مدد کریں‘ بکیں نہیں

جاوید چوہدری  جمعرات 20 مارچ 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

بحرین خلیج کا ایک چھوٹا سا ملک ہے‘ اس کا رقبہ 780 مربع کلو میٹر اور آبادی صرف 13 لاکھ ہے‘ یہ ملک چاروں اطراف سے پانی میں گھرا ہوا ہے‘  سعودی عرب کے شاہ فہد بن عبدالعزیز نے 1986ء میں سعودی شہر الخبر سے بحرین کے دارالحکومت منامہ  تک25 کلو میٹر لمبا پل بنوایا‘ یہ پل سمندر پر بنایا گیا اور یہ بحرین سے دنیا کا واحد زمینی رابطہ ہے‘ بحرین پر الخلیفہ خاندان کی حکومت ہے‘ یہ لوگ لبرل اور معتدل مزاج ہیں چنانچہ آپ کو بحرین میں سعودی عرب جیسی سختی نظر نہیں آتی‘ اس ملک میں بڑی حد تک دبئی جیسی آزادی ہے‘ مساجد بھی آباد ہیں اور ریستوران‘ ڈسکوز اور خرابات بھی‘ سعودی عرب کا متموّل طبقہ بحرین کے اعتدال اور شاہ فہد کے ’’کاز وے پل‘‘ کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے‘ سعودی عرب میں جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے چنانچہ بدھ کی رات اور جمعرات کی سہ پہر ہزاروں سعودی شہری بحرین چلے جاتے ہیں‘ یہ ’’ویک اینڈ‘‘ بحرین کے ساحلی علاقوں میں گزارتے ہیں اور ہفتے کی شام سعودی عرب واپس آ جاتے ہیں‘ سعودی حکومت اس رجحان کو سپورٹ کرتی ہے‘ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ دولت ہے‘ دنیا کے جس معاشرے میں حد سے زائد دولت آ جاتی ہے اس میں بگاڑ کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں‘ سعودی عرب کے شہری 70 سال سے متمول ہیں‘ یہ دولت مندی اب آہستہ آہستہ معاشرے پر اپنے اثرات چھوڑ رہی ہے‘ سعودی عرب کے مفکرین کا خیال ہے ہم نے اس دولت کو راستہ نہ دیا تو یہ معاشرے کو جڑوں سے ہلا دے گی‘ سعودی عرب نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے بحرین سے زمینی راستہ استوار کیا‘ اسے لبرل بنایا اور اس لبرل ازم کی وجہ سے دولت کے برے اثرات شاہ فہد کازوے پل پار کر کے بحرین چلے گئے اور یوں سعودی معاشرہ بچ گیا‘ دوسری وجہ بحرین کی جغرافیائی پوزیشن ہے‘ یہ خلیج کی طرف سے سعودی عرب کا دفاع ہے‘ بحرین معاشی لحاظ سے خلیج کے دوسرے ممالک سے پیچھے ہے‘ یہ تیل کی دولت سے بھی اتنا مالا مال نہیں جتنا خطے کے دوسرے ممالک ہیں چنانچہ سعودی عرب نے بحرین کو سیاحتی مرکز کی شکل دے دی‘ سعودی شہری یہاں کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہیں‘ ان لوگوں نے صرف نیو ائیر نائٹ پر یہاں پانچ کروڑ ریال خرچ کر ڈالے‘ یہ رقم بحرین کی معیشت میں اہم رول ادا کر رہی ہے۔

یہ صورتحال اگر یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن پچھلے بیس برسوں میں خطے میں انتہائی اہم تبدیلیاں آئیں‘ صدام حسین ایک وقت میں سعودی عرب کا اتحادی تھا‘ کویت پر قبضے کے بعد سعودی عرب صدام کا دشمن بن گیا‘ سعودیہ اور کویت کی درخواست پر امریکا نے دو بارہ عراق پر حملہ کیا‘ نائین الیون کے بعد امریکا نے نہ صرف عراق کو فتح کر لیا بلکہ یہ عراق پر قابض بھی ہو گیا‘ امریکا نے یہ ساری لڑائی سعودی عرب اور کویت کی مالی مدد سے لڑی‘ امریکا سعودی عرب سے اربوں ڈالر بھی وصول کرتا رہا‘ اس کی زمینی اور فضائی حدود بھی استعمال کرتا رہا اور اسلامی ممالک پر سعودی عرب کے اثر و رسوخ کا فائدہ بھی اٹھاتا رہا‘ سعودی عرب اس تمام تر نقصان کے باوجود خوش تھا‘ اس کی وجہ صدام حسین تھا‘ سعودی عرب صدام حسین کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا اور امریکا نے سعودی عرب کے اس سب سے بڑے خطرے کو ختم کر دیا‘ سعودی عرب کے لیے دوسرا بڑا خطرہ ایران تھا‘ شاہ ایران کے دور میں امریکا دونوں کا اتحادی تھا‘ یہ دونوں میں سفارتی توازن قائم رکھتا تھا لیکن انقلاب کے بعد امریکا ایران سے نالاں ہو گیا اور اس نے نہ صرف ایران سے سفارتی تعلقات توڑ دیے بلکہ ایران پر پابندیاں بھی لگا دیں‘ ایران اور امریکا کی یہ دشمنی سعودی عرب کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی اور سعودی عرب نے امریکا سے تعلقات کی لو اونچی کر لی لیکن پھر 2013ء میں امریکا اور ایران کے درمیان دشمنی کی برف پگھل گئی‘ ایرانی صدر حسن روحانی اور صدر باراک اوبامہ کے درمیان رابطہ ہوا اور ایران امریکا تعلقات کا نیا باب شروع ہو گیا‘ تعلقات کے اس نئے دور نے سعودی عرب اور پاکستان دونوں کو متاثر کیا‘ یہ دونوں اس خطے میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی تھے لیکن اب تیسری اور مضبوط طاقت بھی میز پر بیٹھ چکی ہے‘ ایران سے امریکی تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب کی توقعات کو دھچکا لگا‘ یہ امریکا سے اس بے وفائی کی توقع نہیں کرتا تھا چنانچہ اس کا دل ٹوٹ گیا‘ آپ اب ایک دوسری صورتحال بھی ملاحظہ کیجیے‘ عرب ممالک پچھلے پانچ برسوں سے ’’عرب بہار‘‘ کا نشانہ بن رہے ہیں‘ پانچ برسوں میں عرب دنیا کے وہ تمام قلعے ریت کی دیوار بن گئے جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا تھا دنیا ختم ہو سکتی ہے مگر اقتدار کی یہ دیواریں نہیں گر سکتیں‘ 14 جنوری 2011ء کو عوام نے تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کی 24 سال پرانی حکومت اڑا دی اور زین العابدین سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔

23 اگست 2011ء کو لیبیا کے کرنل قذافی کا 42 سال پرانا اقتدار طرابلس کی گلیوں میں بکھر گیا اور وہ عوام جو کبھی کرنل قذافی کا کلمہ پڑھتے تھے‘ وہ کرنل قذافی کی لاش کوگھنٹوں گلیوں میں گھسیٹتے رہے‘ حسنی مبارک مصر کا مقبول اور مضبوط ترین حکمران تھا‘ یہ 30 سال برسر اقتدار رہا مگر عوام نے 11 فروری 2011ء کو التحریر اسکوائر میں اس کا جنازہ نکال دیا اور یہ آج ہر دوسرے دن عدالت میں عبرت کی نشانی بنتا ہے‘ اردن کے شاہ عبداللہ کا خاندان 1951ء سے اقتدار میں چلا آ رہا ہے‘ یہ بھی اپنی فائنل اننگز کھیل رہا ہے اور رہ گیا شام تو شام کا اسد خاندان  بھی43 سال سے اقتدار میں چلا آ رہا ہے‘ شام بری طرح خانہ جنگی کا شکار ہے اور یہ خاندان اب کسی بھی وقت عبرت کا نشانہ بن جائے گا اور ان کے بعد سعودی عرب کا شاہی خاندان اس بہار کا اگلہ ٹارگٹ ہو گا‘ سعودی شاہی خاندان اس خطرے سے پوری طرح آگاہ ہے‘ ایک اسٹڈی یہ بھی کہتی ہے‘ عرب بہار کے پیچھے بھی امریکی ایجنسیاں ہیں‘ امریکا عرب علاقوں سے شاہی خاندانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے‘ یہ مسلمان ممالک کو آپس میں لڑانا چاہتا ہے اور عرب ممالک میں جمہوریت لانے کا خواہاں ہے‘ آپ ان دونوں کارڈز کو سامنے رکھئے اور اس کے بعد اس زاویے پر بھی غور کیجیے‘ سعودی عرب کے نظام کو سب سے بڑا خطرہ شیعہ مکتبہ فکر سے ہے‘ ایران کے ساتھ اس کی دہائیوں سے لڑائی چل رہی ہے‘ ایران سعودی عرب سے زیادہ فاصلے پر نہیں‘ سعودی عرب کی آبادی کا 15 فیصد شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے‘ عراق میں امریکا بیٹھا ہے‘ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات سرد مہری کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ عراق کی آبادی کا 65 فیصد حصہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے‘ یہ شیعہ سعودی سرحدوں پر آباد ہوتے جا رہے ہیں۔ شام میں سنیوں کی اکثریت ہے لیکن وہاں شیعہ خاندان حکومت میں ہے‘ بشارالاسد کو بھی ایران کی پشت پناہی حاصل ہے‘ سعودی عرب کے سیاحتی مرکز بحرین میں 70 فیصد شیعہ ہیں‘ سنی مکتبہ فکر کی تعدادصرف 30 فیصد ہے‘ تاہم شاہی خاندان سنی العقیدہ ہے‘ بحرین کے شیعہ بھی منظم ہیں اور یہ بحرین میں اقتدار کی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ لوگ اگر سعودی عرب یا بحرین میں انقلاب لانے کی کوشش کریں گے تو امریکا عملی طور پر سعودی عرب اور بحرین کا ساتھ نہیں دے گا‘ یہ میچ کے فائنل ہونے کا انتظار کرے گا‘ اس صورتحال میں سعودی عرب اور بحرین دونوں کو فوج چاہیے‘ بحرین کا شاہی خاندان ایسے فوجی تلاش کر رہا ہے جو شیعہ شورش کے دوران بحرین کے شاہی خاندان اور سنی العقیدہ عوام کی حفاظت کریں جب کہ سعودی عرب کو ایسی فوج چاہیے جو اسے شام‘ ایران‘ عراق اور بحرین سے بھی بچائے رکھے اور سعودی عرب کو ملک کے اندر اٹھنے والی شورشوں سے بھی محفوظ رکھے۔

دنیا میں اس وقت یہ خدمت صرف تین اسلامی ملک کر سکتے ہیں‘ ترکی‘ مصر اور پاکستان۔ یہ تین ملک فوجی لحاظ سے مضبوط ہیں‘ ترکی پچھلے دس برسوں میں دنیا کی 15 ویں بڑی معیشت بن گیا‘ یہ معاشی‘ سیاسی اور سفارتی لحاظ سے بھی خودمختار ہو چکا ہے اور ایران‘ شام اور عراق تینوں ممالک کی سرحدیں بھی ترکی سے لگتی ہیں‘ یہ اگر سعودی عرب کی فوجی امداد کر دیتا ہے تو ان تینوں ممالک کی شیعہ کمیونٹی ترکی کو تباہ کر دے گی چنانچہ یہ کسی قیمت پر سعودی عرب کو فوج نہیں دے گا‘ مصر کی فوج بھی مضبوط ہے لیکن یہ اس وقت بری طرح اندرونی مسائل کا شکار ہے‘ یہ بھی سرِ دست سعودی عرب کی مدد نہیں کر سکتی اور تیسرا اور آخری آپشن پاکستان ہے‘ پاکستان دنیا کی واحد جوہری طاقت اور پانچویں بڑی فوجی طاقت ہے‘پاکستان اور پاکستان کے موجودہ حکمران دونوں سعودی شاہی خاندان کے انتہائی قریب ہیں چنانچہ سعودی عرب کی نگاہ انتخاب پاکستان پر آ کر ٹھہر گئی‘ سعودی عرب اور بحرین دونوں کو پاکستان اور پاکستانی فوج کی مدد چاہیے‘ ہمارے چند دوستوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب اور بحرین کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ سعودی عرب اور سعودی خاندان نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی‘ ہم ساٹھ سال سے سعودی عرب کی مدد لے رہے ہیں اور اس وقت اگر سعودی عرب اور اس کے اتحادی بحرین کو پاکستان کی ضرورت ہے تو ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے‘ بحرین پنجاب سے ریٹائر فوجی بھرتی کرنا چاہتا ہے‘ ہمیں اجازت دے دینی چاہیے‘ اس سے بحرین اور پاکستان کے تعلقات بھی بہتر ہوں گے اور ہمارے ریٹائرڈ شہریوں کو بھی نوکری مل جائے گی‘ اس سے ان کے معاشی حالات اچھے ہو جائیں گے‘ سعودی عرب کو ایک ڈویژن فوج چاہیے‘ ہمیں یہ بھی دے دینی چاہیے‘ ہم جب اپنے فوجیوں کو افریقہ‘ مشرق بعید اور مشرقی یورپ بھجوا سکتے ہیں تو فوج کو سعودی عرب اور بحرین بھجوانے میں کیا حرج ہے؟ ہمارے ان دوستوں کا خیال درست ہو سکتا ہے‘ ہمیں اپنے دوست ملکوں کی مدد کرنی چاہیے مگر یہ ڈیل صرف اور صرف برادرانہ ہونی چاہیے‘ کسی مسلک یا کسی برادری اسلامی ملک کے خلاف نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اس معاملے میں کسی قسم کا معاوضہ یا مالی امداد بھی نہیں لینی چاہیے‘ ہم آزاد اور خودمختار ملک ہیں‘ ہماری فوج ہمارا فخر‘ ہمارا مان ہے‘ یہ کرائے کی فوج نہیں کہ جس ملک کو ضرورت پڑے وہ معاوضہ دے اور ہمارے فوجی لے جائے‘ ہم کوئی بکاؤ ملک بھی نہیں ہیں کہ دنیا ہمارے اکاؤنٹ میں ڈیڑھ ارب ڈالر جمع کرائے اور ہم سے جو چاہے منوا لے‘ ملکوں میں اور بھاڑے کے ٹٹوؤں میں فرق ہونا چاہیے اور یہ اس فرق کو قائم رکھنے کا آخری موقع ہے‘ ہم نے نائین الیون کے بعد امریکا کے سامنے جھک کر مار کھائی تھی‘ ہم نے اگر آج سعودی عرب اور بحرین سے سودا کر لیا تو ہم اپنی رہی سہی عزت بھی داؤ پر لگا دیں گے چنانچہ ہم دوستوں کی مدد کریں‘ دوستوں کے ہاتھوں بکیں نہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔