پاکستان میں نظام ِخوراک کیسے محفوظ بنایا جائے؟

سید عاصم محمود  اتوار 25 ستمبر 2022
بائیس کروڑ پاکستانیوں کی زندگیاں برقرار رکھنے والے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے قیمتی تجاویز و مشورے ۔ فوٹو : فائل

بائیس کروڑ پاکستانیوں کی زندگیاں برقرار رکھنے والے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے قیمتی تجاویز و مشورے ۔ فوٹو : فائل

وطن عزیز میں شدید بارشوں سے جنم لینے والے سیلابوں نے جہاں کثیر جانی ومالی نقصان پہنچایا، وہیں تیس تا چالیس لاکھ ایکڑ رقبے پہ موجود فصلیں اور باغات بھی زیرآب کر ڈالے۔کئی مقامات پر فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔

اس باعث خدشہ ہے کہ اگلے چند ماہ تک اناج، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں بلند رہیں گی۔گویا سیلابوں کی آفت نے پاکستان میں مہنگائی مذید بڑھا دی جو ماضی کے کئی ریکارڈ توڑ چکی ۔اس صورت حال نے نچلے و متوسط طبقات کے کروڑوں پاکستانیوں کو پریشان و سراسیمہ کر دیا جو پہلے ہی ایندھن اور اشیائے خوراک خریدنے میں اپنی بیشتر آمدن خرچ کر رہے تھے۔

ایک اہم سبق

یہ خوفناک سیلاب ہمیں بعض اہم سبق دے گئے۔اہم سبق یہ کہ پاکستان براہ راست آب و ہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آ چکا جنھوں نے فضا میں سبز مکانی گیسیں بڑھنے سے جنم لیا۔یہ گیسیں چھوڑنے میں پاکستان کا حصّہ صرف ایک فیصد ہے…ستم ظریفی مگر یہ کہ ان تبدیلیوں سے متاثرہ ترین ممالک میں پاکستان کا نواں نمبر ہے۔انہی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں گرمی کی لہریں(Heat Waves)چلنا، قحط پڑنا، بے وقت کی اور طوفانی بارشیں ہونا اور سیلاب آنا معمول بن رہا ہے۔

ان آفات کے کئی جانی و مالی نقصانات ہیں۔سب سے بڑھ کر انھوں نے پاکستان کے نظام ِخوراک کو تباہ ہونے کے خطرے سے دوچار کر ڈالا ہے۔ یہ نظام ہی پاکستانی قوم کی زندگی ضامن ہے۔

اس سال انہی آب وہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے زیادہ بارشیں ہوئیں۔ بارشوں سے قبل ماہ اپریل سے گرمی کی شدید لہریں چل پڑی تھیں جو ایک اور عجوبہ تھا۔ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آب وہوائی تبدیلیوں کے سبب مستقبل میں کثیر بارشیں ہو سکتی ہیں۔مذید براں موسم گرما میں پہاڑوں پہ برف پگھلنے سے بھی دریاؤں اور ندی نالوں میں زیادہ پانی آ جاتا ہے۔ہمالیہ کے گلیشیر درجہ حرارت بڑھنے سے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

یوں ان کے ناپید ہونے کا خطرہ جنم لے چکا۔یاد رہے، قطبین کے بعد سب سے زیادہ گلیشیر ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑوں پر ہی واقع ہیں۔حالات گویامتقاضی ہیں، حکومت فوراً دور اندیشی دکھاتے ہوئے ایسے ٹھوس اقدامات کرے کہ خاص طور پہ ہمارا نظام ِخوراک گرمی کی لہروں ،قحط،طوفانی بارشوں اور سیلابوں سے جنم لینے والی آفتوں کابخوبی مقابلہ کر سکے۔ایک اہم اور ضروری قدم نئے ڈیموں کی تعمیر ہے۔ان کے بنانے سے اہل پاکستان اور ان کے نظام خوراک کو فوائد حاصل ہوں گے۔

ڈیم بننے لازم ہو چکے

ماہرین کا کہنا ہے کہ آب وہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے مون سون کا نظام بھی بدل رہا ہے۔اب کبھی بہت زیادہ بارشیں ہوں گی اور کبھی بہت کم ۔گویا بارشیں زیادہ ہونے سے سیلاب آ جائیں گے۔جبکہ کم بارشیں ہونے سے قحط پڑ جائے گا۔یہ ایسی انوکھی صورت حال ہے جس کا مقابلہ ڈیم موثر انداز میں کر سکتے ہیں۔پاکستان کے موزوں مقامات پر چھوٹے بڑے ڈیم بن جائیں تو ان سے دو بڑے اہم فوائد ملیں گے۔زیادہ بارشیں ہوئیں تو ان میں کثیر پانی جمع ہو سکے گا۔ابھی تو سیلاب آنے پہ لاکھوں کیوسک بیشتر سیلابی پانی بحیرہ عرب میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔

ڈیموں میں جمع شدہ پانی پہلے تو عوام کو تیز وتند سیلابی ریلوں سے محفوظ رکھے گا۔بعد ازاں وہ بجلی بنانے اور کھیتی باڑی کرنے میں کام آئے گا۔ڈیموں میں زیادہ پانی ذخیرہ ہونے سے پاکستان میں کاشت کاری کا رقبہ بھی بڑھایا جا سکے گا۔حالات سے واضح ہے، پاکستان کے طول وعرض میں ڈیم بن جائیں تو اس سے ملک وقوم کو بیش بہا فوائد حاصل ہوں گے۔

اول یہ کہ پانی وافر ہونے پہ کاشت کاری کا رقبہ بڑھنے سے ملک کو اناج ، سبزی اور پھل زیادہ میسّر آئے گا۔یوں ہم وطنوں کو سستی اشیائے خوراک مہیا ہو گی جن کی بڑھتی قیمتوں نے دما غ چکرا ڈالا ہے۔دوسرے ہمیں زیادہ سستی بجلی بھی ملے گی۔ابھی تو مہنگی بجلی کے بلوں نے عوام کو حواس باختہ کر رکھا ہے۔

مہنگائی اور آبادی

ایندھن اور اشیائے خوراک کی مہنگائی کا آبادی میں اضافے سے قریبی تعلق ہے۔1947 ء میں پاکستان کی آبادی تقریباً چار کروڑ تھی۔آج یہ تعداد بائیس کروڑ کے قریب پہنچ چکی۔اس دوران کاشت کاری کے رقبے میں بھی اضافہ ہوا جو اب چار کروڑ بیس لاکھ ایکڑ تک پہنچ چکا۔لیکن یہ رقبہ مختلف وجوہ کی بنا پر بڑھنے کے بجائے سکڑ رہا ہے۔جبکہ اشیائے خورونوش کی طلب بڑھ رہی ہے۔سبھی اہم پاکستان کو پیٹ بھر غذا درکار ہے۔مگر ہمارا زرعی شعبہ مختلف وجوہ کہ بنا پر خوراک کی طلب پوری نہیں کر پا رہا۔اسی لیے پاکستان میں غذائیں مہنگی ہیں بلکہ ان کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس باعث آج لاکھوں پاکستانی مرد، خواتین اور بچے رات کو بھوک کی حالت میں سونے پر مجبور ہو چکے۔یہ امر واضح ہے کہ وطن عزیز میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہا تو ایک وقت آئے گا نچلے و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پاکستانی بیشتر غذائیں خریدنے کی سکت کھو بیٹھیں گے۔اس صورت میں معاشرے میں بے چینی اور انتشار جنم لے گا۔حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے ٹھوس اقدامات کرے جو ملک میں اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں استحکام لے آئیں۔ اور ہر پاکستانی کو پیٹ بھر کر کھانا مل سکے۔یہی نہیں اسے جو غذائیت (Nutrition) درکار ہیں، وہ بھی مل جائیں۔

ایک اہم اقدام یہی ہے کہ دریاؤں پہ اور ان علاقوں میں ڈیم تعمیر کیے جائیں جہاں سیلابی ریلے جنم لیتے ہیں۔مثلاً اس سال کوہ سلیمان پر شدید بارشوں نے بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں تباہی پھیلا دی۔

اگر کوہ سیلمان کے سیلاب روکنے کے لیے بڑا ڈیم بنا ہوتا تو نہ صرف سیلابی ریلے جنم نہ لیے بلکہ کثیر مقدار میں پانی بھی ذخیرہ ہو جاتا۔یہ پانی پھر زراعت اور بجلی بنانے میں کام آتا۔لہذا یہ ضروری ہے کہ بارشوں سے پیدا شدہ ریلوں کے راستوں پہ موزوں مقامات پر ڈیم بنائے جائیں۔یہ ڈیم نہ صرف انسانوں، جانوروں اور فصلوں کو سیلاب سے محفوظ رکھیں گے، ان کی مدد سے قیمتی پانی ذخیرہ بھی کیا جا سکے گا۔

پانی کی کمی

یہ یاد رہے، آبادی بڑھنے سے وطن عزیز میں پانی کی کمی بھی جنم لے چکی۔1947ء میں ہر پاکستانی کو سال بھر میں 5620 کیوبک میٹر پانی میسّر تھا۔اب ہر پاکستانی کو صرف 935 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔قلت کے باعث ہی خصوصاً شہروں میں اکثر پانی نایاب ہو جاتا ہے۔تب اسے پانے کے لیے شہریوں کو دوڑدھوپ کرنا پڑتی ہے۔کراچی میں تو پانی کے ٹینکوں کی خریدوفروخت عام ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اہل پاکستان نے پانی محفوظ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو 2040ء تک ہر پاکستانی کو صرف 500 کیوبک میٹر سالانہ پانی میّسر ہو گا۔گویا تب پانی سونے کی طرح قیمتی بن جائے گا…وہ پانی جسے آج بھی بہت سے بے حس ہم وطن معمولی سمجھ کر بے دریغ ضائع کردیتے ہیں اور اپنے ضمیر پہ کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔عالمی اصول یہ ہے کہ جس ملک میں ہر شہری کو 1800کیوبک میٹر سالانہ پانی نہیں مل رہا تو سمجھیے کہ وہاں پانی کی کمی واقع ہو چکی۔

اس لحاظ سے پاکستان میں پانی کی کافی قلت جنم لے چکی تاہم بیشتر لوگ اس خرابی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔وہ پانی کو مال ِمفت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔پانی کے نظام کی دیکھ بھال کرنے والے سرکاری محکمے بھی الاماشاء اللہ غیر ذمے داری کا شاہکار ہیں۔پانی کی پائپ لائن کہیں پھٹ جائے تو کئی دن گذر جاتے ہیں ، اس کی مرمت نہیں ہو پاتی۔اس دوران ہزارہا کیوبک فٹ بیش قیمت پانی ضائع ہو جاتا ہے۔

دنیا کے سبھی زرعی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بیشتر میٹھا پانی شعبہ زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے کسانوں کی اکثریت کاشت کاری کے فرسودہ طریقے استعمال کرتی ہے۔اسی لیے کھیتی باڑی کے دوران پانی کی کھپت کافی زیادہ ہے۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی کسان ہی دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں۔جبکہ اکثر ملکوں میں زراعت کے ایسے طریقے اپنائے جا چکے جن میں پانی کم استعمال ہوتا ہے، نیز پیداوار بھی زیادہ ملتی ہے۔

لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری محکموں اور نجی شعبے کے تعاون سے ایسے جامع پروگرام شروع کرے جن سے پاکستانی کسانوں کو کھیتی باڑی کے جدید طریقوں سے آگاہی مل سکے۔تعلیم یافتہ پاکستانی کسان ازخود بھی ان طریقوں سے شناسائی پا سکتے ہیں۔اس سے انھیں یہ زبردست فائدہ ملے گا کہ پانی کی کھپت کم ہونے کے ساتھ ساتھ پیداوار میں اضافہ ہو جائے گا۔

سستی آبی بجلی
ڈیموں کی تعمیرکا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان کو سستی آبی بجلی وافر میّسر آئے گی۔اس وقت بجلی ہی تیل یا پٹرول کو پیچھے چھوڑتے دنیا کا اہم ترین ایندھن ہونے کا اعزاز پا چکی۔اسی لیے ترقی یافتہ ممالک میں تیزی سے بجلی کی گاڑیاں بن رہی ہیں۔اگلے ایک عشرے میں وہاں تیل سے چلنے والی گاڑیاں متروک ہو جائیں گی۔بجلی مختلف ذرائع سے بنتی ہے۔ان میں پانی بجلی بنانے کا بڑا سستا اور آسان ذریعہ ہے۔

نظریاتی طور پہ ہر جگہ چلتے پانی پہ ٹربائن لگا کر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں 60 تا 70فیصد بجلی تیل، گیس یا کوئلے سے بنتی ہے۔مگر یہ تینوں ایندھنی ذرائع بہت مہنگے ہو چکے۔

اسی لیے ان سے بنتی بجلی بھی مہنگی ہو گئی۔لیکن اس مہنگی بجلی کے بھاری بھرکم بل کروڑوں پاکستانی نہیں دے سکتے، اسی لیے انھوں نے کچھ عرصہ قبل پورے پاکستان میں احتجاج بھی کیے۔اسی احتجاج کی وجہ سے حکومت کو بلوں سے فیول ایڈجسٹمنٹ چارج ختم کرکے عوام کو ریلف دینا پڑا۔مگر نئے ڈیموں کی تعمیر سے مہنگی بجلی ہی نہیں جان کے لیے عذاب بن جانے والا لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بھی ختم ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پہ وطن عزیز میں دس بڑے ڈیم بن جائیں تو وہ کم از کم بیس پچیس ہزار میگا واٹ بجلی بنا سکیں گے۔فی الوقت موسم گرما میں پاکستان کو تقریباً 28 ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔جبکہ تمام ذرائع سے تقریباً 22 ہزار میگا واٹ بجلی بن رہی ہے۔چناں چہ لوڈ شیڈنگ کر کے بجلی کی کمی پہ قابو پایا جاتا ہے۔اگر جنگی بنیادوں پر نئے ڈیم تعمیر ہو جائیں تو نہ صرف اہل پاکستان کے سروں سے لوڈشیڈنگ کا عذاب ہٹے گا بلکہ انھیں سستی آبی بجلی بھی ملنے لگے گی۔گویا ایک تیر سے دو شکار والا معاملہ ہے۔

مجرمانہ حد تک غفلت
ہمارے حکمران طبقے کو اس امر کا احساس بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا کہ پاکستان کو مذید ڈیموں کی ضرورت ہے مگر سیاسی و گروہی مفادات کی وجہ سے کئی اہم ڈیم تعمیر ہونے سے محروم رہ گئے۔اب بھی جو سیاسی جماعتیں برسراقتدار آئیں، ان کے کارپرداز عموماً عوام پاکستان کی بہتری کے منصوبے بنانے سے زیادہ ذاتی مفادات کی تکمیل پہ زیادہ توجہ دیتے ہیں۔انھیں کرسی بچانے یا پھر مال بنانے کی فکر ہوتی ہے۔

یہ حقیقت بہرحال عیاں ہے کہ مستقبل میں پاکستان آب وہوائی تبدیلیوں کے باعث کبھی قحط ہو گا اور کبھی تیز بارشیں ہوں گی۔دونوں صورتوں میں ڈیم میں محفوظ پانی کام آئے گا۔ سچ یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں مجرمانہ حد تک غفلت برتی۔عالمی قانون یہ ہے کہ ہر ملک میں اتنے زیادہ ذخائر آب یا ڈیم ضرور ہونے چاہیں کہ ان میں تین ماہ (120 دن) تک کے لیے پانی جمع کیا جا سکے۔یعنی قحط یا کوئی اور آفت آنے کی صورت میں تین ماہ ان ذخائر سے ضرورت کا پانی ملتا رہے۔لیکن پاکستان کے ڈیم صرف ایک ماہ (30دن) کے لیے پانی ہی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔

معنی یہ کہ اگر خدانخواستہ کبھی بارشیں نہ ہوں اور پہاڑوں پر برف بھی نہیں پگھلے تو صرف ایک ماہ میں پاکستانی ڈیم پانی سے خالی ہو جائیں۔تب پانی نہ ہونے سے زراعت اور عام لوگوں، دونوں پہ زبردست منفی اثرات مرتب ہوں گے۔معاشرے میں انتشار اور افراتفری کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔پانی سے محروم ہو کر عوام حکمرانوں کو جی بھی کر کوسنے دیں گے۔اسی خوفناک وقت سے بچنے کے لیے پاکستانی حکومت کو زیادہ سے زیادہ ڈیم اور ذخائر ِآب تعمیر کرنا ہوں گے …ورنہ اسے لوگوں کے پُرتشدد احتجاج کا سامنا کرنے کی خاطر تیار رہنا ہو گا۔

بھارتی حکمران بازی جیت گئے
ہر ترقی پذیر ملک کی طرح بھارت کا حکمران طبقہ بھی خود غرض اور اپنے مفادات کا اسیر ہے۔تاہم وہ عام آدمی کی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے انھیں دور کرنے کی کوششیں بھی کرتا ہے۔وہ عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے بناتا اور ان پہ کھربوں خرچ کرتا ہے۔بھارت کے طول وعرض میں نت نئے ڈیموں کی تعمیر بھی اس دعوی کا ثبوت ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے آزادی کے بعد پورے ملک میں کئی ہزار نئے ڈیم تعمیر کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے، عنقریب دنیا میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے کے باوجود بھارت سات ماہ (210 دن)تک قومی سطح پر پانی کی تمام ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں 5334 ڈیم اور ذخائر آب تعمیر ہو چکے۔جبکہ 400 ڈیم یا ذخائر آب زیرتعمیر ہیں۔ان کے علاوہ ہزارہا چھوٹے ڈیم اور آبی ذخیرے بھی معرض وجود میں آ چکے۔ان ڈیموں اور آبی ذخیروں کی وجہ سے بھارت میں نہ صرف کروڑوں ایکڑ رقبہ زیرکاشت آ چکا بلکہ 90ہزار میگا واٹ سستی آبی بجلی بھی بن رہی ہے۔اہل بھارت کو یہ زبردست کامیابی اسی لیے ملی کہ ان کے حکمران طبقے نے عوام کے ساتھ ساتھ اگلی نسلوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھا اور دور کی سوچ رکھتے ہوئے طویل المعیاد فلاحی منصوبے بنائے۔بھارت کی پچھلے حکومتوں نے جو درخت لگائے، ان کے پھل آج کی نسلیں کھا رہی ہیں۔اس کو کہتے ہیں: بہترین انتظام

حکومت(گڈ گورنس) اور عوام کی خدمت کرنے والی سیاست!اس باب میں بھارتی حکمران طبقہ پاکستانی حکمرانوں سے بازی جیت گیا۔

ماحول دوست ڈیم بنانا ممکن
دنیا کی تقریباً ہر شے کی طرح خصوصاً بڑے ڈیم منفی پہلو بھی رکھتے ہیں۔ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ڈیم تعمیر کرتے ہوئے قدرتی ماحول بدل جاتا ہے۔بہت سی جہگیں زیرآب آ جاتی ہیں۔وہاں آباد انسانوں کو نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔جبکہ جانوروں کے بسیرے بھی اجڑ جاتے ہیں۔پھر ڈیم میں رفتہ رفتہ مٹی اور ریت بھر جاتی ہے۔ اگر انھیں نہ نکالا جائے تو ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد کم ہو جاتی ہے۔

چناں چہ ڈیم کی صفائی پہ کثیر رقم خرچ ہوتی ہے۔منفی پہلوئوں کے باوجود دنیا بھی میں سائنس دانوں کی اکثریت ڈیم بنانے کی حامی بن چکی۔وجہ یہی کہ اس میں جمع شدہ پانی انسانی زندگی برقرار رکھنے والے دو اہم ترین شعبوں…زراعت اور توانائی کو رواں دواں رکھتا ہے۔یہ کھیتی باڑی میں کام آتا اور بجلی بناتا ہے ۔یہ بجلی رکازی ایندھن (تیل، گیس، کوئلے)سے بنی بجلی سے سستی اور ماحول دوست ہوتی ہے۔آبی بجلی سبزمکانی گیسیں خارج نہیں کرتی۔نیز دھوپ و ہوا سے بنی بجلی سے سستی پڑتی ہے۔ ڈاکٹر بنجمن سوکل برطانیہ کی سیکس یونیورسٹی میں انرجی پالیسی کے پروفیسر ہیں۔وہ کہتے ہیں:

’’آج کل ڈیم بنانے کی جدید ٹکنالوجی آ چکی۔اس ٹکنالوجی کی مدد سے ایسے ڈیم بنانا ممکن ہو چکا جو قدرتی ماحول پہ کم سے کم منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ڈیم بذات خود اچھے یا برے نہیں ہوتے۔ان کو جس طریقے سے تعمیر کیا جائے، وہ اچھا یا بُرا ہوتا ہے۔لہذا ایک اچھے منصوبے اور اچھی ٹکنالوجی کی مددسے ماحول دوست ڈیم بنانا ممکن ہو چکا۔‘‘

پاکستان کے نظام خوراک کو بدقسمتی سے کئی خطرات لاحق ہو چکے۔ان میں قابل ذکر یہ ہیں:’’زرعی اشیا(بیج، کھاد، کیڑے مار ادویہ) کا مہنگا ہونا، پانی کی کمی، آبادی میں اضافہ، گرمی کی لہریں، طوفانی بارشیں، قحط اور سیم وتھور۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو زرعی اشیا سستی فراہم کرے، ڈیم بنائے تاکہ مطلوبہ پانی مل سکے۔نئے ڈیم بن جائیں تو پاکستان میں آب پاشی کا رقبہ چھ کروڑ ایکڑ تک پہنچ سکتا ہے۔

ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ پاکستانی کسانوں کی اکثریت کھیتی باڑی کے فرسودہ طریقے اپنائے ہوئے ہے۔ان طریقوں کی وجہ سے کھیت میں پانی، کھاد اور ادویہ زیادہ استعمال ہوتی ہیں جبکہ پیداوار بھی کم ملتی ہے۔اب تو ایسے جدید طریقے سامنے آ چکے جن کی مدد سے پانی و کھاد کم استعمال ہو تی جبکہ پیداوار بڑھ جاتی ہے۔پاکستانی کسانوں کو چاہیے کہ وہ بھی کاشت کاری کے جدید طریقے اپنا لیں۔گندم ہی کو لیجیے جو اہل پاکستان کا من پسند کھاجا ہے۔

ہمارے کسان فی ایکڑ تین ٹن گندم سالانہ اگاتے ہیں۔دیگر ملکوں میں پانچ ٹن اگنا معمول بن چکا۔نیوزی لینڈ میں تو کسان فی ایکڑ 17 ٹن تک گندم اگا رہے ہیں۔گویا ہمارے کسان جدید زرعی طریقے اپنا لیں تو گندم کی پیداوار بڑھنے سے اسے باہر سے نہیں منگوانا پڑے گا۔وطن عزیز میں گندم کی طلب ہر سال بڑھ رہی ہے۔پاکستانی کسان قابل کاشت رقبے کے 80 فیصد رقبے پہ گندم اگاتے ہیں مگر وہ مقامی ضروریات پوری نہیں کر پا رہی۔لہذا بیرون مالک سے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔یوں ہمارے ذخائر زر مبادلہ پہ دبائو پڑتا ہے۔

عوام تبدیلیوں سے بے خبر
افسوس ناک امر یہ کہ آب وہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کے نظام خوراک کو جو سنگین خطرات لاحق ہو چکے، پاکستانی میڈیا انھیں کامل طور پر نمایاں نہیں کر رہا۔اس لیے پاکستانی عوام بھی ان تبدیلیوں سے بے خبر ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ بس اس سال غیر معمولی لحاظ سے زیادہ بارشیں ہو گئیں۔اگلے سال کچھ نہیں ہو گا۔حالانکہ بتایا جا چکا کہ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آب وہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں کئی موسمیاتی آفتیں جنم لے سکتی ہیں۔خاص طور پہ پاکستان گرمی کی شدید لہروں اور طوفانی بارشوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔

طوفانی بارشیں دنیا میں جنم لیتا نیا عجوبہ ہے۔یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب فضا میں آبی بخارات یا نمی زیادہ ہو جائے۔چناں چہ جب بھی اور جہاں بھی بخارات سے لدے بادل برس پڑیں، وہاں بہت تیز بارش ہوتی ہے۔ان طوفانی بارشوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر بھی ڈیموں کی تعمیر ضروری ہے۔وجہ یہ کہ ایسی بارشوں کا پانی تیزی سے بہہ جاتا ہے اور زمین میں جذب نہیں ہوتا۔لہذا صرف ڈیم بنا کر پانی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

یہ واضح رہے، سال رواں میں اپریل سے جون تک پاکستان میں جنوبی پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقے گرمی کی شدید لہروں کی زد میں رہے۔بلکہ جیکب آباد دنیا کا گرم ترین مقام قرار پایا۔وہاں ویٹ بلب درجہ حرارت بھی بہت بلند ہوتا ہے۔اس درجہ حرارت میں انسان وحیوان کا جسم پسینہ چھوڑ کر اپنے آپ کو ٹھنڈا نہیں کر پاتا۔چناں بدن گرم ہونے لگتا ہے۔یہ حالت برقرار رہے تو انسان بے ہوش ہو جاتا ہے۔اور اس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔گویا پہلے گرمی کی زبردست لہروں نے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو ٹارگٹ کیا اور پھر یہ علاقے زوردار بارشوں کا نشانہ بن گئے۔

پاکستان کے عوام اور حکومتوں، دونوں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ آب وہوائی تبدیلیوں سے رونما ہوتی تبدیلیوں کے اثرات معمولی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے پہ ڈرامائی نتائج مرتب کریں گے۔

پہلا نتیجہ تو یہی ہے کہ گرمی کی لہروں سے پیدا شدہ قحط اور طوفانی بارشوں سے جنم لینے والے سیلاب ہمارے نظام ِخوراک کے لیے بڑا خطرہ بن چکے۔پاکستان زرعی ملک ہے۔یہاں آب پاشی کا بہت بڑا نیٹ ورک موجود ہے۔مگر اس سال پہلے قحط اور پھر سیلابوں نے زراعت کو بہت نقصان پہنایا۔ چناں چہ باہر سے گندم، پیاز، ٹماٹر اور دیگر اشیائے خورونوش منگوانا پڑیں۔ظاہر ہے، یہ درآمدہ غذائیں مہنگی ہوں گی۔لہذا عوام ِپاکستان کو مذید مہنگائی اور بھوک سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔

ایک اور منڈلاتا خطرہ وسیع پیمانے پر ہجرت ہے۔قحط، بارشوں اور شدید گرمی کی وجہ سے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی کثیر آبادی خصوصاًشہروں کی سمت ہجرت کر سکتی ہے۔تب شہروں کے نظام پر شدید دبائو پڑ جائے گا۔اب بھی کراچی، لاہور، فیصل آباد اور دیگر شہر آبادی میں اضافے کی وجہ سے ان گنت مسائل کا شکار ہیں۔سرکاری ادارے اطمینان بخش طریقے سے تمام سہولیات شہریوں کو فراہم نہیں کر پاتے۔آب وہوائی تبدیلیوں سے متاثر مہاجرین بھی شہروں میں آن بسے تو مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔تب شہری زندگی مذید متاثر ہو گی۔

تباہ کُن انسانی سرگرمیاں
دنیا میں اب بھی ایسے مردوزن بستے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث آب وہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے جنم نہیں لیا۔ان کا دعوی ہے کہ یہ تبدیلیاں قدرتی ہیں۔پاکستان میں جنم لیتے موسمیاتی حالات نے دنیا کے سبھی لوگوں پہ آشکارا کر دیا کہ یہ تبدیلیاں پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ان کے باعث خوفناک تباہیاں بنی نوع انسان کا مقدر بن سکتی ہیں۔

غرض پاکستان کے حالات دوسرے ملکوں کی خاطر خطرے کی گھنٹی ہیں۔اور جیسا کہ فیجی کے وزیراعظم نے کہا:’’پاکستان میں سیلاب لانے کے ذمے دار اور مجرم دنیا کے سبھی انسان ہیں۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ دور جدید کا انسان اپنی ہوس ولالچ کے سبب کرہ ارض کا قدرتی توازن تباہ کر رہا ہے۔

پاکستان کو سمندروں کی سطح بڑھنے سے بھی خطرات لاحق ہیں۔دنیا بھر میں گلیشئر پگھلنے کے باعث سمندروں کی سطح بڑھ رہی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ یہ سطح بڑھتی رہی تو مستقبل میں پاکستان کے کئی ساحلی علاقے سمندر کا حصہ بن جائیں گے۔یہ ممکن ہے کہ کراچی، گوادر اور پاکستانی ساحلوں کی دیگر آبادیاں زیر آب آ جائیں۔پھیلتا سمندر کئی لاکھ ایکڑ زرعی زمین بھی ہڑپ کر جائے گا۔یوں پاکستانی زراعت کو مذید نقصان پہنچے گا۔

پاکستان میں کوئی قدرتی آفت آئے تو فی الحال حکومت بیرون ممالک سے مطلوبہ مقدار میں اناج ، سبزیاں اور دالیں منگوا لیتی ہے۔مگر یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ تقریباً سبھی ملک آب وہوائی تبدیلیوں سے متاثر ہیں۔وہاں بھی قحط، سیلاب، جنگلوں کی آگ، سمندری طوفان، طوفانی بارشیںاور جنگیں بھی کھیتی برباد کر ڈالتی ہیں۔ان بین الاقوامی آفتوں کے باعث بیرون ممالک بھی نظام خوراک تہہ وبالا ہو چکا۔یہ نظام زرعی اشیا مہنگی ہونے کے مسئلے سے بھی دوچار ہے۔

درج بالا حالات سے واضح ہے، حکومت پاکستان اور عوام کو بھی قومی نظام ِخوراک کو تحفظ دینے اور محفوظ کرنے کے لیے فوری و ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔نئے ڈیموں کی تعمیر خصوصاً بہترین فیصلہ ہو گا۔

ساتھ ساتھ خاص طور پہ چھوٹی زمینوں کے مالک کسانوں کو زرعی اشیا سستے داموں دی جائیں ۔بجلی بھی سستی دی جائے۔ان اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔مثلاً جو کسان بددل ہو کے زراعت ترک کر رہے ہیں، وہ کھیتی باڑی کی طرف پھر مائل ہوں گے۔جبکہ زراعت میں نئی سرمایہ کاری آئے گی۔اس طرح قومی زراعت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔