پروفیسر اسحاق وردگ کا شاعرانہ مزاج

صدام ساگر  جمعـء 16 ستمبر 2022

اچھی شاعری میں جن اوصاف کا ہونا اہم گردانا جاتا ہے ، اُن میں تخیل کی بلندی ، مطالعہ کائنات ، فکرکی آفاقیت، ہمہ گیری، پختگی، معنی آفرینی وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح کلام میں ندرت ، نغمگی ، چاشنی ، اثر انگیزی ، روانی ، معنویت ، مقصدیت اور شعری اسلوب میں جدت طرازی کا ذکر ملتا ہے۔

یہ تمام تر محاسن ہمیں اسحاق وردگ کے شعری اسلوب میں ملتے ہیں ،کیونکہ اسحاق وردگ زبان و بیان اور اسلوبِ تازہ کے ساتھ عمیق مشاہدات ، نازک احساسات، تلخ و شیریں تجربات اور شدتِ جذبات کو شعری قالب میں ڈھالنے پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔

ان کی شاعرانہ حیثیت سے کسی صورت بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اور اسی لیے ان کی شاعری کے معترفین صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ ان کے مزاجِ شاعرانہ میں تلاش و جستجو شامل ہے، اہلِ نظر اور اہلِ فیض کہتے ہیں جس شعر میں جتنا بڑا اور اعلیٰ خیال ہوگا وہ شعر بھی اتنا بڑا اور اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے اور ایسے ہی کلام کو ادبِ عالیہ مانا جاتا ہے۔

اسحاق وردگ کے شعری اسلوب سے لگتا ہے کہ انھوں نے کچھ نئے تجرباتِ سخن بھی کیے ہیں اور یہ تجرباتِ نو زندہ شاعری کی بنیاد ہیں۔ ان کی غزلیات میں جہاں صدیوں کی روایت سے جُڑے خیالات جدید لفظیات اور زبان میں ملتے ہیں وہیں ان کے کلام میں موجودماضی ، حال اور مستقبل کے نئے رجحانات آنے والے دنوں کی کامیابی کی ضمانت تصور کیے جائیں گے۔

اس بات کی دلیل بڑے وثوق کے ساتھ ڈاکٹر طارق ہاشمی دیتے ہیں کہ’’اسحاق وردگ کے ہاں ایک توازن بھی نظر آتا ہے اور اُن جدید پیرایوں کا شعور اور تلاش بھی نظر آتی ہے جو اس وقت جدید شعرا اختیار کرتے ہوئے اردو کے شعری سرمائے میں بڑے تخلیقی اضافے کر رہے ہیں۔‘‘اسحاق وردگ نے اپنے مزاج سے ہم آہنگ شاعری کی راہ متعین کی ہے اور اسی وجہ سے انھیں’’ شہرِ گُل پوش کا گُل فروش‘‘اور ’’شاعرِ شہر گل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ان کا تعلق پشاور سے ہے ، لہٰذا ان کے کلام میں پشاور کے حالات کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ پروفیسر قدرت اللہ خٹک کا کہنا ہے کہ ’’ غلام محمد قاصر کے بعد اسحاق وردگ کی شاعری نے خیبر پختونخوا کی اردو شاعری کو عالمی سطح پر پہچان دی ہے۔‘‘ اسحاق وردگ اُردو، پشتو،ہندکو، پنجابی اور انگریزی زبانوں سے شناسائی رکھے ہوئے ہیں۔

انھوں نے شاعری کے ابتدائی علوم لکھنو سے پشاور ہجرت کرنے والے اُستاد شاعر پروفیسر طہٰ خان سے سیکھے۔ طہٰ خان مرحوم کی تربیت لکھنو کے اساتذئہ سخن نے کی تھی۔اس لیے ان کی شاگردی نے اسحاق وردگ کو زبان و بیان پر دسترس عطا کی۔اسحاق وردگ درس و تدریس ، شاعری سے مشاعروں کے اسٹیج تک طویل مسافت طے کر رہے ہیں۔کتابوں سے وابستگی رکھتے ہوئے انھیں گہرے ادبی مطالعے نے ذہن کو جو بلند آہنگی اور وسعت بخشی، اُس نتیجے میں انھوں نے اپنی شاعری کے لیے منفرد اورنیا اسلوب اختیار کیے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

مَیں معاف کر آیا اپنے سرکے دشمن کو

مجھ کو دے رہا تھا وہ واسطہ محمدؐ کا

………

دروازے کو اوقات میں لانے کے لیے میں

دیوار کے اندر سے کئی بار گیا ہوں

………

پہلے تو شہر کے سب خواب جلائے اُس نے

اور پھر راکھ کو تعبیر کا عنوان دیا

………

خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی

دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں

بے شک اسحاق وردگ کے ہاں بہت سے ایسے بے شمار اشعار مل جاتے ہیں جو ہمیں شعری تجربے کے نئے احساس سے روشناس کرتے ہیں۔ ان کا لہجہ پختہ اور فطری ہے جس سے ان کی ادبی، علمی انفرادیت کا اظہار بھرپور ہوتا ہے۔

اسحاق وردگ اپنی غزلوں میں صرف حسن و عشق اور وصل و فراق کی بات نہیں کی بلکہ زمانے کے دکھوں اور انسانی زندگی کے قرب ،کائنات کے مشاہدے اور معاشرے کے مسائل کا بھی خوب احاطہ کیا ہے۔ ان کے بعض اشعار میں جدتِ اسلوب اور صوفیانہ رنگ کی جھلک خدا کے برگزیدہ بندوں سے محبت اور عقیدت کا اظہار ہے۔

اس پار کا ہو کے بھی میں اُس پار گیا ہوں

اک اسم کی برکت سے کئی بار گیا ہوں

………

وہ قبلہ اُس گلی سے جا چکا ہے

نمازِ عشق ادا ہونے سے پہلے

………

خانقاہ دل کا مرشد بن گیا

اک قلندر خود کو رَد کرتا ہُوا

اسحاق وردگ کا شعری اسلوب یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ نئی نسل کے نمایندہ شاعر ہیں۔ ان کی شاعری حبس زدہ ماحول میں خوشبودار پھول کے مترادف ہے۔ جس کا اندازہ ہمیں اسحاق وردگ کے شعری مجموعہ’’ شہر میں گاؤں کے پرندے‘‘ کا مطالعہ سے خوب ہوتا ہے اور اس پہلی کامیابی پر ظفر اقبال نے ان کو جدت کا علم بردار شاعرکہا ہے۔’’شہر میں گاؤں کے پرندے‘‘ کے پسِ ورق ظفر اقبال رقم طراز ہیں کہ’’اسحاق وردگ کی شاعری پڑھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے، وہ نئی حسیات کا ہم مزاج شاعر ہے۔

اس کے وجدان میں نئی حسّیات کو گرفت میں لانے کا ہنر موجود ہے۔ اسحاق وردگ کے روپ میں خیبر پختونخوا کی اردو شاعری نئی کروٹ لے چکی ہے۔‘‘ ’’شہر میں گاؤں کے پرندے‘‘ میں شامل تمام ترمضامین میں اسحاق وردگ کی تخلیقی صلاحیتوں کا پوری طرح سے اعتراف نہیں کیا گیا ،مگر وہ لوگ بقول پروفیسر گوہر رحمان نوید کی اس تنقیدی رائے کو ضرور دھیان میں رکھیں کہ ’’اسحاق وردگ کے پاس نہ تو رٹا رٹایا مضمون ہے اور نہ گھڑا گھڑایا فلسفہ۔ وہ اپنی شاعرانہ خودی کو تقلید سے ناکارہ کرنے اور اس میں من گھڑت واقعات کے بارہ مسالے ڈال کر قبولیت کی داد پانے کے لیے جملہ بازی اور نعرہ بازی کے سکہء رائج الوقت کے محتاج نہیں بلکہ شاعری کے ٹکسال میں دائمی اقدار اور پائیدار لفظی و معنوی سہارے کے بل بوتے پر دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘

آخر آخر کر گیا ہوں میں قبول

اول اول رد و کد کرتا ہُوا

اسحاق وردگ کا عشق حقیقی ہے مگر وہ آج کی دنیا میں عشق کی اقدار کی مسماری پر بہت مایوس دکھائی دیتے ہیں۔

اب عشق اور دشت خسارے میں ہیں میاں

اب دل کا کاروبار نہیں کر رہے ہیں لوگ

اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیے:

اب ہے نظامِ عشق میں ترمیم کا چلن

تاروں کا بھی شمار نہیں کر رہے ہیں لوگ

اسحاق وردگ کی غزلوں میں بہت سے اشعار سانحہ پشاور میں شہید بچوں کی یاد میں بھی شامل ہیں جو رو رو کر اس واقعہ کی پُرمزمت کر رہے ہیں کہ:میں جاں بحق بچوں کی یاد میں بھی شامل ہیں جو رو رو کر اس واقعہ کی پُرزور مزمت کر رہے ہیں کہ:

زندہ ماؤں کا مرثیہ ہوں میں

اک دھماکے کا واقعہ ہوں میں

’’شہر میں گاؤں کے پرندے‘‘ اس خوبصورت اور جدید حسیات کے شعری مجموعہ میں شامل غزلوں کے ہر ہر شعر پر بات کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہو گا۔ المختصر مجھے خوشی ہے کہ برادرم اسحاق وردگ اپنے شعری مجموعے کی صورت میں اپنی فطری صلاحیت کو فنی باریکیوں اور نزاکتوں سے آشنا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔