خواہشات کے نہ ختم ہونے والے چکر

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 23 ستمبر 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

روس کے عظیم مصنف لیو ٹالسٹائی نے 1893 میں ایک افسانہ لکھا ’’ فارغ لوگوں کی گفتگو۔‘‘ کچھ مہمان ایک امیر کے گھر میں جمع تھے زندگی کے بارے میں سنجیدہ گفتگو ہورہی تھی وہ موجود اور غیر حاضر سب کے حوالے سے بات کررہے تھے نہ تو کوئی شخص اپنے خوش رہنے کی شیخیاں بگھار رہا تھا اور نہ ہی کوئی ایک بھی شخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ ایک مذہبی شخص کے طور پر زندگی گزار رہا ہے سب نے اعتراف کیا کہ وہ دنیاوی زندگی گذار رہے تھے جس میں وہ اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میںہی فکر مند تھے۔

ان میں سے کوئی بھی مذہب تو دور کی بات اپنے ہمسائے کے بارے میں بھی متفکر نہیں تھا۔ اس بات پر سب متفق تھے اور اپنے آپ کو غیر مذہبی زندگی گذارنے پر مورد الزام ٹہرا رہے تھے ’’ تو پھر ہم کیوں ایسی زندگی گزار رہے ہیں؟‘‘ ایک نوجوان نے استفسار کیا ’’ ہم وہ کیوں کر رہے ہیں جسے ہم پسند نہیں کرتے؟ کیا ہم اپنی زندگی گزارنے کا طریقہ بدلنے کا اختیار نہیں رکھتے؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم اپنی عیاشی ، بزدلی ، اپنی امارت اور سب سے بڑھ کر اپنے تکبر اور اپنے دوستوں سے علیحدگی سے برباد ہورہے ہیں۔

عالی مرتبہ اور امیر ہونے کے لیے ہم اپنے آپ کو اس سب سے محروم کردیتے ہیں جس سے آدمی کو خوشی ملتی ہے ، اپنی صحت تباہ کر لیتے ہیں اپنی تمام تر تفریحات کے باوجود بیزاری سے اور اس تاسف میں کہ ہماری زندگی ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے مرجاتے ہیں ہم ایسے کیوں رہتے ہیں؟ ہم کیوں اپنی زندگی اور جو اچھائی خدا نے ہمیں دی ہے کو برباد کردیتے ہیں ؟ میں اس پرانی طرز پر زندہ رہنا نہیں چاہتا میں اپنی پڑھائی جو میں کررہا ہوں چھوڑ دوں گا۔

یہ مجھے اسی اذیت دہ زندگی تک لے جائے گی جس کی ہم سب شکایت کررہے ہیں ، میں اپنی جائیداد چھوڑ دوں گا، گاؤں چلا جاؤں گا اور غربا کے ساتھ رہوں گا ، میں ان کے ساتھ کام کروں گا ، اپنے ہاتھ سے مزدوری کرنا سیکھوں گا اور اگر میری تعلیم کا غریبوں کو کوئی فائدہ ہوا تو میں اسے ان کی کتابوں اور اداروں کے ذریعے نہیں بلکہ برادرانہ طور پر بانٹوں گا، میں نے ارادہ کر لیا ہے‘‘ اس نے اپنے والد کی طرف جو وہیں موجود تھا استفساریہ انداز میں دیکھتے ہوئے اضافہ کیا۔ اس کے والد نے کہا ’’ تمہاری خواہش بہت عمدہ ہے لیکن سوچ وبچار کے بغیر اور عقل و فہم سے عاری ہے تمہیں یہ سب کچھ آسان لگ رہا ہے اس لیے کہ تم زندگی کو نہیں جانتے۔ بہت سی چیزیں ہمیں اچھی لگتی ہیں لیکن ان کی تکمیل مشکل اور پیچیدہ ہوتی ہے۔

ایک پامال راستے پر چلنا مشکل ہے لیکن نیا راستہ بنانا مشکل تر ہے۔ نوجوان خاموش ہوگیا اور باقی تمام پختہ عمر مہمان والد کے ساتھ متفق تھے۔ بحث افسانے میں آگے بڑھتی رہتی ہے ، سب اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کرتے رہتے ہیں۔

افسانے کے آخر میں ایک اجنبی جواب تک خاموش بیٹھا تھا کہتا ہے ’’کتنی عجیب بات ہے ہم سب کہتے ہیں کہ خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے جینا درست ہے اور ہم غلط زندگی گذار رہے ہیں۔ بدنی اور روحانی اذیت برداشت کررہے ہیں لیکن جونہی عمل کی بات آتی ہے تو فوراً کہا جاتا ہے کہ بچوں کو پریشان نہیں کرنا چاہیے اور ان کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر نہیں بلکہ پرانے انداز پر ہی پرورش کرنی چاہیے۔ نوجوانوں کو اپنے والدین کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

شادی شدہ شخص کو اپنی بیوی بچوں کو پریشان نہیں کرنا چاہیے اور خدائی حکم پر نہیں بلکہ پرانے انداز میں جینا چاہیے اور بوڑھوں کو کوئی ایسا کام جس کے وہ عادی نہ ہوں شروع نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ انھوں نے اب بہت تھوڑے دن زندہ رہنا ہے ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم میں سے کسی کو بھی درست طرز زندگی نہیں گذارنی۔ ہم بس صرف اس بارے میں گفتگو کرسکتے ہیں۔‘‘ دنیا کے ہر خطے کا ہر امیر انسان بس زندگی میں پھولوں سے پٹے راستے پر آخری دم تک چلنا چاہتا ہے۔ زندگی کی تمام سچائیوں ، حقیقتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود وہ ان پر عمل پیرا ہونے سے خوفزدہ اور ڈرتا رہتا ہے۔

اپنے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے خاندان میں سے کسی کو بھی اس راستے پر چلتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے اندر یہ کیفیت کب جنم لیتی ہے؟ علم کی کمی اور ناقص تربیت اس کی سب سے بڑی وجوہات ہوتی ہیں اور دیگر وجوہات میں دوسروں سے افضل نظر آنے کی خواہش ، جھوٹی انا کی تسکین ، اندر کا ڈر اور خوف ، بچپن کا ادھورا پن اس کے اندر بھوک کا جنم لے لینا ، خواہشات کے ہاتھوں قید ہوجانا شامل ہیں۔ عظیم فلسفی آرتھر شو پنہار کہتا ہے ’’ ایک وقت گذرنے کے بعد انسان متنبہ ہوتا ہے کہ اس کی وہ ساری امیدیں اور ترجیحات جن کے مطلوب پر کبھی وہ دل و جان سے سعی کرتا رہا تھا اور اب ان کا حصول بھی کر چکا ہے اس کے لیے بے کار ہیں ۔

زمانے کے نشیب و فراز نے اب اس کی شخصیت کو ایک نئے پیکر میں ڈھال دیا ہے گویا کہ اب وہ اس انسان سے بالکل مختلف شخص ہے جس نے ابتداء میں کبھی ان تمام آرزؤں کو پانے کی خاطر اس زمین پر عالی ہمت جدوجہد کی تھی اور ولولے سے لبریز تھا وقت انسان کو تھکا کر اس کی تمام صلاحیتوں کو ماند کر دیتا ہے اور اس کے تمام ارادے تکمیل سے قبل راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں یہ قاعدہ ان تمام نیکیوں اور اچھائیوں پر بھی ثابت ہوتا ہے جن کو انسان بڑی مشقت سے سر انجام دیتا ہے اور اپنے نفس کو خطروں میں ڈال کر ان کا عامل بنتا ہے۔

ایک وقت پھر وہ بھی آتا ہے جب اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ بے مقصد نیکی کررہا ہے اور اس ایثار کا کوئی پھل اسے ملنے والا نہیں اور اسے یہ ادراک ہوتا ہے کہ وہ لایعنی کی خاطر زندگی گذار تا رہا ہے یہ انسان اور اس جیسے دوسرے لوگ ان کی مثال یہ ہے کہ پہلے وہ کسی منزل اور مرتبہ کو پانے کی خاطر بے پنا ہ محنت کرتے ہیں لیکن اس کے حصول کے بعد ان کے قویٰ ختم ہوجاتے ہیں اور انھیں خیال آتا ہے کہ یہ تو بے معنیٰ چیز ہے اور پھر اس سے جدا ہوجاتے ہیں پس ، اس طرح حقیقت ہمارے پاس تاخیر سے ہی آتی ہیں یا پھر یہ کہنا چاہیے کہ ہم اسے وقت گذرنے کے بعد ہی جان پاتے ہیں۔ ‘‘امریکی ریاست نیو جرسی کی پرنسٹن یونیورسٹی کے نفسیات کے شعبے کے محققین کی رہنمائی میں کی جانیوالی نئی تحقیق میں حاصل ہونیوالے نتائج کیمطابق جب ہم اعلیٰ معیار زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں تو ہم زیادہ چیزیں حاصل کرنے کی جانب جاتے ہیں ۔ اپنے مقالے میں محققین کا کہنا ہے کہ قدیم سے لے کر جدید لٹریچر تک انسان کی تاریخ ہمیشہ خوشی حاصل کرنے کی مشقت کی کہانیوں سے بھری نظر آتی ہے ۔

اس کے متضاد خوشی ایک ایسا جذبہ ہے جس کی تلاش میں انسان سب سے زیادہ تگ و دو کرتا ہے لیکن پھر بھی کئی لوگوں کے لیے اس مقصد کا حصول مبہم رہتا ہے۔ اصل میں ہم خواہشات کے نہ ختم ہونیوالے چکر میں پھنسے ہوتے ہیں۔ یہ تازہ تحقیق ذہنی امراض جیسے کہ ڈپریشن ، مادیت پرستی اور ضرورت سے زیادہ کھپت کے علاج میں معاون ثابت ہوگی۔ اصل میں خوشی ہماری اندر چھپی ہوتی ہے جسے ہم پوری زندگی تلاش نہیں کر پاتے ہیں اور اسے ہر جگہ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔