امتیازی سلوک

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 24 ستمبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کراچی کا انفرا اسٹرکچر پہلے ہی پسماندہ ہے، دو ماہ کی بارشوں نے سڑکوں ، سیوریج کے نظام اور پانی کی فراہمی کے نظام کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں اور موٹر سائیکل والوں کا سفر مشکل ہوگیا ہے۔

ایک انگریزی اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں طبی ماہرین کے حوالہ سے تحریر کیا گیا کہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر موٹر سائیکل کے ذریعہ سفر کرنے والے 50 فیصد افراد کمر کے درد کا شکار ہوگئے۔ ان ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی بناء پر کئی خوفناک حادثات رونما ہوئے۔

شہر میں ورکنگ ڈے کے علاوہ ہفتہ اور اتوار کو بڑی سڑکوں پر ٹریفک جام ہونا معمول بن گیا ہے۔ کے الیکٹرک نے بجلی کے نرخوں میں پھر اضافہ کردیا۔ سوئی گیس کے نرخ بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔

مرتضیٰ وہاب پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی خصوصی رحمت ہے۔ حکومت سندھ نے گزشتہ ماہ سندھ کے تمام بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹرز، ڈپٹی کمشنر مقرر کیے مگر اس فیصلہ کا اطلاق مرتضیٰ وہاب پر نہیں ہوا۔ مرتضیٰ وہاب عارضی طور پر ایڈمنسٹریٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات اگر منعقد ہوئے تو منتخب میئر ان کی جگہ لے گا۔

مرتضیٰ وہاب نے اس سال کے اوائل میں بلدیہ کراچی کی مالیاتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہریوں پر ایک نئے ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کا مدعا تھا کہ یہ ٹیکس بجلی کے بلوں کے ذریعہ وصول کیا جائے گا۔ شہر کے منتخب نمایندوں اور سول سوسائٹی نے اس تجویز کو مسترد کیا تھا ، مگر اب کے ایم سی نے کے الیکٹرک کے بلوں کے ذریعہ اس ٹیکس کی ادائیگی شروع کردی ہے۔

کراچی کے شہری اس فیصلہ سے اتنے مایوس ہیں کہ ان کے غصہ کا نشانہ کے الیکٹرک بن رہی ہے۔کے ایم سی کے سابق افسروں کا کہنا تھا کہ مرتضیٰ وہاب نئے ٹیکس لگانے کے بجائے جو ٹیکس پہلے سے عائد ہیں ان کی وصولی کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ بلدیہ کراچی کے ٹھیکوں میں شفافیت کے اصول کو اپنایا جائے تو بلدیہ کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے۔

کے ایم سی میں ساری زندگی فرائض انجام دینے والے ڈائریکٹر تعلقات عامہ حسن امام صدیقی کا مدعا ہے کہ آکٹرائے کی آمدنی بلدیہ کراچی کو ملنی چاہیے۔ بلدیہ کراچی کو ہوائی، سمندری اور ریل کے ذریعہ جانے والے سامان پر ٹیکس لگانا چاہیے ، وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر یہ بھی کہتے ہیں کہ خاص طور پر کراچی کے ضلع جنوبی میں بہت سی قدیم اور پرانی عمارتیں جن میں بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں وغیرہ کے دفاتر ہیں ان کی لیز ختم ہوچکی ہے۔

لیز کا نیا فارمولہ طے ہونا چاہیے تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلدیہ کراچی کو اپنی حدود میں اپنی دکانوں کا دوبارہ سروے کرنا چاہیے، یوں ہر آدمی پر ٹیکس لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ جب مرتضیٰ وہاب نے یہ تجویز پیش کی تھی تو بجلی اور گیس کے نرخ اتنے زیادہ نہیں بڑھے تھے۔

نیپرا کا ادارہ ہر مہینہ ان نرخ میں اضافہ کررہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں کراچی کوڑے کے ٹیلوں کا شہر بن گیا اور کوڑے کا مسئلہ نیویارک ٹائمز کا موضوع بنا۔ حکومت نے پہلے چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیا۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا ادارہ قائم کیا۔ اس ادارہ میں افسروں کو بھاری تنخواہ پر رکھا گیا۔ ان سارے اقدامات سے شہر میں معمولی تبدیلی رونما ہوئی۔

ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ٹیکس کا اطلاق سندھ کے دیگر شہروں پر نہیں ہوگا ، کراچی میں جرائم بڑھ گئے ہیں ، کوئی شخص شہر میں محفوظ نہیں۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ اب اخبارات میں صرف ڈاکوؤں کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت کی خبریں ہی شایع نہیں ہوتیں بلکہ شہریوں نے بھی ہتھیار سنبھال لیے اور اب اسٹریٹ کریمنلز کی ہلاکتوں کی خبریں بھی متواتر آرہی ہیں۔ ہجوم کا ملزموں کو سزا دینا معاشرہ میں تبدیلی اور ریاست پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔

کراچی پولیس کے سربراہ جاوید اوڈھو نے تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی معلومات کا یوں انکشاف کیا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم لاہور اور اسلام آباد سے کم ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں میں جرائم کی شرح کراچی سے زیادہ ہے، مزید انھوں نے یہ فلسفہ بیان کیا کہ کراچی کے تاجر جرائم کا واویلہ کرتے ہیں ، پھر کہتے ہیں کہ بیرون ممالک سے سرمایہ کاری نہیں آرہی ہے۔ کسی پولیس افسر نے اپنی کارکردگی کا دفاع کرنے کے لیے انتہائی بھونڈا طریقہ اختیار کیا ۔

لاہور اور اسلام آباد میں شہری سکون سے سڑکوں پر ٹہلتے ہوئے موبائل فون پر باتیں کرتے ہیں، انھیں کوئی خوف نہیں ہوتا کہ کوئی ملزم بندوق دکھا کر موبائل چھین لے گا۔ ایک خاتون نے جاوید اوڈھو کے اس فلسفہ پر یوں تبصرہ کیا کہ ’’ خدا کرے اس پولیس افسر کا کوئی قریبی عزیز اسٹریٹ کرائم کا شکار نہ ہو مگر جس دن ایسا ہوا جاوید اوڈھو کو اپنے بیان پر شرمندگی ہوگی۔‘‘

کراچی میں پولیس کا نظام فرسودہ ہوچکا۔ کراچی پولیس اور امن و امان کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر رپورٹروں کا بیانیہ ہے کہ پولیس میں سفارش اور رشوت کے بغیر کسی افسر کی پوسٹنگ نہیں ہوتی۔ جب بھی پولیس میں بھرتی ہوتی ہے تو یہ الزام لگتا ہے کہ کراچی کے نوجوانوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعہ جرائم کا قلع قمع کیا گیا ، اگر شہر میں آسانی سے اسلحہ درآمد نہیں ہوگا تو جرائم کی شرح کم ہوگی۔

حکومت سندھ نے گواہوں کے تحفظ کا قانون منظور نہیں کیا۔ اس قانون میں گواہوں کو تحفظ دینے کے ساتھ جس دن وہ عدالت میں گواہی دے اس کو خطیر معاوضہ بھی ملنا چاہیے۔

اس پر آشوب دور میں اچانک یہ خبر ذرایع ابلاغ میں شایع ہوئی کہ ’’ نائن زیرو میں آتشزدگی‘‘ یہ عمارت کئی برسوں سے بند ہے۔ ہر شخص کو اس خبر پر حیرت ہوئی۔ اب ڈپٹی کمشنر نے اس عمارت کو مسمار کرنے اور میڈیکل سینٹر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ عمارت ایک لسانی سیاسی جماعت کا ہیڈکوارٹر تھی۔ شہر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس عمارت سے ذہنی وابستگی رکھتا ہے۔ اس عمارت کے منہدم ہونے سے لسانی تفریق بڑھے گی۔

دنیا میں جمہوریت کے ارتقاء پر تحقیق کرنے والے سارے ماہرین کی یہ رائے ہے کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی نہیں لگائی جاتی بلکہ انھیں جمہوری عمل میں شامل ہونے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اس فیصلہ سے مختلف لسانی گروہوں میں نفرت بڑھنے لگی۔ پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور مصطفیٰ کمال کے درمیان معاہدوں میں نچلی سطح کے اختیارات کے بلدیاتی نظام کے نظام پر اتفاق کیا گیا۔ عمران خان کی حکومت کو فارغ کرنے کے لیے ایک معاہدہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوا۔

دوسرا معاہدہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہوا۔ ایم کیو ایم ان معاہدوں کے بعد وفاقی حکومت کا حصہ بن گئی۔ سندھ کی حکومت اس معاہدہ کو بھول گئی ، اگر 28 اکتوبر کو انتخابات ہوئے تو ایک کمزور نظام وجود میں آئے گا۔ مرتضیٰ وہاب عارضی ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ انھیں نئے ٹیکس کے معاملہ کو منتخب اراکین بلدیہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔

دنیا کے جدید ممالک کی طرح کراچی میں سپر بلدیہ کراچی قائم ہونی چاہیے۔ دنیا کے جدید شہروں کی طرح کراچی پولیس بھی میئر بلدیہ کی نگرانی میں ہونی چاہیے۔ حیرت ہے کہ سندھ کی حکومت مختلف لسانی گروہوں کو قریب لانے کے بجائے امتیازی فیصلے کررہی ہے، یہ ایک خطرناک رجحان بن گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔