بہار کا خیر مقدم

رئیس فاطمہ  بدھ 19 مارچ 2014

موسم بہار کی تازگی اور جاں فزا مہک فضاء میں ہر طرف بکھری پڑی ہے۔ احساس جمال اور ذوق لطیف کے مالک موسموں کی رعنائی اور لطافت کو اندر سے محسوس کرتے ہیں، موسیقار راگ راگنیوں سے اس کا اسقبال کرتے ہیں۔ گلوکار طربیہ نغمے گاتے ہیں اور شاعر اپنے اشعار سے موسم بہار کا خیر مقدم کرتاہے۔ صدیوں پہلے حضرت امیر خسرو جنھوں نے سات بادشاہوں کا زمانہ دیکھا تھا۔ جو نہ صرف صاحب کمال موسیقار، اور شاعر ہونے کے علاوہ حضرت نظام الدین اولیاء کے شاگرد بھی تھے۔ موسم بہار میں ہر طرف پیلے پیلے سرسوں کے پھول کھلتے دیکھ کر بہت سے گیت کہے۔ جیسا کہ یہ گیت

سکل بن پھول رہی سرسوں

کبھی جب ریڈیو کا رومانس زندہ تھا۔ اور پی ٹی وی نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا تھا تو امیر خسرو کے گیت کجن بیگم، عشرت جہاں، نگہت سیما اور مہناز کی مسحور کن آوازوں میں سنے اور دیکھے جاسکتے تھے۔ موسم بہار کا آغاز مارچ سے شروع ہوکر مئی کے وسط تک رہتا ہے۔ اسے بسنت بھی کہتے ہیں۔ بسنت در اصل سنسکرت کا لفظ ہے۔ موسم بہار چونکہ طبیعت میں جولانی اور طراوٹ پیدا کرتا ہے اسلیے برصغیر میں اسے ہر طبقے کے لوگ مناتے تھے۔ بسنت کا تہوار منانا، بسنتی جوڑا پہننا، رنگین لہریے دار دوپٹے رنگنا اور اوڑھنا ایک ایسے کلچر کا حصہ ہے جو مذہب سے بالکل جداگانہ ہے۔ بسنت کا تہوار محبت و یک جہتی کا مظہر ہے۔ برصغیر کی تاریخ اٹھاکر دیکھیے تو ہندو، سکھ اور مسلمان تینوں قومیں یہ تہوار مناتی تھیں۔ صوفیائے کرام چونکہ امن اور محبتوں کے امین ہوتے ہیں اس لیے ان کے رویوں میں وہ لچک ہوتی ہے جو انھیں عام انسانوں سے اوپر لے جاکر اﷲ سے قریب کردیتی ہے۔ کیوں کہ اﷲ سے قربت کے لیے پہلے اس کے بندوں سے پیار کرنا ضروری ہے۔ اسی محبت اور خلوص کی بناء پر ہر انسان خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ اولیاء اﷲ سے قریب ہوتا ہے۔ تشدد، نفرت اور عصبیت سے دور ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ صوفیائے کرام نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں جو نمایاں کردار ادا کیا وہ جنگوں اور تلواروں سے نہ ہوسکا۔ بسنت چوں کہ موسم بہار سے وابستہ ہے اس لیے صوفیائے کرام نے اسے کبھی کسی مذہب سے وابستہ نہیں کیا۔ موسم بہار کوآپ کوئی بھی نام دے لیں۔ اس کی اصل صرف اور صرف کھلتے پھولوں کا خیر مقدم ہے۔ یہ تہوار ایران میں بھی منایا جاتاہے۔ پارسی قوم بھی اسے مناتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ اسے بسنت کے بجائے ’’نوروز‘‘کہتے ہیں کیوں کہ آفتاب برج حمل میں آتاہے۔ عام طور پر 21 مارچ کو ’’نوروز‘‘ منایا جاتاہے۔ غالب نے اس موسم بہار کی تازگی کو محسوس کیا اور کہہ اٹھے:

پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنان خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پرکائی
عزیز حامد مدنی نے بھی کیا خوب کہا اور مہدی حسن نے کس خوبی سے ادائیگی کی۔
تازہ ہوا بہارکی دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقۂ گردش حال لے گئی

ساون آئے، برکھا برسے اور رم جھم پھوار پڑے… بھلا کون ہوگا جو اس سے محظوظ نہ ہو… یہی حال احوال بسنتی رت اور بسنتی موسم کا بھی ہے۔ اسے مذہبی رنگ دینا قطعی مناسب نہیں۔ بسنت میں پتنگیں بھی فضاء میں لہراتی ہیں۔ یہ بھی برصغیر کا مشترکہ کلچر ہے۔ جس خطے میں ہندو، مسلمان اور سکھ بستے ہیں وہ صدیوں سے ساتھ رہے ہیں۔ جب مختلف قومیں طویل عرصے تک ایک دوسرے سے میل جول رکھتی ہیں تو ان کی ریت رواج زبان اور عادات و خصائل بھی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں، فراخ دل قومیں کسی تعصب کا شکار ہوئے بغیر ایک دوسرے کے رسوم و رواج اور طور طریقے غیر محسوس اور غیر شعوری طورپر اپنالیتی ہیں۔ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں، اب یہی دیکھ لیجیے کہ انگریزوں کی حکمرانی کی بدولت ہم نے کس کس طرح اپنے کلچر کو خیر باد کہا۔ لیکن کسی کی مذہب کی اضافی رگ نہیں پھڑکی۔ ہم نے دستر خوان کو خیر باد کہا اور ڈائننگ ٹیبل کو اپنالیا۔ فرشی نشستوں، گاؤ تکیوں کو نکال باہر کیا اور فرنگی صوفے اور آرائشی اشیاء کو بلا کسی تردد اور ہچکچاہٹ کے اپنالیا کیوں کہ اس کی وجہ برسوں انگریزوں کی وہ صحبت رہی تھی جس سے پوری قوم احساس کمتری کا شکار تھی… پھر بسنت کو غیر اسلامی کہنا اور بلا وجہ مذہب سے جوڑنا کچھ مناسب نہیں لگتا …!

ہاں بسنت کا ایک قابل اعتراض اور تکلیف دہ پہلو دھاتی تاروں کا استعمال ہے۔ جو ہر سال کئی جانیں لے لیتا ہے۔ پتنگیں تو پہلے بھی اڑتی تھیں۔ آسمان کو رنگین کرتی تھی، فضاء کو دھنک کے رنگوں سے بھر دیتی تھیں۔ لیکن وہ عام ڈور اور عام مانجھا ہوتا تھا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پنجاب حکومت نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ مسئلے کا حل یہ نہیں کہ پتنگ بازی پہ پابندی لگادی جائے بلکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ کراچی، لاہور یا کہیں بھی دھاتی تار استعمال کرنے اور بنانے والوں کے لیے کڑی سزائیں رکھی جائیں تاکہ یہ خوب صورت تہوار جشن مرگ میں تبدیل نہ ہوجائے۔ انسان کی فطرت کے خلاف جانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب آپ ان سے موسیقی، پتنگیں، آرٹ، یا فنون لطیفہ کی کوئی بھی شاخ چھین لیں گے تو فطرت انسانی کوئی دوسری مصروفیت تلاش کریگی۔ خواہ وہ نشہ ہو، بندوق ہو یا عصبیت۔ پانی اپنی نکاسی چاہتاہے۔ جب اس کی نکاسی کے قدرتی راستے بند کیے جائینگے تو وہ اپنا راستہ خود بنالے گا … نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، نفرت اور مذہبی جنون کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان سے چھوٹی چھوٹی خوشیاں چھین لی گئی ہیں۔

ہر چیز ہر بات پہ مذہب کا لیبل لگاکر نفرتوں کو ہوا دینا قطعی مناسب نہیں … افسوس کہ حکومتیں خود ’’ہائی جیک‘‘ ہوچکی ہیں ،کم ازکم موسموں کو تو ان کے فطری تقاضوں سے محروم نہ کیجیے، کیا انسان کو ذہنی تفریح کی ضرورت نہیں رہی ؟ ذہنی تفریح جسمانی نظام کو بحال رکھتی ہے۔ موسم، پھول، برکھا اور خوشبو … اور موسیقی سب ذہن کو تازگی عطا کرتی ہیں، لیکن جب یہ سب چھین لیا جائے گا تو ستارا اور بربط بجانے والے ہاتھ بندوق نہیں اٹھائیں گے تو کیا کریں گے ؟

بسنت کا تہوار اس موسم میں آتاہے جب فطرت نیا چولا بدلتی ہے۔ دھرتی اپنا پیرہن تبدیل کرتی ہے، زندگی نئی کروٹ لیتی ہے، درختوں میں نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ ہر طرف ہریالی اور سبزہ نظر آتاہے۔ اس سحر انگیز کیفیت کو ہر ذی روح محسوس کرتی ہے ، خدارا اسے ایک تہوار ہی رہنے دیجیے۔ موسم بہار کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ البتہ بسنت کے حوالے سے خونی حادثوں کو روکنا صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہم سب کی ذمے داری ہے۔ ذرا سوچیے دھاتی ڈور سے کٹنے والی گردن اگر آپ کے کسی عزیز، دوست، رشتے دار یا اولاد کی ہو تو … ؟ تب بھی آپ اس ڈور سے کھیلیں گے ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔