نیلسن مینڈیلا کی جیل میں

جاوید چوہدری  منگل 20 ستمبر 2022
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

رابن آئی لینڈ کیپ ٹاؤن سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ واٹر فرنٹ کے علاقے سے ہر دو گھنٹے بعد فیری سیاحوں کو لے کر جاتی ہے‘ یہ جزیرہ ساڑھے تین سو سال تک دنیا کی خوف ناک ترین جیل رہا‘ نیلسن مینڈیلا نے اپنی 27 سالہ قید کا بڑا حصہ اس جیل میں گزارا اور یہ ان کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہو گیا‘ ساڑھے پانچ کلو میٹر پر محیط یہ چھوٹا سا جزیرہ اس وقت یونیسکو کا عالمی ورثہ ہے‘ دنیا بھر سے لوگ اس کی سیاحت کے لیے آتے ہیں۔

میں اور ڈاکٹر کاشف مصطفی منگل 13 ستمبر کی صبح جوہانس برگ سے کیپ ٹاؤن پہنچے‘ دونوں شہروں کے درمیان 1600 کلومیٹر کا فاصلہ ہے‘یہ جوہانس برگ سے بالکل مختلف شہر ہے‘ جوہانس برگ کو دنیا کے سب سے بڑے ’’ان لینڈ‘‘ شہر کی حیثیت حاصل ہے‘ یہ دریاؤں اور سمندروں سے دور ویرانے میں آباد ہوا‘ آبادی کی وجہ سونا تھی‘ 1886 میں جوہانس برگ میں سونا دریافت ہوا اور دنیا بھر کے مہم جوؤں نے اس کا رخ کر لیا‘ یہ علاقہ اس زمانے میں ویران بھی تھا اور بیابان بھی‘ درخت تک نہیں ہوتے تھے مگر پھر لوگ آتے رہے اور یہ آباد ہوتا رہا‘ آج اس کی آبادی 60 لاکھ ہے۔

یہ دائیں سے بائیں پھیلا ہوا شہر ہے‘ ایک طرف سے 95 کلو میٹر لمبا ہے اور دوسری طرف سے 110 کلو میٹر‘ آج بھی سونے اور پلاٹینم کی دنیا کی سب سے بڑی کانیں اسی شہر میں ہیں تاہم کیپ ٹاؤن بالکل مختلف اور یورپ کی طرح خوب صورت اور منظم شہر دکھائی دیتا ہے‘ موسم ٹھنڈا‘ماحول میں ہریالی اور فضا میں وسعت ہے‘ لوگ خوش اور خوش حال ہیں‘ سیاحت بڑی انڈسٹری ہے‘ گورے زیادہ اور کالے کم ہیں‘ اٹلانٹک اوشن کے کنارے آباد ہے اور افریقہ کی طرف سے دنیا کا آخری شہر ہے۔

شہر سے چار گھنٹے کی مسافت پر وہ مقام بھی موجود ہے جہاں اٹلانٹک اوشن انڈین اوشن کے ساتھ ملتا ہے اور قرآن مجید کی حقانیت کی گواہی دیتا ہے‘اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا’’اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے جن میں سے ایک کا پانی لذیزوشیریں ہے اور دوسرے کا کھاری کڑوا‘ پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کر دی ہے‘‘ کیپ ٹاؤن سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہرمینس (Herminus) کا وہ شہر واقع ہے جہاں ہر سال وہیل مچھلیوں کی سب سے بڑی نقل مکانی ہوتی ہے‘ دنیا میں جانوروں اور پرندوں کی چار بڑی ہجرتیں ہوتی ہیں۔

پہلی ہجرت سائبیریا کے پرندے ہیں‘ یہ سردیوں میں روس کے ٹھنڈے علاقوں سے پاکستان کی طرف ہجرت کرتے ہیں‘ دوسری ہجرت جنگلی جانوروں کی ساؤتھ افریقہ سے سینٹرل افریقہ کی طرف ہے‘ اس میں تیس چالیس لاکھ جانور غول درغول جنوب سے شمال کی طرف دوڑتے ہیں اور دھرتی کو دہلاتے ہوئے کینیا پہنچتے ہیں‘ تیسری ہجرت سارڈین مچھلیوں کی ہوتی ہے۔

ہر سال کروڑوں مچھلیاں امریکی ساحلوں سے ہجرت کر کے ساؤتھ افریقہ کے شہر ڈربن کے ساحل پر آتی ہیں‘ انڈے دیتی ہیں اور واپس لوٹ جاتی ہیں اور چوتھی ہجرت وہیل مچھلیوں کی ہوتی ہے‘ ہر سال ستمبر اور اکتوبر میں لاکھوں کی تعداد میں دیوہیکل مچھلیاں روس سے ہرمینس آتی ہیں اور چند ماہ یہاں گزار کر واپس چلی جاتی ہیں‘ ہرمینس میں سیکڑوں سال سے یہ روایت چلی آ رہی ہے ایک خاص خاندان کے لوگ ستمبر کے آخر میں چٹانوں پر کھڑے ہو کر وہیل مچھلیوں کا انتظار کرتے ہیں اور انھیں جوں ہی پہلی وہیل نظر آتی ہے یہ بگل بجا کر پورے شہر کو مطلع کر دیتے ہیں‘ لوگ گھروں سے نکلتے ہیں۔

ساحل کے کنارے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوتے ہیں اور جھک کرمچھلیوں کا استقبال کرتے ہیں‘ ہم ہرمینس بھی گئے اور چار گھنٹے ڈرائیو کر کے دو سمندروں کے ملاپ کا نظارہ بھی کیا لیکن سب سے پہلے رابن آئی لینڈ۔

کیپ ٹاؤن کے علاقے واٹر فرنٹ سے رابن آئی لینڈ کے لیے فیریز چلتی ہیں‘ ہم نے فیری لی اور آدھ گھنٹے میں دنیا کی مشکل ترین جیل پہنچ گئے‘ جزیرے کے چاروں اطراف فینس لگی ہوئی ہے‘ دیوہیکل گیٹ بھی ہے‘ گیٹ کے اندر جیل کی سات مختلف بیرکس ہیں‘ ہمارے گائیڈ نے اپنے تعارف میں بتایا‘ میرا نام 45 ہے‘ میں 45 کیوں ہوں یہ میں آپ کو آخر میں بتاؤں گا‘ وہ ہمیں لے کر مختلف بیرکس میں پھرتا رہا‘ ہر بیرک اذیت ناک اور تکلیف دہ تھی‘ گائیڈ نے بتایا قیدی تین حصوں میں تقسیم تھے۔

سیاہ فام قیدی پاؤں‘ سر اور اوپری دھڑ سے ننگے ہوتے تھے‘ انھیں پہننے کے لیے صرف نکر دی جاتی تھی‘وہ فرش پر سوتے تھے اور انھیں ایک کھردری چٹائی اور بدبودار کمبل ملتا تھا‘ اس نے ہمیں کمبل اور دری بھی دکھائی تاہم انڈین اور سفید فام قیدیوں کو کپڑے اور بنکر بیڈ کی سہولت حاصل تھی‘ قیدیوں کو اٹھانے‘ جگانے اور کھانے کے لیے گھنٹی بجائی جاتی تھی اور جو قیدی گھنٹی کی آواز کو سیریس نہیں لیتا تھا اسے ٹکٹکی پر لٹا کر کوڑے مارے جاتے تھے‘ گائیڈ نے ٹکٹکی بھی دکھائی‘ عملے نے قیدیوں کی گفتگو سننے کے لیے بیرکس میں مائیکروفون بھی لگا رکھے تھے اور جاسوس بھی چھوڑے ہوئے تھے۔

وہ ہمیں آخر میں ایک بیرکس میں لے گیا‘ دھماکے سے بیرک کا آہنی دروازہ بند کیا اور پھر جیل کی رات کا نقشہ کھینچنا شروع کر دیا‘ اس کی آواز ڈرامائی اور انداز بیان میں خوف تھا‘ پورا گروپ خوف زدہ ہو کر اس کی گفتگو سن رہا تھا‘ اس نے وارڈنز کے مظالم اور قیدیوں کے دکھ کا نقشہ کھینچا اور جب ہم پوری طرح اس کے سحرکی گرفت میں آ گئے تو پھر اس نے انکشاف کیا میں بھی اس جیل کا قیدی تھا اور میرا نمبر 45 تھا‘ میں 16 سال کی عمر میں جیل آیا اور 6 سال بعد یہاں سے رہا ہوا‘ اس نے وہ جگہ بھی دکھائی جہاں وہ روزانہ رات کے وقت سوتا تھا اور ہم سب وحشت سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔

نیلسن مینڈیلا اور ان کے سیاسی ساتھی بیرک بی میں بند تھے‘ یہ چھ بائی آٹھ فٹ کے چھوٹے چھوٹے سیل تھے‘ سلاخوں کے دروازے کے بعد لکڑی کا دروازہ تھا‘ اس کی بندش کے بعد سیل مکمل طور پر بند ہو جاتا تھا‘ قیدی فرش پر سوتے تھے اور انھیں کھانے کے لیے دھات کی ایک پلیٹ اور ایک جستی مگ دیا جاتا تھا‘ سیاسی قیدیوں کو احاطے سے باہر نہیں نکالا جاتا تھا تاہم انھیں روزانہ صحن میں بٹھا کر پتھر تڑوائے جاتے تھے اور یہ بعدازاں جیل کی دیواروں اور فرش میں لگائے جاتے تھے۔

نیلسن مینڈیلا بھی جیل کے ایام میں مسلسل پتھر توڑتے رہے‘ احاطے میں انگور کی وہ بیل اور وہ درخت آج بھی موجود ہے جس کے نیچے نیلسن مینڈیلا نے اپنی بائیو گرافی کے صفحات چھپا دیے تھے اور انقلاب کے بعد وہاں سے یہ اوراق نکالے تھے‘ آپ ان لوگوں کا کمال دیکھیے انھوں نے اس سختی کے باوجود قیدیوں کے لیے ایک نئی اور خفیہ زبان بھی ایجاد کر لی تھی اور یہ ایک دوسرے سے اس زبان میں پیغام رسانی بھی کرتے تھے۔

مجھے جوہانس برگ میں نیلسن مینڈیلا کے داماد پرنس موزی (Muzi) سے ملاقات کا موقع بھی ملا‘ یہ سوازی لینڈ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ پرنس نے بتایا‘ ہم نے 1977 میں شادی کی‘ 1978 میں ہمارے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا تو ہم اسے لے کر نیلسن مینڈیلا سے ملاقات کے لیے گئے‘ ہمیں آدھا گھنٹہ ملا اور اس آدھ گھنٹے میں مینڈیلا صرف اپنے نواسے کو دیکھتے رہے اور خوش ہوتے رہے۔

رابن آئی لینڈ میں چند دل چسپ ریکارڈ بھی قائم ہوئے‘ مثلاً ڈیوڈ اسٹورمین (David Stuurman) نام کا ایک افریقی سردار دو بار اس جیل سے فرار ہوا‘ یہ پہلی مرتبہ نہ صرف تیر کر جیل سے فرار ہو گیا بلکہ دس سال جنگلوں میں چھپا بھی رہا‘ یہ دوسری بار گرفتار ہوا اور دوسری بار بھی فرار ہو گیا لیکن کیپ ٹاؤن کے ساحل سے پکڑا گیا اور اسے واپس لا کر زنجیر سے باندھ دیاگیا‘ یہ تیسری بار بھی فرار ہو رہا تھالیکن اسے رابن آئی لینڈ سے آسٹریلیا شفٹ کر دیا گیا اور وہ وہاں جیل میں انتقال کر گیا‘ دوسرا ریکارڈ مسلمان قیدی تھے‘ جیل میں ملائیشیا کے چند عالم دین بھی محبوس تھے۔

ان میں سے ایک شیخ کہلاتے تھے‘ وہ انتہائی پرہیزگارتھے‘ وہ رابن آئی لینڈ میں انتقال فرما گئے اور انھیں اسلامی طریقے سے دفن کر دیا گیا‘ تھوڑے عرصے بعد ان کی قبر سے خوشبو آنے لگی‘ مسلمان قیدیوں نے جیل کے عملے کو مطلع کیا‘ عملے نے جگہ کا معائنہ کیا اور وہ بھی شیخ کی کرامت سے متاثر ہو گئے‘ مسلمانوںنے بعدازاں قبر پر مقبرہ تعمیر کر دیا‘ انقلاب کے بعد مقبرے کے گنبد کو سبز رنگ کر دیا گیا‘ یہ اب رابن آئی لینڈ کی منفرد ترین جگہ ہے اور یہ پورے جزیرے سے دکھائی دیتی ہے‘ تیسرا ریکارڈ یہ دنیا کی واحد جیل ہے۔

جہاں آج ماضی کے وارڈن اور قیدی دونوں آتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ماضی کی باتیں کرتے ہیں‘ عملے نے قیدیوں پر بے تحاشا مظالم ڈھائے تھے لیکن نیلسن مینڈیلا نے سب کو معاف کر دیا اور یوں اب دونوں مل کر جیل کا وزٹ کرتے ہیں۔

چوتھا ریکارڈ جیل میں پڑھے لکھے قیدیوں نے ان پڑھ قیدیوں اور عملے دونوں کو پڑھایا تھا‘ نیلسن مینڈیلا کا قول تھا ’’ایچ ون ٹیچ ون‘‘ (Each one teach one) لہٰذا جیل کے خاتمے کے بعد دو تہائی لوگ پڑھے لکھے تھے‘ پانچواں ریکارڈ یہ دنیا کی واحد جیل ہے جس کے دو قیدی صدر بنے اور ایک نے نوبل انعام حاصل کیا اور چھٹا اور آخری ریکارڈ یہ دنیا کی واحد جیل ہے جسے یونیسکو نے عالمی ورثہ ڈکلیئر کیا اور ہم سارا دن اس جیل میں پھرتے رہے اور نیلسن مینڈیلا کے صبر اور برداشت کی داد دیتے رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔