بار شناسائی

رفیع الزمان زبیری  بدھ 19 مارچ 2014

کرامت اللہ غوری نے فارن آفس میں 35 سال گزارے۔ اہم مقامات پر سفیر مقرر ہوئے اور ناموری حاصل کی۔ اپنی کتاب میں انھوں نے پاکستان کے حکمرانوں اور چند دوسری شخصیات سے وابستہ واقعات کا ذکر کیا ہے اور ان کے بارے میں اپنی رائے کو محفوظ رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ ضیا الحق کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ’’بلاشبہ وہ ایک انتہائی متنازعہ شخصیت تھے اور رہیں گے لیکن ایک حقیقت جس کا میں آج بھی بلاخوف اعادہ کر سکتا ہوں یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں ضیا الحق سے زیادہ نرم خو اور حلیم انسان نہیں دیکھا۔‘‘

کرامت اللہ غوری کا بھٹو سے بھی واسطہ پڑا تھا۔ ان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ’’میں نے اپنی زندگی میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذہین انسان نہیں دیکھا اور میں نے اپنی زندگی میں بھٹو جیسا مغرور اور متکبر انسان بھی نہیں دیکھا‘‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بھٹو نے عرب دنیا میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ کسی کو حاصل نہ ہو سکا اور عرب حکمرانوں میں ہی نہیں ان ممالک کے عوام میں بھی وہ بہت مقبول تھے۔

جولائی 1990ء میں بے نظیر بھٹو نے الجزائر کا دورہ کیا۔ کرامت اللہ غوری الجزائر میں پاکستان کے سفیر تھے۔ وہ لکھتے ہیں ’’الجزائری حکومت اور عوام نے بے نظیر کے لیے اپنے دل کھول دیے تھے۔ مجھے الجزائر میں سفارتی ذمے داری نبھاتے ہوئے دو برس ہو چکے تھے لیکن اس عرصے میں، میں نے کسی اور سربراہ مملکت یا حکومت کے لیے الجزائر کی حکومت کو یوں والہانہ طور پر استقبال کرتے نہیں دیکھا تھا۔‘‘ اس لیے بھی کہ بے نظیر عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور رہنما تھیں اور سوشلسٹ خیالات کی حامل سمجھی جاتی تھیں۔ الجزائر کے دورے میں ان کے شوہر، آصف علی زرداری ان کے ہم رکاب تھے۔ کرامت اللہ غوری لکھتے ہیں: ’’وہ ان کے ساتھ تھے بھی اور نہیں بھی تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ بادل ناخواستہ آئے ہوں۔ اس لیے کہ پہلی شب میزبان وزیر اعظم کے عشائیے کے بعد وہ کسی تقریب میں نظر نہیں آئے۔ سرکاری مہمان خانے میں وہ اپنے کمرے میں یوں بند ہو گئے تھے جیسے اعتکاف میں بیٹھ گئے ہوں‘‘۔ کرامت اللہ غوری نے محسوس کیا کہ بے نظیر کو انسان کی پرکھ نہیں تھی۔ وہ اپنے گرد منڈلانے والے مطلبی جاہ پرستوں کو نہیں پہچان سکیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’ان کی شخصیت کا یہی جھول بالآخر ان کے زوال کا اور ہر اعتبار سے ناگہانی موت کا باعث بنا جو بلاشبہ ہماری قومی تاریخ کا ایک المیہ ہے۔‘‘

وزیر اعظم میاں نواز شریف سے کرامت اللہ غوری کی پہلی بار باقاعدہ ملاقات 1991ء میں الجزائر میں ہوئی جب یہ وہاں پاکستان کے سفیر تھے اور میاں صاحب عراق اور کویت کے درمیان مصالحت کرانے کے مشن پر وہاں آئے تھے۔ دوسری بار کرامت اللہ کی نواز شریف سے ملاقات 1999ء میں استنبول میں ہوئی جب ترکی میں ایک بڑا ہلاکت خیز زلزلہ آیا تھا اور میاں صاحب ترکی سے پاکستان کی ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے آئے تھے۔ وہ اس وقت اپنی وزارت عظمیٰ کی دوسری اننگز کھیل رہے تھے۔ ایک شام جب میاں صاحب کرامت اللہ غوری کے ساتھ استنبول میں کہیں جا رہے تھے تو اچانک انھوں نے ان سے سوال کیا۔ ’’آپ کو معلوم ہے کہ اس شہر میں رسول اللہؐ کے ایک صحابی کا مزار ہے؟‘‘ کرامت اللہ غوری نے اثبات میں جواب دیا اور پھر تفصیل سے بتایا کہ یہ صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کس طرح یہاں آئے اور یہاں ان کا انتقال ہوا اور پھر کتنی صدیوں کے بعد سلطان محمد فاتح کو قسطنطنیہ کی فتح کے بعد ان کی قبر کے بارے میں بشارت ہوئی اور پھر سلطان نے ان کے مزار کی مرمت اور تزئین کروائی، اس کے نزدیک وہ تاریخی مسجد بھی تعمیر کروائی جہاں آل عثمان کے ہر سلطان کی رسم تاج پوشی ادا کی جاتی تھی۔ نواز شریف نے بڑی توجہ سے یہ تفصیل سنی اور جیسے ہی کرامت اللہ غوری خاموش ہوئے ان سے کہا ’’آپ مجھے وہاں ضرور لے چلیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں استنبول میں ہوتے ہوئے ایسی مقدس جگہ کی زیارت سے محروم رہ جاؤں۔‘‘ پھر استنبول سے روانہ ہوتے وقت وہ پہلے حضرت ابو ایوبؓ کے مزار پر گئے اور فاتحہ خوانی کی۔

کرامت اللہ غوری نے اپنی کتاب میں جن لوگوں سے وابستہ یادوں کا تذکرہ کیا ہے ان میں وزیر اعظم جونیجو اور جنرل مشرف شامل ہیں۔ محمد خان جونیجو کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ’’سائیں جونیجو بھولپن کی حد تک سادہ لوح تھے۔ وزارت عظمیٰ کا منصب دے کر مجھے لگتا تھا ضیا الحق نے ان کے ساتھ ہی نہیں ملک اور قوم کے ساتھ بھی زیادتی کی تھی۔ کچھ بھی ہو وہ مرنجان مرنج، کم گو، نستعلیق اور خاندانی اور موروثی شرافت کے پیکر تھے۔ میں نے ان کے چہرے پر تشویش کے آثار کبھی نہیں دیکھے نہ پیشانی پر شکنیں۔‘‘

جنرل مشرف منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹنے کے دس روز بعد ہی انقرہ تشریف لے آئے۔ کرامت اللہ غوری ان کے اس دورے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جنرل مشرف کو توقع تھی کہ ان کے ترک دوست اور حلیف ان کا گرم جوشی سے استقبال کریں گے لیکن ہوا اس کے برعکس ترکی کے صدر سلیمان دیمرل نے انھیں کھری کھری سنائیں۔ انھوں نے مشرف سے کہا: جنرل! دنیا کی کوئی فوج کسی ملک کی تقدیر نہیں سنوار سکتی۔ یہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے اور میں تمہیں اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا ہوں، لہٰذا بڑا بھائی ہونے کے ناتے میرا مشورہ یہ ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اقتدار سیاستدانوں کو واپس کرو اور اپنی بیرکوں کو لوٹ جاؤ۔‘‘ کرامت اللہ غوری نے جن چند اور ہستیوں کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے ان میں ایک حکیم محمد سعید ہیں۔ ان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں : ’’حکیم صاحب میری کتاب میں ان افراد کی فہرست کے سر آغاز پر آتے ہیں جن کے متعلق بلاخوف و خطر یہ فیصلہ دیا جا سکتا ہے کہ:

جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

کرامت اللہ غوری نے سفارت کاری کے میدان میں جو کارنامے کیے وہ تو کیے لیکن اس سے ہٹ کر بھی کچھ ’’کارنامے‘‘ کیے۔ ان کارناموں کا ذکر انھوں نے ’’بارشناسائی‘‘ میں کیا ہے۔ ایک کارنامہ ان کا یہ تھا کہ انھوں نے کویت میں جب وہ وہاں سفیر کبیر تھے، عمران خان کے شوکت خانم اسپتال کے لیے چندے کی مہم چلائی اور اپنی ذاتی محنت اور تعلقات سے تقریباً ایک لاکھ ڈالر جمع کر لیے اور اس پر فارن آفس کی طرف سے جواب طلبی کی پرواہ نہیں کی۔

ایسے ہی دو کارنامے انھوں نے جاپان میں اپنی سفارت کاری کے زمانے میں انجام دیے۔ وہ ٹوکیو میں جب قونصلر تھے اور قمرالاسلام سفیر، پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنس داں ڈاکٹر عبدالسلام جاپان فاؤنڈیشن کی دعوت پر ٹوکیو آئے۔ کرامت اللہ غوری کو ان کے بارے میں حکومت کے رویے کا علم تھا۔ قمرالاسلام چھٹی پر تھے چنانچہ بہ طور نائب سفیر وہ ڈاکٹر سلام کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ لکھتے ہیں: ’’میں جہاز کے دروازے کے باہر سامنے ہی ان کے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔ جب جاپانی میزبانوں نے پروفیسر صاحب سے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قائم مقام سفیر آپ کو لینے کے لیے آئے ہیں تو ان کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ کہنے لگے آپ نے بڑی ہمت کی ۔‘‘

ایسا ہی معاملہ اس وقت ہوا جب کچھ عرصے بعد فیضؔ صاحب ٹوکیو آئے اور کرامت اللہ غوری نے انھیں اپنی قیام گاہ پر مدعو کیا۔ قمرالاسلام نے انھیں خبردار کیا کہ فیضؔ راندہ درگاہ اور معتوب سرکار ہیں، اپنی مرضی سے ملک سے چار سال سے جلاوطن ہیں اپنے گھر انھیں دعوت دینا سرکار کی ننگی تلوار پر گرنے کے مترادف ہو گا۔ کرامت اللہ غوری نے اس کی پرواہ نہیں کی اور فیصلہ کیا کہ وہ شاعر ہیں ان کی شریک حیات شاعرہ ہیں وہ فیضؔ کو ضرور بلائیں گے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے گھر پر صاحبان علم و ادب کو جو گنتی ہی کے تھے بلایا اور فیضؔ کو ان کے ہوٹل سے لے کر آئے۔ لکھتے ہیں: ’’اندر پہنچے، سب مہمانوں سے تعارف کے بعد فیضؔ صاحب آرام سے بیٹھ گئے تو ہم نے میزبانی کا حق استعمال کرتے ہوئے ان سے پوچھا: ’’فیضؔ صاحب کیا پیجیے گا، کیا پیش کیا جائے؟‘‘ فیضؔ صاحب نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں جواب دیا ’’بھئی! کوئی پینے والی چیز ہو تو پلائیے۔‘‘

کرامت اللہ غوری اس وقت تک پندرہ برس کی سفارتی زندگی میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد اتنے سمجھدار ہو چکے تھے کہ یہ جان گئے کہ پینے والی چیز سے فیضؔ کی کیا مراد ہے۔ سو انھوں نے جے ڈبلیو کی بڑھیا والی یعنی بلیک لیبل کی بوتل کھول کر گلاس اور برف کے ساتھ میز پر رکھ دی اور اپنے ہاتھوں سے جام سبو اپنے پسندیدہ شاعر کو پیش کر دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔