سیلابی صورتحال اور حکومتی ذمے داریاں

ایڈیٹوریل  جمعرات 22 ستمبر 2022
کیا حکومت مستقبل میں آنے والے کسی بھی ممکنہ سیلاب کے موقع پر یونہی عالمی اداروں سے امداد کی طلب گار رہے گی۔ فوٹو:فائل

کیا حکومت مستقبل میں آنے والے کسی بھی ممکنہ سیلاب کے موقع پر یونہی عالمی اداروں سے امداد کی طلب گار رہے گی۔ فوٹو:فائل

پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے پیش نظرفرانس اور پاکستان نے معیشت کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

منگل کو وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے درمیان نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس کے موقع پر دو طرفہ ملاقات ہوئی جس کے بعد اسلام آباد اور پیرس سے ایک ساتھ جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کو بڑھانے ،موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں اس کی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر بحال کرنے اور اس کی تعمیر نو میں مدد کے لیے بین الاقوامی حمایت کو متحرک کرنے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

اعلامیہ کے مطابق فرانس اس سال کے اختتام سے قبل متعلقہ بین الاقوامی مالیاتی شراکت داروں اور ترقیاتی شراکت داروں کو اکٹھا کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرے گا جس کا مقصد پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو میں حصہ ڈالنا، موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق فنانسنگ اور قابل تجدید توانائی کی منتقلی کو تیز کرنے کے لیے اس کی مدد کرنا ہے۔

اسلام آباد میں وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے فرانسیسی صدر کے ساتھ ملاقات میں اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان فرانس کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اور یورپی یونین کے تناظر میں اپنے دیرینہ دوستانہ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، زراعت، آئی ٹی، دفاع، سلامتی، اعلیٰ تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، جی ایس پی پلس کے لیے فرانس کی جانب سے پاکستان کی حمایت پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اس سے یورپی یونین کے ساتھ ساتھ فرانس کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات بڑھانے میں بھی مدد ملی ہے۔

وزیراعظم نے فرانس کے صدر کو پاکستان میں بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں اور سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے سیلاب متاثرہ افراد کے ساتھ یکجہتی اور امداد جس میں خیمے، واٹر پمپ ، ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل کی ٹیم بروقت بھجوانے پر فرانسیسی صدر کا شکریہ ادا کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے امید ظاہر کی کہ فرانس بحالی اور تعمیرنو کے مرحلہ میں بھی حکومت پاکستان کی کوششوں میں تعاون کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کاربن کے اخراج میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے باوجود پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ ہے، جیسا کہ حال ہی میں سیلاب سے ظاہر ہوا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کرہ ارض جل رہا ہے اور اس سے لگی آگ میں لوگ بھسم ہورہے ہیں،80 فیصد زہریلی گیسوں کے ذمے دار جی۔20 ممالک جب کہ ان کے بدترین اثرات پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ملک بھگت رہے ہیں۔

منگل کو نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے77 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتریس نے ترقی یافتہ ممالک، عالمی مالیاتی اداروں اورFOSSIL ایندھن کی کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی بدترین تباہ کاریوں کا ازالہ کرنے کے لیے ترقی پذیر ملکوں خصوصاً پاکستان کی مدد کریں جس کا پورے برطانیہ کے برابر علاقہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔انتونیوگوتریس نے کہا کہ انھوں نے خود پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والی تباہی کا مشاہدہ کیاہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا بحران اخلاقی اورمعاشی عدم مساوات کے لیے ایک اسٹڈی کیس ہے جو ترقی پذیر دنیا کے ساتھ روا رکھا جارہاہے۔

ہالی ووڈ اداکارہ اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی خصوصی سفیر انجلینا جولی ایک بار پھر پاکستان پہنچ گئیں،انھوں نے سیلاب متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا، سیلابی صورتحال کاجائزہ لینے کے لیے کشتی کا بھی استعمال کیا،انجلینا جولی نے متاثرہ خواتین سے ان کی ضروریات اور مسائل پر بات کی،انجلینا جولی اس سے قبل 2010 کے سیلاب اور 2005  کے زلزلے کے متاثرین سے ملاقات کے لیے بھی پاکستان آچکی ہیں۔

دریں اثنا ایشیائی ترقیاتی بینک نے حکومت پاکستان کی سیلاب متاثرین اور متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے ہنگامی امدادی کاموں میں مدد کے لیے 30لاکھ ڈالر کی گرانٹ کی منظوری دے دی ہے، یہ گرانٹ کاشت کاروں کی فصلوں کے نقصانات کے ازالے،بنیادی ڈھانچہ کی دوبارہ تعمیر نو اور متاثرین کی آباد کاری کی مد میں فراہم کی جائے گی۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اثرات اور پاکستان میں آنے والے سیلاب کا آپس میں گہرا تعلق ہے‘ یہ پوری دنیا کے لیے ایک اشارہ ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک شدید طور پر متاثر ہو سکتا ہے تو ترقی یافتہ ممالک جن کا ان موسمیاتی تبدیلیوں میں بنیادی کردار ہے‘ بھی مستقبل میں ان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو سکتے ہیں اور وہاں بھی سیلابی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

لہٰذا ترقی یافتہ دنیا کو اس سیلابی صورت حال کو صرف پاکستان کا مسئلہ ہی سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ ابھی سے اس سے بچاؤ کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ عالمی ادارے ’’جرمن واچ‘ نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے جائزے پر مبنی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

برطانیہ کے موسمیاتی ادارے کی تحقیق کے مطابق موسموں کی شدت میں پاکستان اور بھارت میں ریکارڈ ٹوٹنے کے امکانات سو گنا سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں۔ ان رپورٹوں اور جائزوں سے یہ صورت حال واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اثرات اب رکنے والے نہیں اور مستقبل میں ہمیں ان اثرات سے پیدا ہونے والی آفات کا مسلسل سامنا رہے گا۔

یہ صورت حال زیادہ تشویشناک ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں میں تو بنیادی کردار ترقی یافتہ ممالک کا ہے جب کہ وہ ممالک جن کا اس میں کردار بہت معمولی ہے وہ موسمیاتی آفات کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ اس وقت تو حکومت اور عالمی ادارے سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کر رہے ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں رپورٹوں سے مستقبل میں آنے والی موسمیاتی آفات کے خدشے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

کیا حکومت مستقبل میں آنے والے کسی بھی ممکنہ سیلاب کے موقع پر یونہی عالمی اداروں سے امداد کی طلب گار رہے گی۔امداد کا حصول اور سیلاب متاثرین کی بحالی تو وقتی حل ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقبل میں سیلاب سے پیدا ہونے والے خوفناک اثرات سے بچاؤ کے لیے آبی ذخائر کی تعمیر اور دیگر منصوبوں پر توجہ دی جائے۔

کالا باغ ڈیم کو سندھ اور خیبرپختونخوا سے مشورے کے بعد تعمیر کیا جا سکتا ہے صوبے اپنی متفقہ رائے سے ڈیم کی اونچائی کا تعین کریں‘ ڈیم کی تعمیر سے سندھ اور خیبرپختونخوا کو بھی خاطر خواہ فائدہ پہنچے گا‘ نئی نہریں تعمیر ہونے سے جہاں پانی کی کمی پر قابو پانے میں مدد ملے گی وہاں زرعی شعبے کو بھی ترقی ملنے سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے‘ سندھ کے بنجر علاقوں میں فصلیں لہلہانے لگیں گی اس کے علاوہ سیلاب سے پیدا ہونے والے خوفناک اثرات میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی۔

اس وقت جب ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے سیاستدانوں کا کردار قابل رشک ثابت نہیں ہوا‘ اپوزیشن اور حکومت میں شامل جماعتیں اس نازک وقت میں متحد ہو کر ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے بجائے باہم دست و گریبان ہیں۔ اگر اس وقت اپوزیشن اور حکومت میں شامل جماعتیں متحد ہو کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں تو اس سے پوری دنیا میں خوشگوار پیغام جائے گا اور عالمی ادارے بھی پاکستان کی مدد کے لیے زیادہ سرگرمی سے اپنا کردار ادا کریں گے۔

دوست ممالک اور عالمی برادری کی طرف سے پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے دی جانے والی امداد قابل ستائش ہے‘ حکومتی قیادت کو بھی اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ یہ وقت سیاسی لڑائی جھگڑوں میں الجھنے کا نہیں بلکہ سیلاب زدگان کی امداد اور فوری بحالی کا ہے‘ سیاستدانوں کی ایک تعداد کافی خوشحال ہے اگر وہ سب متحد ہو کر سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے آگے آئیں تو اس سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں‘ ابتلا اور آزمائش کی اس گھڑی میں انھیں عوام کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔

ماضی میں پاکستان میں سب سے بڑا سیلاب 2010میں آیا تھا اب 2022میں اس سے بڑا سیلاب آیا ہے‘ اب مزید کسی سیلاب کا انتظار کرنے کے بجائے حکومت کو اس سے بچاؤ کے لیے ممکنہ ذرائع کو بروئے کار لانا چاہیے اور جن ممالک نے سیلاب سے بچاؤ کے لیے جدید ذرائع استعمال کیے ہیں ان سے بھی مستفید ہوا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔