- خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ سامنے آگئی
- کراچی کے اسکول میں طالب علم پر بہیمانہ تشدد، ہاتھ فریکچر
- گورنر نے الیکشن کمیشن کو خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دے دی
- قومی اسمبلی اجلاس: شازیہ مری شہدا کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں
- یوکرین جنگ میں روس کی مدد پر امریکا نے ایران پر مزید پابندیاں عائد کردیں
- پولیس لائن دھماکے کی ابتدائی رپورٹ نے سیکورٹی انتظامات پر سوالات اٹھا دیئے
- سعودی عرب؛ 4 روزہ مفت ٹرانزٹ ویزے پر عمرے اور سیاحت کی اجازت
- والدین کو جلاکر قتل کرنے والے سفاک بیٹے کو 2 بار عمر قید کی سزا
- پاکستان میں کورونا وائرس کےنئے ویریئنٹ بی ایف سیون کی تصدیق
- سانحہ پشاور کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، کور کمانڈرز کانفرنس
- آئی ایم ایف کی بنگلادیش کیلیے 4.7 ارب ڈالر قرضے کی منظوری
- پشاور خود کش حملے کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی خراسانی گروپ نے قبول کی ہے،وزیرداخلہ
- ایل پی جی کی قیمت میں 60 روپے فی کلوگرام کا بڑا اضافہ
- اپنی موت کا ڈراما رچانے کیلیے جرمن لڑکی نے ہم شکل بلاگر کو قتل کردیا
- سانحہ پشاور پر آرمی چیف پارلیمنٹ کو بریفنگ دیں، نورعالم خان
- کراچی میں ڈاکوؤں کی سڑک کے بیچ میں آزادنہ لوٹ مار کی تصاویر وائرل
- سندھ حکومت بی آر ٹی ریڈ لائن پروجیکٹ کی 100 فیصد اونر شپ لیتی ہے، شرجیل انعام میمن
- سانحہ پشاور کے بعد ضرب عضب جیسے آپریشن کی ضرورت ہے، وزیردفاع
- ایف آئی اے نے سیلاب متاثرین کے نام پر جعل سازی کرنے والا ملزم گرفتار کرلیا
- اے این ایف کی کارروائی؛ بلوچستان کے پہاڑوں سے بھاری مقدار میں منشیات برامد
توہین عدالت: عمران خان کی معافی؟
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کے کیس میں عدالتی احکامات کے مطابق عمران خان نے معافی مانگ لی ہے اور عدالت ان کی معافی سے مطمئن ہے تاہم انھیں عدالت میں اپنی معافی کے حوالے سے بیان حلفی بھی داخل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
دوسری طرف عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالتی سماعت کے بعد کچھ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نے غیر مشروط معافی نہیں مانگی ہے بلکہ معذرت کی ہے۔
اب غیر مشروط معافی اور معذرت میں کیا فرق ہے یہ تو وہ ہی بہتر جانتے ہیں، قانون میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں، لیکن حامد خان کے مطابق فرق ہے۔2014میں بھی جب عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوئی تھی تب بھی عمران خان نے کہا تھا کہ ’’میں نے تو معافی نہیں مانگی میرے وکیل نے عدالت سے معافی مانگی ہے۔‘‘ اس لیے ابہام رکھنا پرانا کھیل ہے۔
عمران خان نے عدالت میں تیسرے موقعے پر معافی مانگی ہے۔ وہ تب بھی معافی مانگ سکتے تھے جب انھیں عدالت کی جانب سے شوکاز موصول ہوا تھا۔ لیکن انھوں نے ایک سخت جواب جمع کروایا جس کو عدالت نے مسترد کر دیا۔ عدالت نے صرف جواب مسترد نہیں کیا بلکہ انھیں دوسرا موقع دیا کہ وہ دوبارہ سوچ سمجھ کر اپنا جواب لائیں اور ماضی میں توہین عدالت کے مقدمات کے فیصلوں کو سامنے رکھیں۔
قانونی ماہرین کے نزدیک یہ عدالت کی جانب سے عمران خان کو ایک بہت بڑی رعایت تھی کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے مقدمات کے لیے جو رہنما اصول متعین کیے گئے ہیں۔
ان میں صاف لکھا گیا ہے توہین عدالت کی کارروائی میں ملزم کو پہلے موقع پر کھلے دل اور صاف نیت سے معافی مانگنی ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ کے مطابق اگر پہلے موقع پر معافی نہیں مانگی جاتی تو پھر یہ سمجھا جائے گا کہ ملزم نے معافی کھلے دل اور صاف نیت سے نہیں مانگی ہے۔ اس لیے عمران خان کو دوسرا موقع مل جانا ہی بڑی عدالتی رعایت قرار دیا گیا۔تا ہم عمران خان نے دوسرے موقع پر بھی معافی نہیں مانگی اور عدالت میں ایک اور جواب جمع کروادیا ۔
عدالت نے اس جواب کو بھی مسترد کر دیا۔ اس طرح دوسرا موقع ضایع ہوگیا۔ اس کے بعد عدالت نے عمران خان پر توہین عدالت کی کارروائی میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے تاریخ مقرر کر دی۔ اس موقع پر عمران خان روسٹرم پر آئے اور انھوں نے عدالت سے گفتگو کی جس کو عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ انھوں نے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔ جس پر عدالت مطمئن ہے تا ہم وہ اپنی معافی کا حلف نامی جمع کروائیں۔
ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ عمران خان نے پہلے موقع پر معافی کیوں نہیں مانگی ۔ جب بات فرد جرم تک پہنچی تو انھوں نے معافی کا راستہ اپنا لیا۔ اگر ایسا ہے تو یہ کھلے دل اور صاف نیت سے معافی نہیں ہوئی بلکہ قانونی مجبوریوں کی وجہ سے معافی مانگی گئی جو قانون کی منشا اور تقاضوں پر پوری نہیں اترتی۔ ایک رائے بن رہی ہے کہ عمران خان کو بار بار رعایت دی جا رہی ہے۔
کیا عام ملزم کو بھی اس طرح بار بار مواقعے دیے جاتے ہیں؟ کیا عام ملزم کے ساتھ بھی ایسی رعایت برتی جاتی ہیں، کیا عمران خان کے قد کاٹھ کی وجہ سے انھیں یہ عدالتی رعایت ملی ہے جب کہ عام آدمی کو معمولی ہونے کی وجہ سے یہ رعایت نہیں ملتی ہے۔
یہ بھی رائے ہے کہ جب تک بیان حلفی نہ آجاتا عدالت کو اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ عدالت کا اپنا ذہن اور فیصلہ بیان حلفی سے پہلے نہیں سنانا چاہیے تھا۔ اگر عدالت واقعی مطمئن تھی تو پھر کیس ختم کر دیتی ۔ بیان نوٹ کرتی دستخط کرواتی اور کیس ختم کر دیتی۔ اب جب حکم نامہ میں لکھوا دیا ہے کہ ہم مطمئن ہیں تو اگر بیان حلفی کے الفاظ غیر مشروط معافی کے نہ ہوئے تو کیا ہو گا؟ کیا بیان حلفی مسترد کر دیا جائے؟ اس طرح یہ کھیل چلتا جائے گا۔ جیسے مقدمات میں تاریخ پر تاریخ ملتی ہے یہاں بھی ہوگا۔
عمران خان پر 2014ء میں بھی سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی کارروائی ہوئی تھی اور تب جب انھیں معافی دی گئی تھی تو ساتھ وارننگ بھی دی گئی تھی کہ دوبارہ توہین عدالت نہیں کریں گے۔ کیا عدالتی معاونین کو سپریم کورٹ کی یہ وارننگ عدالت کے سامنے نہیں رکھنی چاہیے تھی۔ لیکن وہ تو پہلے دن سے عدالت سے کہہ رہے ہیں کہ معافی کے بغیر ہی کارروائی ختم کر دی جائے۔ اس لیے وہ یہ وارننگ عدالت کے سامنے کیسے لاتے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کون عدالت کے ریکارڈ پر لائے گا کہ عمران خان کو پہلے جب معافی ملی تھی تو ساتھ وارننگ ملی تھی۔
ایسے میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ جس ملزم کے خلاف دوسری دفعہ توہین عدالت کی کارروائی ہو جائے، جس ملزم کو دوسری دفعہ توہین عدالت کا شوکاز جاری ہو جائے کیا اس کی معافی دوسری دفعہ قبول ہو سکتی ہے؟ کیا آپ بار بار توہین عدالت کریں اور بار بار معافی مانگ لیں تو کیا بار بار معافی مل سکتی ہے؟ ویسے بھی قانون میں اگر کسی ملزم نے پہلی دفعہ جرم کیا ہو تو اس کے ساتھ تو رعایت کی جا سکتی ہے لیکن اگر وہی جرم دوسری دفعہ کیا جائے تو رعایت نہیں کی جاسکتی۔
اس تناظر میں عمران خان نے توہین عدالت کا جرم دوبارہ کر دیا ہے۔ قانونی ماہرین اس پر بھی دو رائے رکھتے ہیں۔ ایک رائے کے مطابق معافی دی جا سکتی ہے جب کہ دوسری یہ رائے موجود ہے کہ دوبارہ معافی کی قبولیت مشکل ہے۔
جج صاحبان نے نہ تو ضمیر کی روشنی میں فیصلے کرنے ہیں اور نہ ہی ذاتی رائے اور پسند ناپسند کی روشنی میں فیصلے کرنے ہیں، انھوں نے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔ یہی ان کا حلف ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بار بار کہا ہے کہ وہ توہین عدالت کے قانون کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن جب تک پاکستان میں توہین عدالت کا قانون موجود ہے وہ اس قانون کے پابند ہیں۔
اسی لیے انھوں نے عمران خان کو بھی توہین عدالت کے ماضی کے فیصلے پڑھنے کا کہا تھا کیونکہ عدالت بھی آئین قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی پابند ہوتی ہے۔ بہرحال میرے نزدیک ابھی کیس ختم نہیں ہوا۔ ابھی عمران خان کو بیان حلفی جمع کروانا ہے۔ جس کی زبان بھی غیر مشروط معافی لکھی ہوگی۔ وہ اگر مگر نہیں کر سکتے۔اس کے بعد بھی عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ تیسرے موقع اور دوسری دفعہ توہین عدالت کرنے والے کی معافی کس حد تک قبول کی جا سکتی ہے۔ باقی عدالت کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں۔ وہ عدالتی رعایت بھی دے سکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔