تھر میں اموات، گڈ گورننس کا پول کھل گیا؛ لاڑکانہ میں پانچ نئے تھانوں کا قیام

محمود پٹھان  جمعـء 21 مارچ 2014
تھر خشک سالی سے متاثر ہے، جبکہ سندھ کا کونہ کونہ مسائل کا شکار ہے۔  فوٹو : فائل

تھر خشک سالی سے متاثر ہے، جبکہ سندھ کا کونہ کونہ مسائل کا شکار ہے۔ فوٹو : فائل

تھر میں حالیہ قحط سالی نے سندھ حکومت اور محکمہ صحت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ تھر سانحہ میں بچوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع نے ہمیں ملک اور بین الاقوامی سطح پر کہیں بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔

ایک جانب معصوم بچے بھوک و افلاس سے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں تو دوسری جانب عوام کی جان و مال کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے نام نہاد سیاست دانوں نے شاہی دعوتیں اڑائیں ۔ ہمارے حکمرانوں کی یہ حالت دیکھ کر انسانیت منہ چھپائے پھرتی ہے۔ ہمارا ملک خاص طور پر سندھ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے ہمیشہ محروم ہی رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ گڈ گورننس کا نہ ہونا اور اداروں میں سیاسی بھرتیاں اور بے پناہ کرپشن ہے۔ تھر خشک سالی سے متاثر ہے، لیکن سندھ کا کونہ کونہ مسائل کا شکار ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے پچھلے اور موجودہ اقتدار میں سندھ میں ایک بھی ایسی یونین کونسل دکھا دے، جہاں سڑکیں، راستے سلامت، تعلیم اور صحت کا معیار بہتر ہونے کے ساتھ دیگر بنیادی سہولیات موجود اور ان سے عوام مطمئن ہوں۔ حال ہی میں یو این کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہروں اور دیہی علاقوں میں صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 15ہزار حاملہ خواتین دوران حمل ہلاک ہو جاتی ہیں۔ ہر ایک لاکھ بچوں کی پیدائش پر 260 مائیں جب کہ ہر ایک ہزار بچوں کی پیدائش پر 40 بچے پیدائش کے پہلے روز فوت ہو جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں یو این کے تعاون سے چلنے والے حکومت سندھ کے محکمہ سندھ رورل سپورٹ یونٹ کے احساس پروجیکٹ کی جانب سے لاڑکانہ پریس کلب میں ایک روزہ میڈیا ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا، جس میں صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، اس موقع پر سرسو اور احساس پروجیکٹ کے ڈسٹرکٹ پروگرام منیجرز عبداللطیف سومرو اور غلام حسین نے بتایا کہ سروے کے مطابق سندھ بھر میں لاڑکانہ اور نواب شاہ، ماں اور بچے کی صحت کے مسائل میں اول، شکارپور، بدین دوسرے، جب کہ گھوٹکی اور جام شورو تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان علاقوں میں حاملہ خواتین کے چیک اپ اور علاج میں تاخیر، دیہی علاقوں میں ٹرانسپورٹ کی کمی کے علاوہ سرکاری اسپتالوں اور بنیادی مراکز صحت میں ادویات اور تربیتی یافتہ عملے کی نہایت کمی ہے۔ جس کے باعث خواتین اور بچوں کی اموات کی شرح بھی ان شہروں میں سب سے زیادہ ہے۔ تاہم سرسو یونائیٹڈ نیشن کے تعاون سے مسائل کے حل کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس وقت امن و امان کی صورت حال بھی خاصی مخدوش ہے۔ کراچی میں7 ماہ سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے، لیکن اب سندھ بھر میں امن امان کی صورت حال کو کنٹرول اور بہتر کرنے کے ساتھ دہشت گردی کے بڑہتے واقعات سے نمٹنے کے لیے سندھ پولیس میں لاڑکانہ، حیدرآباد، سکھر، میر پور خاص ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پاک فوج کے ریٹائرڈ جوانوں کو مذکورہ ڈویژن میں تعینات ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کے ذریعے سندھ پولیس میں بطور کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل بھرتی کرلیا گیا ہے۔

جن میں لاڑکانہ شہر سے ایک سو اڑتالیس ریٹائرڈ فوجی اہل کار شامل ہیں، جن کی بھرتی کا وزارت داخلہ سندھ کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ بھرتی کیے گئے اہل کاروں کے کوائف ایڈیشنل آئی جی کراچی کے دفتر طلب کئے گئے ہیں، تاکہ ان اہل کاروں کی ٹریننگ شروع کی جائے۔ ان دنوں ایس ایس پی لاڑکانہ خالد مصطفی کورائی ضلع بھر میں امن امان کی صورت حال برقرار رکھنے اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف خاصے متحرک نظر آ رہے ہیں۔ انہیں لاڑکانہ ضلع میں پانچ نئے تھانوں کی منظوری بھی مل گئی ہے۔ ایس ایس پی نے حال ہی میں تین تھانوں کی حدود کچے کے علاقے میں آپریشن کے دوران نہ صرف پانچ سنگین مقدمات میں مطلوب جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا بلکہ اسی لاکھ روپے مالیت سے زاید تیار پوست اور بھنگ کی فصل کو بھی تلف کروایا، اب انہوں نے ضلع لاڑکانہ میں جرائم کی وارداتوں میں ملوث اٹھارہ ملزمان کو اشتہاری قرار دے کر ان پر انعام مقرر کرنے کی سفارش کے لیے سندھ حکومت کو تحریری درخواست ارسال کی ہے۔ اس میں جتوئی برادری سے تعلق رکھنے والے چار جرائم پیشہ افراد پر 35 لاکھ روپے انعام مقرر کرنے کی سفارش شامل ہے، جن میں پولیس کو مطلوب درو جتوئی، ابراہیم جتوئی، ڈھولو جتوئی پر دس، دس لاکھ جب کہ احمد علی جتوئی پر پانچ لاکھ روپے انعام رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔

ایس ایس پی نے ڈیوٹی سے غیر حاضر پولیس اہل کاروں سمیت عوامی شکایات، فرائض میں غفلت برتنے اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی میں مبینہ ملوث دو سو سے زاید پولیس اہل کاروں جن میں ایک سو تیس کا تعلق جتوئی برادری سے ہے، پر برہمی کا اظہار کیا اور انہیں آخری وارننگ دیتے ہوئے اپنا قبلہ درست کر نے کی ہدایات دیں۔ ایس ایس پی نے ان اہل کاروں میں سے چالیس سے زاید کو پانچ نئے تھانوں جن میں اﷲ آباد، گڑھی خدا بخش بھٹو، شہید بے نظیر بھٹو، سیہڑ اور لاشاری ایٹ بنگل ڈیرو تھانے شامل ہیں، میں تعینات کردیا ہے۔ ایس ایس پی نے جہاں پولیس اہل کاروں کے ساتھ سزا اور جزا کا طریقہ کار اپنایا وہیں ڈی آئی جی لاڑکانہ خادم حسین رند کی جانب سے لاڑکانہ رینج پولیس اسپورٹس فیسٹیول 2014 میں اپنے ضلع کے پولیس اہل کاروں کے ساتھ مختلف گیمز میں حصہ لیا، جس سے جوانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ لاڑکانہ پولیس ٹریننگ اسکول میں تین روزہ لاڑکانہ رینج پولیس اسپورٹس فیسٹیول 2014 کا اختتام دل چسپ کھیلوں، رنگا رنگ میوزیکل نائٹ اور خوب صورت آتش بازی سے ہوا۔ اختتامی تقریب میں سیکریٹری اسپورٹس لئیق احمد، ڈی آئی جی خادم رند، ایس ایس پی لاڑکانہ خالد مصطفی کورائی، رینجرز کے کرنل ملک مختیار کے علاوہ لاڑکانہ ڈویژن کے پانچوں اضلاع کے ایس ایس پیز، اے ایس پیز اور خواتین پولیس اہل کاروں سمیت سیکڑوں کھلاڑی اہل کاروں نے شرکت کی۔ فیسٹیول میں قمبر پولیس نے پہلی، لاڑکانہ نے دوسری، ڈی آئی جی رینج اور پی ٹی ایس نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اسپورٹس ایونٹ میں بیسٹ ایتھلیٹ انور علی مغیری اور خواتین میں یاسرہ ابڑو قرار پائے۔

پچیس سال کے بعد تین روزہ فیسٹیول پولیس افسران اور اہل کاروں کے چہروں پر خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیرنے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ جس میں آخری دن کرکٹ، رسہ کشی، ملھ کے دل چسپ مقابلے ہوئے۔ جن میں کرکٹ میں لاڑکانہ، رسہ کشی میں پی ٹی ایس اور ملھ میں قمبر نے پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ مہمان خصوصی سیکریٹری اسپورٹس محمد لئیق احمد اور ڈی آئی جی لاڑکانہ نے فاتح کھلاڑیوں میں گولڈ اور سلور میڈل، ٹرافیز اور پانچ، پانچ ہزار روپے کے نقد انعامات تقسیم کیے۔ بعدازاں میوزیکل نائٹ کا اہتمام بھی کیا گیا، جس میں سندھ کے معروف گلوکار طفیل سنجرانی، سجن سندھی اور نام ور مزاحیہ فنکار قادر بخش مٹھو نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ پولیس اہلکاروں نے سندھی گیتوں پر خوب رقص کیا تو رینجرز کے جوانوں نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا اس موقعہ پر ایس ایس پی لاڑکانہ بھی جھومے بغیر نہ رہ سکے۔ اس موقع پر ڈی آئی جی لاڑکانہ اور ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ اس طر ح کے مواقع آیندہ بھی فراہم کیے جائیں گے تاکہ جوانوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے۔ واضح رہے کہ اسپورٹس فیسٹیول میں لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، جیکب آباد، کشمور، کندھ کوٹ اور شکارپور کی گیارہ ٹیموں نے حصہ لیا۔ جن میں وومن پولیس، کرائم برانچ، سی آئی ڈی، سی آئی اے، اسپیشل برانچ، پی ٹی ایس، ایس آر پی، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی آفس کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔

سیکریٹری اسپورٹس سندھ لئیق احمد نے کہا ہے کہ محکمہ کھیل صوبہ سندھ میں کھیلوں کی سرگرمیوں کے فروغ کا ذمہ دار ہے۔ حکومت سندھ نے نو سو ملین روپے کی لاگت سے ویران کھیل کے میدانوں کو آباد کرنے، سکھر اور میر پور خاص میں ہاکی کے فروغ کے لیے آسٹروٹرف لگانے، سکھر میں فیلڈ لائیٹس کی تنصیب سمیت پچاس سے زاید اسکیمیں شروع کی تھیں، جن میں سے سترہ اسکیمیں رواں سال جون تک مکمل کرلی جائیں گی۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار ڈی آئی جی لاڑکانہ خادم حسین رند کے ہمراہ پولیس اسپورٹس فیسٹیول کی اختتامی تقریب میں شرکت کے موقع پر صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے کیا۔ سیکریٹری اسپورٹس لئیق احمد نے اعتراف کیا کہ انہیں فنڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے، لیکن وہ جلد اس مشکل پر قابو پالیں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس حکام کی جانب سے پولیس اسپورٹس فیسٹیول اچھا قدم ہے، جس سے نیا ٹیلینٹ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ شہید بے نظیر بھٹو اسٹیڈیم سمیت سندھ کے متعدد زبوں حال کھیل کے میدان جلد آباد کیے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔