پاکستان کو سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی پر بات چیت جاری ہے، امریکا

عادل جواد  جمعرات 20 مارچ 2014
چین سے ایٹمی ری ایکٹرزکی فراہمی کے معاہدے پرشکایت نہیں،سندیپ کے پال ۔ فوٹو : ایکسپریس

چین سے ایٹمی ری ایکٹرزکی فراہمی کے معاہدے پرشکایت نہیں،سندیپ کے پال ۔ فوٹو : ایکسپریس

کراچی: امریکی سفارتخانے کے نائب ترجمان سندیپ کے پال نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کوسول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی کے معاملے پرماہرین کی سطح پربات چیت جاری ہے۔

مستقبل میں ایسے کسی معاہدے کویکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا،چین اور پاکستان کے مابین ایٹمی ری ایکٹرزکی فراہمی کے معاہدے پرپاکستان سے کوئی شکایت نہیں ہے تاہم چین کی جانب سے نیوکلیئرسپلائرزگروپ کے معاہدوں پرمکمل عمل درآمد نہ کیے جانے کے سبب تحفظات ہیں، پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے توانائی، تعلیم، صحت اور زراعت کے شعبوں میں ہرسال ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں، پاکستان اور خطے کو پائیدار، محفوظ اورخوشحال بنانے کے خواہشمند ہیں، بھارت اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بتدریج بہتری لائی جاسکتی ہے۔طالبان کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات پر ہماری کوئی پوزیشن نہیں ہے، یہ مکمل طور پاکستان کا داخلی معاملہ ہے وہ کراچی میں روزنامہ ایکسپریس کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں اظہار خیال کررہے تھے۔ سندیپ کے پال نے کہا کہ پاکستان کو نیوکلیئر ری ایکٹرز کی فراہمی سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے اصول و ضوابط متاثرہوسکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ پاکستان کو توانائی کے شعبے میں مختلف سیکٹرز میں معاونت فراہم کررہے ہیں اب تک پاکستان کے 4 ڈیمز کی تعمیر یا ان کی تعمیر نوکرچکے ہیں۔

تھرمل پاور پلانٹس کی تعمیر نو بھی کی گئی ہے جبکہ قدرتی گیس، شمسی توانائی اور ونڈ انرجی کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کی جارہی ہے،انھوں نے کہاکہ پاکستان، افغانستان اور ترکمانستان گیس پائپ لائن اور سینٹرل ایشیا سے پاکستان کی بجلی کی فراہمی کے منصوبوں پر بھی امریکا کی مکمل معاونت شامل ہے،انھوں نے کہا کہ امریکا کی بین الاقوامی پالیسی کے تحت ہم ماحول دوست توانائی کے منصوبوں پر کام کررہے ہیں کوئلے کے مقابلے میں شمسی توانائی، قدرتی گیس اور ہوا کے ذریعے بجلی کی فراہمی کے منصوبے ہماری ترجیحات میں شامل ہیں، سندیپ پال کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے ساتھ تعلقات پاکستان کا داخلی معاملہ ہے، پاکستان اپنی قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کسی بھی ملک تعلقات استوار کرتا ہے تو اس معاملے سے امریکا کا کوئی تعلق نہیں ہے، ایران، پاکستان گیس پائپ لائن پر ہمیں تحفظات ہیں، جو پابندیاں ایران پر ہیں وہ ختم نہیں کی گئی ہیں جاری ہیں انھیں کچھ کم ضرور کیا گیا ہے تاہم پابندیاں تاحال برقرارہیں، انھوں نے کہا کہ خطے میں دیرپا امن کے قیام اور خوشحالی کیلیے پاکستان، افغانستان اور بھارت کے تعلقات نہایت اہمیت کے حامل ہیں، تینوں ممالک اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر وہ معاشی طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو انھیں ایک دوسرے سے تعلقات کو بہتر کرنا ہوگا، کسی حد تک تینوں ممالک نے ترجیحات کا تعین بھی کرلیا ہے اب صرف ان کا نفاذ باقی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم اس خطے کو بھی پائیدار، محفوظ اور خوشحال ملک دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کیلیے اگر رشتے بہتر ہوجائیں گے تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے اور یہی پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے مفاد میں ہے اور یقینا امریکا کے بھی مفاد بھی ہیں، تینوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بڑھانا ہے اور یہ عوامی اور تجارتی سطح پر تعلقات کے فروغ سے بہتر کیا جاسکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ یہ آسان بات ہے کہ یورپی ماڈل کو دیکھیں، کتنا وقت لگا انھیں اپنی معیشت کو باہم ربط کرنے میں یہ ایک دن میں نہیں ہوسکتا لیکن کہیں سے تو شروعات کرنا ہوگی، انھوں نے کہا کہ امریکا کوآزادی صحافت، صحافیوں پر ہونے والے پرتشدد حملوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش ہے، امریکی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہیومن رائٹس سپورٹ میں یہ تمام معاملات انتہائی تفصیل سے درج ہیں پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی، کاؤنٹر ٹیرازم، انسانی حقوق سمیت ہر معاملے پر بات چیت کرتے ہیں، امریکا کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا امریکا اور پاکستان دونوں کے قومی مفاد میں ہے اور دونوں ممالک کو اس سے فائدہ ہوتا ہے کیونکہ اگر پاکستان کی معیشت میں بہتری آئے گی تو تجارت امریکا سے بھی بڑھے گی اورا گر ہم پاکستان کی مدد کررہے ہیں تو تجارت ہماری بھی بڑھے گی، انھوں نے کہا کہ امریکا طویل المدت تعلقات کا خواہاں ہے، توانائی، زراعت اور تعلیم کے شعبوں میں کیا جانے والا تعاون اس کی ناقابل تردید مثال ہے، انھوں نے کہا کہ تاثر غلط ہے کہ 2014 کے بعد امریکا کی ترجیحات بدل جائیں گی، انھوں نے کہا کہ امریکا گزشتہ 4 سالوں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت پاکستان میں 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔