچے سے لے کر اوپر تک اور عام شہری سے لے کر صاحب اقتدار تک نااہلی، بدعنوانی، اقربا پروری، بدانتظامی، سردمہری، مفاد پرستی، لوٹ کھسوٹ، نقب زنی، رشوت ستانی، ملاوٹ، گرانی، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، انتہا پسندی، مسلکی و مذہبی منافرت، عدم مساوات، ناانصافی، سفارش اور ایسی لاتعداد آلائشیں، بیماریاں ہمارے انفرادی و اجتماعی وجود کا حصہ نہیں بن چکی ہیں؟

کیا یہ المیہ اور دکھ کا مقام نہیں کہ عالمی سطح پر آج ہمارا تشخص انھی برائیوں کی وجہ سے بری طرح مجروح ہو رہا ہے؟ کیا ہماری قومی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا ہے کہ جہاں ہم نے کوئی قابل ذکر روشن نظیر قائم کی ہو؟ جسے دنیا میں سراہا جاسکے اور عالمی برادری ہم پر اعتماد و بھروسہ کرکے کہہ سکے کہ پاکستان کا شمار فلاں شعبے میں نمبر ایک ہے اور دوسرے ملکوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ من الحیث القوم ہمارا کردار مثالی نہیں ہے۔ دنیا ہم پر اعتبار و اعتماد کرنے پر آمادہ نہیں۔

آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارا قومی کردار اس قدر مشکوک و ناقابل اعتبار ہو چکا ہے کہ وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں سیلابی پانیوں میں ڈوبے ہوئے لاکھوں غریب، مفلوک الحال اور بے سروساماں کھلے آسمان تلے مدد کے طالب عورتوں، مردوں، بزرگوں اور معصوم بچوں کے لیے اندرون اور بالخصوص بیرون وطن سے آنے والی مالی و مادی امداد پر بھی ’’ہاتھ کی صفائی‘‘ دکھانے کے شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

اس پر توجہ دینی چاہیے۔ متاثرین سیلاب میں نقد امدادی رقوم اور سامان کی تقسیم کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے شہباز حکومت نے ڈیجیٹل فلڈ ڈیش بورڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امدادی رقوم کی تقسیم کا انٹرنل اور ایکسٹرنل آڈٹ بھی کرایا جائے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ڈیجیٹل بورڈ پر دی گئی جملہ معلومات سے اندرون و بیرون وطن امداد دینے والے مخیر حضرات اور ممالک کا پاکستان پر اعتماد بحال ہوگا کہ ان کی دی گئی امداد واقعی حق دار اور مستحقین تک پہنچا دی گئی ہے۔ یہ امداد نہ تو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوئی ہے اور نہ ہی اس میں بدعنوانی کی نقب لگائی گئی ہے جیساکہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔

بلاشبہ سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تباہی کا تخمینہ 18 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ 13 سو سے زائد افراد اور دس لاکھ کے قریب جانور ہلاک ہوئے ہیں۔ 17 لاکھ مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے چند روز قبل پاکستان کا دورہ کیا اور بارشوں و سیلاب سے ہونے والی تباہی و بربادی اپنی آنکھوں سے دیکھ کر برملا یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’ پاکستان کے پاس نقصانات کی تلافی کے لیے کافی وسائل موجود نہیں ہیں لہٰذا پاکستان کی بھرپور مدد و معاونت کی جانی چاہیے۔ ‘‘اس ضمن میں انھوں نے اپنا عالمی کردار ادا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔

یہاں سوال وہی ہے کہ کیا ہم انفرادی و اجتماعی طور پر اپنے ہم وطنوں پر ٹوٹنے والی اس قیامت صغریٰ میں اپنا تعمیری کردار منصفانہ اور ایماندارانہ طریقے سے ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے ارباب اختیار سیاست کی دھماچوکڑی سے کچھ وقت نکال کر اپنے سیلاب زدگان دکھیارے ووٹروں کا احوال جاننے میں سنجیدہ ہیں؟ کیا ان کی دادرسی کو تیار ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔