کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 25 ستمبر 2022
کڑکتی دھوپ میں سایہ مرا ابھر آیا؛
کوئی تو جاننے والا چلو نظر آیا۔
فوٹو: فائل

کڑکتی دھوپ میں سایہ مرا ابھر آیا؛ کوئی تو جاننے والا چلو نظر آیا۔ فوٹو: فائل

غزل
کڑکتی دھوپ میں سایہ مرا ابھر آیا
کوئی تو جاننے والا چلو نظر آیا
انا کے جھگڑوں کو فی الفورختم کرتے ہوئے
میں اس کے ساتھ مراسم بحال کر آیا
تمہارے تلخ رویوں کو ہنس کے سہ سہ کر
میں اپنے ظرف کے اعلی مقام پر آیا
اٹھاکے خواب نئے دل کی نوکری کے عوض
میں اپنے کام کی اجرت وصول کر آیا
حواس و ہوش ہی جیسے گنوا دیے میں نے
جب اس سے ملنے کا لمحہ قریب تر آیا
خوشا نصیب کہ لمبی مسافتوں کے بعد
تری وفاکا ستارہ بھی اوج پر آیا
ہمارے دل کو تو بننا ہی تھا وفا کا چمن
تو خوشبوؤں کی طرح دل میں جب اتر آیا
معیدؔ اس کو گلے سے لگا لیا میں نے
سحر کا بھولا ہوا شام کو جو گھر آیا
(جہانگیر معید۔ڈی جی خان)

۔۔۔
غزل
کہنی ہے ایک زندہ غزل رہنمائی کر
اے روح ِ میر آ مری مشکل کشائی کر
کرنا ہیں د ستخط تجھے میثاق ِ عشق پر
شہ رگ سے خون لے کے اسے روشنائی کر
بینائیوں میں گھلنے لگی ہیں اداسیاں
کچھ دیر خواب ہی میں سہی رونمائی کر
اپنا ہر اختیار محبت کو سونپ دے
اور پھر غلام ہو کے بھی فرمانروائی کر
تو جانتا ہے شہر میں خوشیوں کا قحط ہے
اپنی ضرورتوں سے زیادہ کمائی کر
(نوازش علی ندیم۔ ملتان)

۔۔۔
’’منظر‘‘
سارے منظر دل کے اندر
یوں ٹھہرے ہیں ساتھ
جیسے دن کے پیچھے فوراً
آ جاتی ہے رات
وقت کے سارے منظر دلکش
جو تھے یاد میں ٹھہرے
آج مجھے کچھ یوں ہے لگتا
جیسے سپنے سنہرے
لیکن جب ہے آنکھ کھلی تو
بس ہے اب برسات
سارے منظر دلکش تھے وہ
کس کو یاد رکھوں
نیند کے در پر دستک دوں یا
درد سے بات کروں
ایسے چلتے ہیں یہ منظر
ہر رستے پر ساتھ
جیسے میرا سایہ ہوں
جو رہے ہمیشہ ساتھ
سارے منظر دل کے اندر
یوں ٹھہرے ہیں ساتھ
جیسے دن کے پیچھے فوراً
آ جاتی ہے رات
( تسنیم مرزا۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
یار میرے مرے اشکوں کی روانی دیکھو
آنکھ سے بہتا ہوا نمکین سا پا نی د یکھو
جس قد ر آج ضعیفی میں وہ تنگ دست ہوا
اُس کی گزری ہوئی تم شوخ جوانی دیکھو
ریت گیلی پہ میں لکھتا ہوں مقالہ تب تک
آ کے بیٹھی ہے وہاں آپ وہ رانی دیکھو
گر نہ پہچان سکو آپ خدو خا ل مرے
گھر میں رکھی ہوئی تصویر پرانی دیکھو
خوب تو ہے ارے مطلع بھی غزل کا یارو
میں نے لکھا ہے ریاضت سے جو ثانی دیکھو
(اسد رضا سحر۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل
کیسے بھولوں یہ میرے بس میں نہیں
مجھ سے ناطے وہ تیرے بس میں نہیں
ایک میلہ ہے گہما گہمی کا
یہ غموں کے اندھیرے بس میں نہیں
نہ دیا نہ چراغ ہے کوئی
میرے گھر کے اندھیرے بس میں نہیں
سوکھی ٹہنی پہ سوکھے پتوں کے
عارضی ہیں بسیرے بس میں نہیں
کیسے گزرے گی زندگی ساری
ڈستی شامیں، سویرے بس میں نہیں
بارشوں کا بھی بوجھ تھا ان پر
اشک اتنے گھنیرے بس میں نہیں
میں اکیلا ہوں ساری دنیا میں
رشتے ناطے یہ میرے بس میں نہیں
شہر ڈوبے ہیں بستیاں ڈوبیں
کیا کریں یہ وڈیرے بس میں نہیں
میرے بس میں تو کچھ نہیں بزمی
راتیں بے بس سویرے بس میں نہیں
(شبیر بزمی، لاہور)

۔۔۔
غزل
یاد ہے رات خواب کی صورت
پیاری پیاری جناب کی صورت
لب گلابی وہ یاد آتے ہیں
جب بھی دیکھوں گلاب کی صورت
کر لو شامل نصاب میں ہم کو
عشق کے سچے باب کی صورت
ہم کو سو جا لگا کے سینے سے
پڑھتے پڑھتے کتاب کی صورت
پھر تصور میں نین وہ جاگے
جب بھی دیکھی شراب کی صورت
کھینچے راحلؔ تمھاری جانب دل
جب بھی ہو اضطراب کی صورت
(علی راحل۔بورے والا)

۔۔۔
غزل
بے ارادہ ذہن و دل کے رابطے مٹ جائیں گے
اس کتابِ زندگی کے حاشیے مٹ جائیں گے
ساتھ میرا چھوڑنے سے پیشتر یہ سوچ لے
زندگی کے موت سے بھی فاصلے مٹ جائیں گے
روحِ آدم کی طرح اٹھ جائے گی اوپر خرد
ہر کسی کی سوچ کے سب زاویے مٹ جائیں گے
اب کے بھی کیدو نے چل دی چال کوئی پھر نئی
منتظر اس ہیر کے پھر حوصلے مٹ جائیں گے
ہم نے سوچا ہی نہ تھا صابر عطاء اس دور میں
احترام زندگی کے ضابطے مٹ جائیں گے
(محمد صابر عطاء تھہیم۔لیہ)

۔۔۔
غزل
درد دل سے نکال دوں کیسے
بہتے دریا کو ٹال دوں کیسے
دوستوں سے فریب کھائے ہیں
تم کو کس کی مثال دوں کیسے
بے ضمیروں کو چارہ گر کہہ کر
اپنی جاں کو وبال دوں کیسے
یہ مزاروں پہ جا کے جھکتے ہیں
ان کو رتبہ کمال دوں کیسے
حاکموں کو خدا لکھوں اب میں؟
حکمِ رب کو میں ٹال دوں کیسے
مجھ کو رب سے ملائے رکھتا ہے
ہجر دل سے نکال دوں کیسے
میں تو ارسہ فقیرِ مولا ہوں
خود کو کوئی جمال دوں کیسے
(ارسہ مبین۔فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
لجامِ دل ہے کوئی اسپِ بے مہار نہیں
وہ شہ سوار اب اتنا بھی شہ سوار نہیں
پہنچے والے ہیں دریا کے ہم کنارے پر
تُو اب سفینۂ دل سے ہمیں اتار نہیں
زمین دائرہ در دائرہ طواف میں ہے
کسی بھی شے پہ ہمارا کچھ اختیار نہیں
نثار ہونے لگا ہے تجھی پہ نظمِ جہاں
اب اپنے بکھرے ہوئے بال تو سنوار نہیں
ابھی ابھی در و دیوار نے کہا مجھ سے
حسین تو تو ہمیں بے نوا پکار نہیں
(حسین فرید۔ تلمبہ)

۔۔۔
غزل
ٹوٹنے دیجیے کچھ خواب چلے جائیں گے
آپ کی چاہ میں بیتاب، چلے جائیں گے
اس کو سمجھاؤ، کرے درد کی شدت میں کمی
اس طرح تو مرے اعصاب چلے جائیں گے
مجھ کو لگتا تھا بچھڑتے ہوئے جاں جائے گی
کیا خبر تھی ترے آداب چلے جائیں گے
پہلے جائے گا مرا تخت و مقدر اور پھر
رفتہ رفتہ مرے احباب چلے جائیں گے
(لاریب کاظمی ۔مانسہرہ)

۔۔۔

’’ چاند سی لڑکی‘‘
وہ سندر چاند سی لڑکی
وہ اجلے بادلوں کے خواب میں تنہا کھڑی لڑکی
حسیں پلکیں اٹھا کر مسکراتی ہے
اجالا ہے، اندھیرا ہے! بھلا کیا ہے؟
وہ سمجھی ہے کہ بادل عافیت کا سائباں ٹھہرے
وہ سمجھی ہے کہ بادل ہے تو راحت ہے
مگر اس نے نہیں جانا
گھٹا کی آخری حد کا کنارہ کتنا کالا ہے
وہاں پر گھات میں قسمت کی بڑھیا منتظر اُس کی
کہ کب وہ بادلوں پہ دوستی کا، عافیت کا، حق جتاتی ہے
انہیں اپنی محبت کا کوئی نغمہ سناتی ہے
اسے ایسا ہی کرنا تھا، کیا اُس نے
گرج گونجی، چمک لپکی تو پیڑوں سے اڑے پنچھی
وہ لڑکی خود سے کہتی ہے
سہیلی! کتنی تاریکی اُمڈ آئی
ہتھیلی پر تھا جو امید کا جگنو
کہاں کھویا۔۔۔۔
وہ سندر چاند سی لڑکی
بہت مغموم بیٹھی ہے کہ بادل کو چھوا کیونکر
ادھر قسمت کی بڑھیا بادلوں کو گھیرے لاتی ہے
مسلسل بُڑبڑاتی ہے۔۔۔ ’’بڑی آئی۔۔۔بڑی آئی۔۔۔ چلو بھاگو‘‘
وہ جن سے لو لگائی تھی وہی بادل
یکایک زہر اگلتے ہیں
سیہ بارش برستی ہے، کوئی رستہ نہیں ملتا
وہ سندر چاند سی لڑکی سیہ راہوں میں یوں کھوئی
کبھی پھر مل نہیں پائی
وہ سندر چاند سی لڑکی
(فائزہ صابری نوا، لاہور)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔