ہمارا مسئلہ؛ طفیل نیازی کا بڑا گائک ہونا نہیں، ان کا مشکل گائک ہونا ہے

غلام محی الدین  بدھ 19 مارچ 2014
پرائڈآف پرفارمنس لوک گائک جاوید طفیل نیازی اور بابر علی نیازی کی زندگی کے شب و روز ۔ فوٹو : فائل

پرائڈآف پرفارمنس لوک گائک جاوید طفیل نیازی اور بابر علی نیازی کی زندگی کے شب و روز ۔ فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  والدین نام ور ہوں تو اولاد کو فائدے تو ہوتے ہی ہیں لیکن یہ فائدے اس وقت عذاب بھی بن جاتے ہیں جب اولاد بھی والدین کا شعبہ اپنا لے، اس وقت والدین کے نام کی لج رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مشکل کے کچھ ایسے ہی مرحلے نام ور لوک گلوکار طفیل نیازی کے دو فرزندوں کو بھی طے کرنے پڑے ۔ ان دوہونہار اور سریلے بیٹوں نے اپنے باپ کے نام کو کس طرح وقار بخشا، یہ ہی ان فن کاروں کی جیون کتھا ہے کہ باپ کی عزت پر آنچ بھی نہیں آنے دی اور خود بھی قد آوروں کی صف میں جا کھڑے ہوئے مگر عجز کا یہ عالم ہے ’’ آج جوکچھ بھی ہیں، ماں پاپ کے طفیل ہیں ورنہ ہم تو کیا ہیں‘‘۔ بڑے باپ کے ان دو بیٹوں کو دنیا آج جاوید نیازی اوربابر نیازی کے نام سے جانتی ہے۔ جاوید طفیل نیازی 4 فروری 1958 اور بابرعلی نیازی 2 فروری 1962 کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ اپنے دو چھوٹے بھائیوں شہنشاہ نیازی اور بادشاہ نیازی کے ساتھ یہ سب ایک ہی چھت تلے اپنے اپنے بچوں کے ساتھ روایتی خاندان کی ایک خوب صورت مثال بنے ہوئے ہیں، گھر کی رسوئی، ہنڈیا اور دسترخوان ایک ہی ہے۔ چاروں بھائی اپنی سات بہنوں کے چہیتے ہیں اور جاوید نیازی باپ کے بعد کنبے کے سربراہ ہیں۔

دونوں بھائیوں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، وہاں باپ کے نام کا ہر طرف چرچا تھا۔ باپ کا رعب اور دبدبہ اپنی جگہ مگر بچوں اور ان کی ماں نے گھر میں کبھی طفیل نیازی صاحب کو اونچی آواز میں بولتے ہوئے نہیں سنا۔ جاوید اور بابر نے جب ہوش سنبھالا تو انہوں نے باپ کو سُروں میں سرشار اور والدہ کو ان سُروں کی آب یاری کرتے پایا۔ دونوں بھائی اس بات پر متفق ہیں ’’محمد طفیل کو نام ور گائیک بنانے میں ہماری والدہ عزیز بیگم کا عزم اور حوصلہ بنیادی عنصر تھا، یہ اگر ان کو میسر نہ ہوتا تو وہ شاید کچھ بھی نہ ہوتے، ہماری ماں ہم سب پر خدا کی رحمت کا شان دار نمونہ تھیں، آج ہم جو کچھ بنے بیٹھے ہیں، یہ ہماری ماں کی برسوں کی ریاضت کا ثمر ہے، گھر میں والد صاحب جب ہارمونیم پر گا رہے ہوتے تھے تو ماں ہم سب کو نہایت حلیمی سے سمجھا دیتیں کہ شور شرابا نہیں کرنا، ہمیں تو آج سمجھ میں آ رہا ہے کہ وہ گائیکی کی کتنی بڑی قدردان تھیں۔ والد صاحب زندہ تھے تو ہمارے گھر میں روزانہ دس سے بیس مہمان دستر خوان پر موجود ہوتے، مجال ہے کہ والدہ کسی مہمان کے پروٹوکول میں کوئی کمی آنے دیتیں، والد صاحب مہمانوں کی آمد کی صرف اطلاع دے دیا کرتے تھے اور اُس کے بعد والدہ جانے اور ان کا کام۔ پھر جب والد صاحب نے ہم دونوں کو سکھانا شروع کیا تو والدہ کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئیں، ہم نے کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے کبھی ہمارے باپ سے کہا ہو کہ گھر کا فلاں کام کرنا ہے، بچوں کو چھٹی دی جائے ، ہم والد کے پاس بیٹھے ہیں تو بس بیٹھے ہیں‘‘۔ اپنی والدہ محترمہ کا ذکر کرتے ہوئے جاوید اور بابر نے بتایا ’’وہ گھرداری کی اتنی بڑی ایڈمنسٹریٹر تھیں کہ اپنی زندگی میں انہوں نے گھر میں موجود، اپنی تین بہوئوں کو کبھی لڑنے جھگڑنے کا موقع ہی نہیں دیا، یہ اُن کی برکت کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ ماحول آج تک قائم ہے‘‘۔

جاوید نیازی نے لاہور کے موہنی روڈ پر پیر مکی مزار کے قریب واقع ایک انگلش میڈیم اسکول سے پرائمری اور اس کے بعد گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فیض احمد فیض صاحب نے اسلام آباد میں پی این سی اے کی سربراہی سنبھالی تو طفیل نیازی کو اسلام آباد بُلا لیا اور یوں جاوید نے ایف اے راول پنڈی کے گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹائون سے پاس کیا جب کہ بابر نیازی نے پانچویں تک تعلیم ملتان میں مکمل کی، چھٹی میں دولت گیٹ ملتان کے ایک اسکول میں داخلہ لیا ہی تھا کہ اسلام آبادآنا پڑا۔ یہاں آکر راول پنڈی کے مدرسۂ ملیہ اسکول میں داخلہ لیا مگر دل نہ لگا اور واپس ملتان جا کر مسلم ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان دیا اور پی ٹی وی اسلام آباد کے پروگرام ’کلیاں‘ سے وابستہ ہو گئے اور یوں فن کی دنیا میں عملی قدم رکھا۔ ان لوک گائک فن کار بھائیوں کے والد طفیل نیازی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب ملک میں ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات شروع کیں تو سب سے پہلی جو تصویر آن ایئر گئی، وہ ان کی تھی مگر جب پی ٹی وی پر بچوں کے پروگرام کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے جن بچوں کی پرفارمنس ناظرین نے دیکھی وہ جاوید اور بابر نیازی کی تھی۔ سال 2009 میں صوفی اور لوک گائکی پر حکومت پاکستان نے ان دونوں بھائیوں کو پرائیڈآف پرفارمنس پیش کیا۔

یہ دونوں بھائی دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوانے کے بعد آج بھی جدید بود و باش سے کوسوں دور نظرآتے ہیں۔ وہ جب ایک ساتھ گاتے ہیں تو سننے والوں پر سحر طاری ہو جاتا ہے اور وہ یک جان دو قالب بھی نظر آتے ہیں لیکن پہناوے کے معاملے میں دونوں بھائیوں میں امتیاز بہرحال قائم رہا۔ جاوید نیازی شروع سے ہی خوش لباس ہیں تو بابر اس معاملے میں درویش صفت واقع ہوئے ہیں۔ جاوید اگر فرمائش کرکے لباس پہنتے تھے تو بابر کو جو مل گیا، زیب تن کر لیا، یہ امتیاز ابھی تک قائم ہے۔ جاوید اپنے ہیئر ڈریسر اور درزی کے معاملے میں چنائو کے قائل ہیں تو بابر اس معاملے میں بے نیازی برتتے ہیں، بہ قول بابر نیازی ’’ بھیء فیشن کیا ہوتا ہے؟ ہماری سمجھ میں نہیں آیا، میری یہ گتھی جاوید ہی سلجھاتا ہے، ملک سے باہر ہم جب کبھی خریداری کرتے ہیں تو میں یہ ذمہ داری اسی کو سونپ دیتا ہوں، اس لیے کہ میں اِن معاملات میں خاصا کورا ہوں‘‘۔ پرفارمنس کے دوران کپڑوں کے ذکر پر دونوں بھائیوں نے ایک بھر پور قہقہہ لگایا اور کہا ’’پہلے پہل یہ کام ہم طوہاً و کرہا ً کر لیتے تھے مگر اب یہ کام ہماری بیگمات کر دیتی ہیں، ان کا ذوق ہم سے کہیں بہتر ہے، اس لیے اب وہ جو پہنائیں، ہم اچھے بچوں کی طرح پہن لیتے ہیں‘‘۔

بچپن میں شرارتوں کا ذکر ہوا تو بابر نیازی نے وضاحت دی کہ بچہ شرارت ضرور کرتا ہے، ہم بھی تھے مگر کانوں میں سر اور تال کا رس اتنا زیادہ گھل گیا تھا کہ عملی شرارتیں کرنے کا موقع ہی نہیں ملا مگر میں جملوں کا شرارتی ضرور تھا، باریک بات کہنے اور سمجھنے کی حس مجھ میں عام بچوں سے کہیں زیادہ تھی، اس صلاحیت نے بعد میں مجھے ’کلیاں‘ میں بہت مدد دی۔ بابر نیازی کا ایک معتبر حوالہ فاروق قیصرصاحب کے معروف پروگرام ’انکل سرگم‘ اور ’کلیاں‘ کے ’نٹ کھٹ پپٹس‘ کی صداکاری بھی ہے اوربابر اس حوالے کو بھی اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں مگر جاوید نیازی نے بتایا کہ ایسی بھی بات نہیں؛ ایک مرتبہ میں اور میرا پھوپھی زاد طبلہ نواز محمد اجمل، لاہور میں اپنے چچا فقیر محمد نیازی کے گھر گئے، گرمی کے تپتے ہوئے دن تھے، ان کے گھر میں صحن کے ایک کونے میں غسل خانہ ہوتا تھا، وہ غسل کے لیے اندر گئے تو میں نے اور اجمل نے چپکے سے دروازے پر لٹکی ان کی شلوار کے ازار بند میں اتنی گانٹھیں لگا دیں کہ جب وہ نہا کر شلوار پہننے لگے تو گانٹھیں کھولتے کھولتے پسینے سے شرابور ہو گئے، چچا جی جب باہر آئے تو غصے کے عالم میں ہماری طرف بڑھے، اُس کے بعد ہم لاہور کی گلیوں میں آگے آگے اور وہ ہمارے پیچھے پیچھے، آخر تھک کر رہ گئے تو ہماری جان میں جان آئی لیکن ہم بھی گرمی سے ایسے بے حال ہوئے کہ توبہ ہی بھلی‘‘۔

گلوکار لذیذ کھانوں کے بڑے دل دادہ ہوتے ہیں؟ ’’ہم سب بہن بھائی مزے دار کھانوں کے شوقین ہیں لیکن ہم زیادہ کھانے کے بہ جائے اچھا کھانے کے قائل ہیں مثلاً چاروں مغز دیسی گھی میں، چھوٹے قیمے کے ساتھ پکے ہوں، میرے والد صاحب دھنیا اور مرغی کی ایک ڈش پکوایا کرتے تھے جسے وہ ’’سینٹ گوشت‘‘ کے نام سے پکارت تھے، یہ ڈش خان صاحب مہدی حسن خاں بھی ہمارے گھر آ کر فرمائش پر پکوایا کرتے تھے، اسی طرح ہمارے گھر میں کھیرے گوشت پکتا، جو نہایت لذیذ ڈش ہے، خشخاش گوشت ایک اور لذیذ ڈش ہوا کرتی تھی، پھر کریلے گوشت کی تو بات ہی کیا ہے، اسی طرح کی متعدد ڈشیں جن کو پنجاب میں ’’کھابے‘‘ کہا جاتا ہے، ہمارے دستر خوان کی زینت ہوتی ہیں، کیا آپ یقین کریں گے کہ ہمارے گھرانے میں یہ ذائقے دار شوق نہ ہوتا تو آج اسلام آباد میں ہماری پانچ چھے کوٹھیاں ہوتیں‘‘۔

جاوید اور بابر نیازی اِس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ جن کو ان کے والد نے موسیقی کے روایتی گھرانوں کی طرح ریاض نہیں کرایا۔ دونوں کا کہناق ہے کہ ہمارے گھر میں ’ریاضت‘ نام کی کوئی شے نہیں تھی، ہم نے تو چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، اپنے والد کو دیکھ کر اور سن کر گانا گایا، ہاں جہاں ہم سُر اور تال سے ہٹ جاتے تھے تو وہاں وہ گا کر اصلاح کر دیا کرتے تھے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے تو وہ ہمیں ساتھ لٹا کر لوری کے انداز میں گانا سناتے، ہم ان کے ساتھ چپک کر سُر اور لے کو محسوس کرتے رہے، پھر ذرا بڑے ہوئے تو والد صاحب کے ساتھ دوسرے شہروں بھی جانے لگے، ہم گاڑی چلاتے اور وہ گاتے اور سمجھاتے چلے جاتے، یقین کریں، اسلام آباد سے بہاول پور تک کا سفر، لگتا، لمحوں میں کٹ گیا، ہمارے ہاتھ اسٹیرنگ اور پائوں ایکسی لیٹر پر ہوتے تو کان اور دھیان والد کی گرفت میں ہوتے، ہم بڑے وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ ہم نے والد سے جو سیکھا، اسی طرح سفر و حضر میں سیکھا، اس کو ریاض نہیں کہا جاسکتا بل کہ یہ تو شغل میلے کا سا سماں ہوتا تھا۔ والد روایتی گائک استاد ہرگز نہیں تھے اور نہ ہی ہم ان کے سکہ بند شاگرد تھے، وہ تو دوستوں کی طرح نرم خوئی سے اپنا آپ ہم میں اتارتے رہے، وہ اگر پہروں ریاض کے کشٹ سے ہمیں گزارتے تو شاید ہم اپنے باپ کے ورثے کے مالک نہ کہلاتے، یہ خدا کی رحمت ہی تو ہے کہ ہم نے ریاض کیے بغیر بہت کچھ پا لیا، بہت سے ایسے بھی دیکھے ہیں جو ریاض کرکے بھی پانے کے بہ جائے گنواتے ہیں۔ غلط سر لگانے پر والد کے رد عمل کے حوالے سے بابر نیازی نے بتایا ’’وہ روایتی استاد تو تھے نہیں، جب کبھی ایسا ہوتا تو بے ساختہ کہا کرتے ’’اوئے اے کی ہو رہیا اے؟‘‘ اور پھر ہنسنے لگتے، ان کا یہ انداز ہمیں راگ کی اصل روح تک لے جاتا اور پھر ہمیں علم ہو جاتا کہ غلطی کہاں تھی‘‘۔

جاوید نیازی راگ ’ارانا‘ گا کر گائکی کی دنیا میں داخل ہوئے، کہا ’’والد صاحب کا اپنا تھیٹر تھا، میں اُس وقت بچہ تھا، انہوں نے مجھے تھیٹر میں لوہے کی ایک کرسی پر کھڑا کرکے یہ راگ اداکرنے کو کہا، میں پرفارمنس دے چکا تو لوگ عش عش کر رہے تھے‘‘۔

جاوید اور بابر نیازی کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ ’’فن کار ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا! خاص طور پر گائیک؛ اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ گلوکار کا ہونا، خدا کے کرم کے بغیر ممکن نہیں، عجز سے، انکسار سے اور پیار سے، یہ علم حاصل ہوتا ہے اور اِس علم کی تربیت ہم خوش قسمتوں کو اپنے گھر سے ہی ملی گئی جو ہمارے لیے شکر کا مقام ہے ‘‘۔

جاوید اور بابر نیازی آج جس مقام پر ہیں اور اِس مقام تک پہنچنے کے لیے انہوں نے جن راہوں کا سفر کیا، وہ محنت، جدوجہد اور مسلسل عزم کی ایک کہانی ہے۔ طفیل نیازی صاحب جب اِس دار فانی سے رخصت ہوئے تو ان کے منصب پر فائز ہونے کے لیے دونوں بھائیوں کو اپنے ناقدین سے بہت کچھ سننا سہنا پڑا۔ یہ کہانی دو عشروں پر محیط ہے۔ بابر نیازی نے کہا کہ جب والدین کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے تو اولاد چاہے ارب پتی ہو، غریب ہو جاتی ہے، جو غربت کے اِس پہلو کو نہیں سمجھتے، انہیں ان کی نالائق اولاد سمجھا دیا کرتی ہے۔ ہم بڑے باپ کے بیٹے ضرور ہیں مگر جب وہ ہم سے رخصت ہوئے تو ہم بڑے نہیں تھے، ہم نے بڑے ہونے کا عہد کیا تو علم ہوا کہ ہمارا باپ کتنا بڑا تھا، اُس کی عظمت کو چھونے کے لیے کتنے حوصلے کی ضرورت ہے۔ محفل میں ہم پرفارمنس دیتے تو لوگ واہ وا بھی کرتے اور یہ بھی کہ دیتے، ہاں بہت اچھا گایا لیکن تمہارے باپ کے کیا کہنے … لوگوں کی یہ بات ہمارے شوق کو آگ سے ’بھانبڑ‘ میں بدل دیتی تھی، ایسے میں والد کی باتیں یاد آنے لگتیں، وہ ہم سے، جو کہا کرتے تھے، اب ان پر عمل کرنے کا وقت آ چکا تھا، اِس سفر نے جہاں ہمیں بدل کر رکھ دیا، وہاں ہمارے گانے میں بھی ایک ایسی تاثیر آئی، جس کو دنیا تلاش کر رہی تھی، بڑے باپ کی اولاد ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ محنت کے بغیر ہی سب کچھ مل جائے، جو اِس طرح پاتے ہیں وہ اِسی طرح لٹ بھی جاتے ہیں، جو محنت سے پاتے ہیں وہ لٹتے نہیں، لوٹتے ہیں۔ محفل میں پرفارمنس کے دوران بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ہزاروں لوگ ہمہ تن گوش ہمیں سن رہے ہیں مگر ہم سر اور تال کی اُس ’’ٹرانس‘‘ میں ہوتے ہیں کہ پوری محفل لٹ چکی ہوتی ہے حال آںکہ ہم صرف ایک بندے کے لیے گا رہے ہوتے ہیں، وہ بندہ خود ہی کہیں سے، چپکے سے محفل میں چلا آتا ہے، ہم اُس سے براہ راست مخاطب ہوتے ہیں مگر سامعین سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے مخاطب ہیں، لائیو پرفارمنس گھنٹوں چلتی ہے اور ہمیں وقت کا احساس ہی نہیں رہتا، پھر وہ لمحہ بھی آ جاتا ہے کہ خود ہم بھی معدوم ہونے لگتے ہیں، ایسا ہوتا ہے تو ہر بے ترتیبی، ترتیب میں آجاتی ہے۔ یہ گائکی کا ایک ایسا مقام ہے، جو دو طرفہ ہے، یک طرفہ ہو تو سمجھ لیں کہ ابھی مالک کا کرم نہیں ہوا، گائکی میں شہرت اور دولت سے یہ مقام ہٹ کر ہوتا ہے اور یہ اُسی کو ملتا ہے جس کو مالک کا اذن مل چکا ہوتا ہے۔ اِن باتوں کو سمجھ کر ہی اب محسوس ہوا کہ والد جو کہا کرتے تھے، غلط نہیں تھا کہ سچ ہی وہ سچائی ہے جو انسان کو بڑا بناتی ہے۔ ہم بڑے باپ کے بیٹے ضرور ہیں لیکن سننے والے بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک مشکل گائک کے بیٹے بھی تو ہیں۔ استاد مہدی حسن خان صاحب، استاد سلامت

علی خان صاحب، استاد بڑے غلام علی خان صاحب، استاد غلام علی خان صاحب، میڈم نور جہاں، یہ وہ لوگ ہیں جو مشکل گائک ہیں، اگر اِن کے بچوں نے اِس مقام کو عبور کرنا ہے تو پھر اِن سے کہیں زیادہ مشکلیں دیکھنا ہوں گی، بڑے باپ کی اولاد ہونا ، پکی پکائی کھیر ملنے کے مترادف نہیں ہوتا بل کہ کھیر نئے سرے سے پکانا پڑتی ہے۔ لوگ تنقید کرتے ہیں تو انہیں ہمارے دکھ کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم تو روز جیتے ہیں، روز مرتے ہیں‘‘۔

گلوکار جاوید نیازی اور بابر نیازی نے محفل میںلائیو پرفارمنس کے دوران اپنے والد کی روح کی موجودی اور رہ نمائی کے احساس کا ذکر کرتے ہوئے مختلف واقعات سنائے کہ کس طرح وہ سامنے آ کر ہمیں اب بھی سمجھاتے ہیں کہ اِس جگہ کیا گانا ہے اور کیا نہیں گانا۔ ’’ہم دونوں اکثر محفل میں پرفارمنس سے پہلے طے نہیں کرتے کہ کہاں سے شروع کرنا ہے اور کہاں ختم، اِس لاپروائی سے بعض اوقات ڈر بھی لگتا ہے لیکن جب ہم محفل میں بیٹھ جاتے ہیں تو پھر ترتیب خود بہ خود بننے لگتی ہے اور اِس کا احساس تب ہوتا ہے جب والد کی موجودی کا احساس ہو رہا ہو، اب تو یہ نوبت آ چکی ہے کہ ہم تب تک اسٹیج پر نہیں جاتے، جب تک ہمارے والد کا نام ہمارے ناموں کے ساتھ انائونس نہ کیا جائے، ہم سے گایا ہی نہیں جاتا، اِس معاملے پر اسٹیج کے میزبانوں سے ہمارا بارہا اختلاف بھی ہو چکا ہے، ہم باپ کے نام کو اپنے لیے برکت تصور کرتے ہیں‘‘۔

نام ور گائکوں کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے جاوید اور بابر کہنے لگے کہ ہمیں اپنے کھوٹے کھرے کی پہچان اُس وقت ہوئی جب ہم نے مہدی حسن خاں صاحب کے سامنے گایا اور انہوں نے ہمیں داد دی، اِن اساتذہ میں استاد سلامت علی خان صاحب، غلام علی خان صاحب اور میڈم نورجہاں بھی شامل ہیں، اِن لوگوں سے داد ہی نہیں ملی، محبت اور دعا بھی ملی۔ جاوید نیازی بتانے لگے ایک بار مہدی حسن صاحب بھارت گئے تو واپسی پر ہمارے گھر اسلام آباد تشریف لائے، باتوں باتوں میں کہا میں بھارت میں مسلسل سوچتا رہا کہ جاوید اور بابر کے لیے یہاں سے کیا تحفہ لے جائوں؟ بہت سوچنے کے بعد میرا دل تانپورے پر اٹک گیا، اسی طرح استاد سلامت علی خان صاحب بھی انڈیا سے ہمارے لیے سُر منڈل لے کر آئے تھے، یہ اِن بڑے لوگوں کی شفقت تھی جس نے ہم کو آگے بڑھنے میں بہت مدد دی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ

’جے میں ویکھاں عملاں ولے، کجھ نہ میرے پلے، جے میں ویکھاں تیرے ولے، بلے، بلے‘ ۔۔۔۔۔ اِس بات پر بابر نیازی نے یہ گرہ لگائی کہ ’’ربا میرے حال دا محرم توں، میں نا ہی سب توں۔۔‘‘

زندگی میں پچھتاووں کے حوالے سے دونوں بھائی اپنے حال اور ماضی پر بہت مطمئن نظر آئے اور وہ اپنے مستقبل سے ناامید بھی نہیں، کہتے ہیں، پچھتاوے بہت بڑی بڑی خواہشات پورا نہ ہونے کانام ہے۔ ہم نے تو جو چاہا، مالک نے وہ ضرور پورا کیا، دیر سویر ہو جاتی ہے، یہ بھی زندگی کا حُسن ہے، اُس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ ہو سکتا ہے وہ ہماری اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہو۔ بابر نیازی نے اِس حوالے سے کہا ’’ایک بار میں نے اپنے والد سے محفل میں سننے والوں کا گلہ کیا کہ ہم گا رہے ہوتے ہیں تو لوگ باتیں کر رہے ہوتے ہیں، والد صاحب نے میری بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ ’’یار توں لوکاں لئی نہ گایا کر، اپنے لئی گایا کر!‘‘، اُس وقت یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی لیکن اب علم ہوا کہ یہ بات بہت گہری تھی، اگر ایک فن کار اپنے لیے گانے سے آشنائی حاصل نہیں کر سکتا تو وہ دوسروں کے لیے کیسے گائے گا؟ اِسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جاوید نیازی نے بتایا کہ یہ سال 1982 کی بات ہے میں ریڈیو پر گایا کرتا تھا، میری اُس وقت کیٹیگری ’’بی‘‘ ہوتی تھی۔ ایک دن ریڈیو سے گھر آیا تو والد صاحب سے گلہ کر بیٹھا کہ ریڈیو پر مجھ سے جونیئر گانے والوں کو ریڈیو والوں نے اے کیٹیگری دے رکھی ہے۔ اِس بات پر مجھے بڑی شرم آتی ہے، آپ ریڈیو والوں کو فون کرکے میری کیٹیگری تبدیل کرا دیں، وہ مسکرانے لگے اور دھیمے لہجے میں کہا ’’یار محنت کر، اک دن آپے کیٹیگری آئوٹ اسٹینڈنگ ہو جائے گی، اج جے میں، فون کرکے تیری کیٹیگری تبدیل کرا دتی تے ساری زندگی تینوں اے شرمندگی مار دی رہے گی کہ میں سفارش نال اگے ودھیا آں، میں ریڈیو والیا نوں فون نہیں کرنا‘‘۔ اِس بات پر میں ان سے ناراض ہو گیا، تیسرے دن خود ہی کہنے لگے، ’’محنت کریا کر، فون نہ کرایا کر‘‘۔ انہوں نے یہ جملہ اِس انداز سے کہا کہ میرا سارا غصہ اتر گیا۔ اِس کے بعد میں نے ریڈیو پر پروگرام کرنا چھوڑ دیے، کوئی ایک سال بعد ریڈیو پاکستان راول پنڈی پر آل پاکستان میوزک کنسرٹ کا انعقاد ہوا، جس میں ہم دونوں کو بھی مدعو کیا گیا، یہ پروگرام لیاقت ہال میں ریکارڈ ہو رہا تھا اور محفل میں اپنے وقت کے تمام بڑے لوگ شامل تھے، ہماری باری آئی تو اللہ نے اتنی رحمت کی کہ پورا ہال جھوم اُٹھا، پروگرام ختم ہوا تو ہم دیگر فن کاروں کے ساتھ ایک کونے میں کھڑے چائے پی رہے تھے کہ ایک شخص ہمیں ڈھونڈتا آیا کہ ریڈیو کے ایم ڈی نے ہم دونوں کو دفتر میں بلایا ہے، ہم وہاں گئے تو انہوں نے ہماری بہت تعریف کی، اب ہمیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہماری کیٹیگری تو بی کلاس ہے اور تعریف آئوٹ اسٹینڈنگ فن کاروں سے بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ ہماری حیرانی کی وجہ پوچھی تو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے منہ سے بات نکل گئی، اس پر انہوں نے اسٹیشن ڈائریکٹر کو طلب کر لیا اور سخت ڈانٹ پلائی، ہم گھبرا سے گئے، پھر حکم دیا کہ کل اِن دونوں بھائیوں کو آئوٹ اسٹینڈنگ کیٹیگری دینے کے لیے فائل میری میز پر ہونی چاہیے۔ دیکھیں کہاں ہم احتجاج کرتے ہوئے ریڈیو پر گانا چھوڑ چکے تھے اور کہاں ہمارے لیے ریڈیو والوں کو حکم مل رہا تھا کہ صبح پہلا کام ہی یہ کرنا ہے، یہ آخری گیند پر میاں داد کے چھکے جیسی صورت حال تھی۔ اس وقت مجھے نیازی صاحب اتنے یاد آئے کہ آنکھوں میں آنسو آ گئے‘‘۔

جاوید اور بابر نیازی نے فوک اور صوفی شاعری، گائکی اور روایتی سازوں کو اپنا اصل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یورپ اور امریکا والے ہمارے صوفیا کرام کی شاعری پر ڈاکٹریٹس کر رہے ہیں، ہماری کلاسیکی اور فوک گائکی کی نزاکتوں کو ہم سے زیادہ سمجھنے لگے ہیں اور ہمارے سازوں میں تبدیلیاں لا کر انہیں اپنا رہے ہیں، گو ان پر ابھی نام وری کے دروازے نہیں کھلے لیکن وہ دن دور بھی نہیں جب ہمارے بچے اپنے پرکھوں کی موسیقی اور علم کو ڈھونڈنے یورپ اور امریکا جایا کریں گے۔ ایک مرتبہ ہم دونوں ناروے کے شہر اوسلو میں لوک گائکی کی پرفارمنس دے رہے تھے، پروگرام کے دوران ہم نے غور کیا تو یوں لگا کہ 10 ہزار کے مجمعے میں ایک بھی پاکستانی یا ہندوستانی نہیں، سب گورے ہی گورے تھے جو ہمیں پورے انہماک سے نہ صرف سن رہے تھے بل کہ داد بھی دے رہے تھے، ہم سمجھے کہ ہمارے پروموٹر نے ہمیں تو دھوکا دیا ہی، ان کے ساتھ بھی ہاتھ کرگیا ہے، اب یہ لوگ صرف ردھم کا مزہ لے رہے ہیں لیکن جب ہمیں بتایا گیا کہ یہ سب لوگ یونی ورسٹیوں کے طالب علم ہیں اور یہ سب، نہ صرف اردو اور پنجابی زبان کو سمجھتے ہیں بل کہ لوک اور کلاسیکل موسیقی کے بھی رمز شناس ہیں۔ بلھے شاہ ، شاہ حسین، سلطان باہو، وارث شاہ سمیت دیگر بڑے شعراء کا سارا کلام اِن کو ازبر ہے، کسی بھی صوفی شاعرکے کلام کی جس لائن کا آپ کو علم نہیں ، وہ آپ اِن سے پوچھ سکتے ہیں۔ یہ سن کر ہمیں سخت حیرت ہوئی اور بے اختیار منہ سے نکل گیا کہ واہ مالکا، ’’میں نا ہیں سب توں‘‘۔

ایک اور واقعہ بابرنیازی نے سنایا ’’ہم واشنگٹن ڈی سی میں ایک پروگرام کر رہے تھے کہ ہمارے پروگرام کے سائونڈ ریکاڈسٹ نے، جو ایک امریکن گورا تھا، پروگرام کے دوران ہمیں ایک فرمائشی چٹ بھیجی، میں نے پڑھا تو اُس پر ہیر وارث شاہ لکھا ہوا تھا، میں نے سمجھا کہ ایسے ہی کہیں سے سن کر فرمائش کر رہا ہے لیکن پھر وہ ہر گیت کے بعد مسلسل چٹ بھیجنے لگا تو میں نے پروگرام کے آخر میں ہیر وارث شاہ کے ایک حصے سے دو لائنیں شروع والی اور دو آخری سنا کر پروگرام ختم کر دیا۔ پروگرام کے بعد پھٹی ہوئی جین میں ملبوس وہ ہمارے پاس آیا، شکریہ ادا کیا اور پوچھا درمیان والے چار شعر کیوں نہیں سنائے؟ میں نے ترنگ میں آکر اس سے پوچھا، وہ کیا ہیں؟ تو اُس نے مجھے سارا کلام سنا دیا، پھر میرے استفسار پر اُس نے بتایا کہ میں نے وارث شاہ پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، سائونڈ ریکارڈسٹ کا کام تو میں کمائی کے لیے کرتا ہوں‘‘۔

جاوید نیازی اور بابر نیازی نے گائیکی کو کتابی علم سے ماورا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ علم ہے، جو بزرگوں کے پاس بیٹھنے سے ملتا ہے، بابر نیازی نے اِس ضمن میں پورے پاکستان سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ خدارا! اپنے بزرگوں کو مت بھولو، انگریزی ضرور سیکھیں مگر اپنی ماں بولی مت بھولو، اپنے بچوں کو وہی زبان سکھائوجو ہماری ہے، اپنی ہے۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جو اعتماد اپنی زبان میں ملتا ہے وہ پرائی زبان سے نہیں ملتا، ہم نے جب سے اپنے پرکھوں کی زبان بولنا چھوڑی ہے ہم اوپر سے نیچے آگئے ہیں، احساس کمتری نے ہمیں اُجاڑ کر رکھ دیا ہے، آج گورے ہماری شاعری، موسیقی اور زبان میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ہم ان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ان کے پیچھے مت بھاگو، ان کے ساتھ دوڑنے کی کوشش کرو، اب ہالی ووڈ کی فلموں میں بیک گرائونڈ موسیقی کے لیے ہمارے سازوں کو استعمال کیا جا رہا ہے، وہ ہمارا کُھسے، پشاوری چپل اور کرتے شلوار تک پہننے لگے ہیں اور ہم ہیں کہ ابھی تک جینز میں پھنسے ہوئے ہیں، ترقی کے لیے جدید تعلیم ضرور حاصل کریں مگر اپنا کلچر مت چھوڑیں، کیوں کہ ہم پرائے کلچر کو نہ تو مکمل طور پر اپنانے کے قابل ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، ہم درمیان میں پھنس گئے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح میاں محمد بخش صاحب نے کہا تھا کہ ’’پھس گئی جان شکنجے اندر، جوں بیلن وچ گنا‘‘۔آج بھی پاکستان کا ماڈرن ترین مرد اپنی بیوی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’یار کال سن لو، تمہارا بوائے فرینڈ لائن پر ہے‘‘ ہاں اگر ہمارے لچھن یہی رہے تو پھر چند سال بعد شاید یہ سب کچھ بھی ہونے لگے۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے بزرگوں کے قریب لانے کا اُسی طرح تردد کریں، جس طرح انگلش میڈیم اسکولوں میں داخلوں کے لیے انہوں نے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ ہمارے باپ نے ہمارے ساتھ ہمیشہ ماں بولی میں بات کی مگر آج ہمیں بہت دفعہ ایسا کرتے ہوئے شرم آنے لگتی ہے، یقین کریں اسی وجہ سے آج دلوں میں کدورتیں بھری ہوئی ہیں، ہم کسی کو اپنے سے بہتر اور کسی کو اپنے سے کم تر خیال کرنے لگے ہیں، ہم نے پوری دنیا دیکھی ہے، پورا پاکستان دیکھ لیا، لاکھوں انسانوں سے ہم مل چکے ہیں مگر یہ دعویٰ ضرور کریں گے کہ ہم پاکستانی، کسی سے کم تر نہیں ہیں۔ ہماری یہ حالت زار ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے، کسی دوسرے میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ہم کو بگاڑ سکے، ہم تو اپنے ہاتھوں خود مرنے پر تلے بیٹھے ہیں، اس لیے کہ ہم خود کو نہ جانے کیوں دوسروں سے کم تر سمجھنے لگے ہیں، مولا علی کا فرمان ہے کہ اگر آپ کی آنکھیں خوب صورت ہیں تو آپ دنیا کی تعریف کریں گے، زبان خوب صورت ہے تو دنیا آپ کی تعریف کرے گی، ہم بہ حیثیت فن کار صرف اتنا ہی کہیں گے ’’جس دن اسیں بندے نوں اللہ دا بندہ سمجھ کے اُس دی عزت کرنا شروع کر دتی اُس دن اساڈیاں اکھاں تے ساڈی زبان دونوں ای خوب صورت ہو جان گیاں‘‘۔

اس پر جاوید کہنے لگے’’ زندگی میں اگر 20 دوستوں کو 22 کر لو گے تو زندگی آسان ہو جائے گی اور اگر 20 کو 18 کرو گے تو آپ کی زنگی رائگاں کرنے کے لیے صرف دو دشمن ہی کافی ہیں، آج مسلم امہ کا المیہ یہ ہی ہے کہ ہم قوموں کی برادری میں دوست بنانے کے بہ جائے، دشمن بڑھا رہے ہیں۔ جاوید نیازی اور بابر نیازی نے ساری زندگی عزت کمانے کا ایک فارمولہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے یوں بیان کیا کہ ’’ہمارے والد نے ہمیں نصیحت کی تھی کہ عزت کی پہلی سیڑھی گھر کی دہلیز ہوتی ہے، اپنی ہو خواہ پرائے گھر کی، اگر آپ کو کوئی اپنے گھر مدعو کرے تو اُس گھر کی دہلیز پار کرنے سے پہلے دل میں طے کر لینا کہ میں اِس گھر کے افراد کا ماموں ہوں، ساری زندگی اللہ تعالیٰ آپ سے عزت اور وقار نہیں چھینے گا‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔